اقدامِ حسین، اسوہ انبیا کی روشنی میں
تمھید
دینِ اسلام میں کسی شخصیت کو مطلقاً معیارِ حق قرار نہیں دیا گیا۔ دین میں معیارِ حق، وحی اور اس کے طے کردہ اخلاقی اور شرعی اصول اور قوانین ہیں۔ دینی شخصیات ،بشمول انبیائے کرام علیھم السلام، کے اقوال، افعال اور اعمال کو دین و شریعت کے اصولوں پر پورا اترنے کے بعد ہی نمونہ عمل یا معیارِ مطلوب کے مطابق قرار دیا گیا ہے۔ کسی بھی شخصیت کا کوئی بھی قول اور فعل اگر دین کے مسلّمہ اصولوں یا معیارِ مطلوب کے خلاف یا اس سے کم نکلے تو اسے رد کرنا اور اس پر متنبہ ہونا دین کا تقاضا ہے۔ اس اصول کی طرف رہنمائی قرآن مجید نے بڑی وضاحت سے کی ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کا حکم دیتے ہوئے اللہ نے فرمایا:
وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ (سورہ ممتحنہ، 60:12)
اور (بیعت کرنے والی یہ خواتین) بھلائی کے کسی معاملے میں تمھاری نافرمانی نہ کریں گی۔
یہ معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ کسی منکر کا حکم نہیں دے سکتے تھے، تاہم بطور اصول یہ لکھ دیا گیا کہ رسولؐ کی اطاعت بھی صرف معروف یعنی بھلائی کے کاموں میں ہی کی جا سکتی ہے۔ بالفرض محال، رسولؐ کی بھی کوئی بات غیر معروف پر مبنی ہوتی تو اس کی اطاعت بھی نہ کی جاتی کیوں کہ خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت کی ممانعت کا اصول یہاں بھی لا گو ہے۔
وحی کی روشنی میں پیغمبر، ہمارے لیے نمونہ عمل اس لیے بنتے ہیں کہ ان کے درست اعمال پر خدا کی طرف سے کھلی یا خاموش تائید اور ان سے سرزد ہو جانے والی فرو گزاشتوں پر بر وقت تنبیہ آ جایا کرتی تھی، جس سے مطلوبہ معیاری عمل واضح ہو کر سامنے آ جاتا تھا۔ وحی کا سلسلہ رک جانے کے بعد اب ایسا کوئی امکان ہی موجود نہیں کہ کوئی شخصیت کامل نمونہ عمل بن سکے۔ زمانہ بعد از وحی میں افراد کی کوتاہیوں اور فروگزاشتوں پر خدا کی طرف سے نہیں بلکہ اس وحی کی روشنی میں اس وحی سے حاصل ہونے والے فہم کے ذریعے سے تنقید و تصویب کی جائے گی، اس تنقید میں خطا کا امکان بھی البتہ موجود رہے گا جسے دلائل کی بنا پر پرکھا اور سمجھا جائے گا۔ تاہم، بطور اصول یہ طے ہے کہ وحی کی کسوٹی پر جو عمل پورا اترے گا، وہی عمل نمونہ عمل اور لائق تقلید مانا جائے گا۔ کوئی شخصیت اور اس کا کوئی عمل بھی اپنے آپ میں کوئی معیار نہیں ہے۔ اس اصول سے کسی بھی شخصیت کو استثنا حاصل نہیں۔
اسی اصول کی روشنی میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے یزید کی حکومت کے خلاف اقدام کا مطالعہ و تجزیہ اس مضمون میں کیا جائے گا۔ حضرت حسین کے اقدام کے نتیجے میں برپا ہونے والے المناک واقعہ کربلا نے امتِ مسلمہ کی نفسیات اور ان کے علوم و ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس کی عالمگیر تاثیر اس کی متقاضی ہے کہ قرآن مجید کی اساسی اور ابدی اصولوں اور ہدایات اور اسوہ انبیا، جس کو خدا کی طرف سے سندِ تائید حاصل ہے، کی روشنی میں اس کا درست تجزیہ کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ مسلم اذہان اس کے مضمرات سے واقف ہو سکیں اور دین کی روشنی میں اپنے لیے درست لائحہ عمل اختیار کر سکیں۔
اصلاح احوال کے لیےاسوہ انبیا
انبیا کی دعوت اور اصلاحی تحریکوں کا مقصد ایمان باللہ اور آخرت کی جواب دہی کی بنیاد پر نفوس کا تزکیہ اور اصلاح ہوتا ہے جس کے نتیجے میں کبھی ایک صالح معاشرہ بھی وجود میں آ جاتا تھا، لیکن اپنے اس مقصد کے حصول کے لیے ہتھیار اٹھانا ان کی پالیسی میں شامل نہیں ہوتا۔ دعوتِ دین و اصلاح کے دوران جبر کے حالات میں بھی وہ خود ہتھیار اٹھاتے ہیں نہ اپنے پیروکاروں کو ایسا کرنے کی اجازت دیتے ہیں، حتی کے اپنے دفاع میں وہ ہجرت کر جانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بتاتے۔ البتہ جب اپنی دعوت کے نتیجے میں کسی خطہ زمین پر انھیں ریاست و اقتدار کی طاقت حاصل ہو جاتی ہے تو ہتھیار اٹھاتے ہیں۔ ایسا وہ تب کرتے ہیں جب وہ باقاعدہ جنگ کرنے کی طاقت حاصل کر لیتے ہیں، اور اس کے لیے ایک ریاست اور اس کے وسائل انھیں دستیاب ہو جاتے ہیں۔
انبیا کی زیر نگرانی جنگوں میں تین پہلو پائے جاتے ہیں۔ ایک تو اپنے اور اپنی ریاست کے خلاف دشمن کی طرف سے کی جانے والی جارحیت سے دفاع کے لیے جنگ کرتے ہیں۔ دفاع کا یہ فطری حق ہے، دیگر ریاستوں کی طرح یہ انھیں بھی حاصل ہوتا ہے، دوسرے وہ خدا کے حکم سے ان لوگوں کے خلاف قتال کرتے ہیں جو جبر کی راہ سے افراد کے انتخابِ عقیدہ کی فطری آزادی کے راستے میں رکاوٹ ڈالے ہوئے ہوتے ہیں۔ قرآن اس جبر کو فتنہ یعنی persecution کہتا ہے اور اس کے خاتمے تک انھیں لڑنے کا حکم دیتا ہے:
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَـٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا (سورہ النسا، 4:75)
(ایمان والو)، تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے نہیں لڑتے جو فریاد کر رہے ہیں کہ پروردگار، ہمیں ظالموں کی اِس بستی سے نکال اور ہمارے لیے اپنے پاس سے ہمدرد پیدا کر دے اور اپنے پاس سے حامی اور مددگار پیدا کر دے۔
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّـهِ ۖ فَإِنِ انتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ (سورہ البقرہ، 2:193)
اور تم یہ جنگ اُن سے برابر کیے جاؤ ، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین (اِس سر زمین میں) اللہ ہی کا ہو جائے ۔ تاہم وہ باز آ جائیں تو (جان لو کہ) اقدام صرف ظالموں کے خلاف ہی جائز ہے۔
اس کا حکم چوکہ بصیغہ جمع نظم حکومت کو دیا گیا ہے اس لیے یہ حکم اپنی اس علت کی بنا پر عام ہے۔ جہاں اور جب بھی مذھبی جبر پایا جائے گا اس کے خاتمے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ تیسرے وہ خدا کے ان دشمنوں کے خلاف جنگی اقدام کرتے ہیں، جن پر رسول کے ذریع سے برسوں کی دعوتِ ایمان اور اصلاح کے بعد اتمامِ حجت ہو جاتا ہے اور خدا کے علم کی روشنی میں بتا دیا جاتا ہے کہ ان لوگوں کی اصلاح کی امید باقی نہیں رہی، ان کے مٹ جانے کا وقت آ گیا ہے۔ قدرتی آفات کے ذریعے قوموں کی تباہی کے عام طریقے کے بجائے رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں کے ہاتھوں یہ عذاب نازل کیے جانے کی خبر اور حکم آپ کو درج ذیل آیات میں دیا گیا۔
فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (سورہ التوبہ، 9:5)
(بڑے حج کے دن) اِس (اعلان) کے بعد جب حرام مہینے گزر جائیں تو اِن مشرکوں کو جہاں پاؤ، قتل کرو اور (اِس مقصد کے لیے) اِن کو پکڑو، اِن کو گھیرو اور ہر گھات کی جگہ اِن کی تاک میں بیٹھو۔ پھراگر یہ توبہ کر لیں اور نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو اِن کی راہ چھوڑ دو۔ یقیناً اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔
قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّـهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ (سورہ توبہ آیت 9:14)
اُن سے لڑو، اللہ تمھارے ہاتھوں سے اُن کو سزا دے گا اور اُنھیں ذلیل و خوار کرے گا اور تمھیں اُن پر غلبہ عطا فرمائے گا اور مومنوں کے ایک گروہ کے کلیجے (اِس سے) ٹھنڈے کرے گا۔
قوموں کے بارے میں خدا کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ قوموں کو ایک حد تک مہلت عمل دیتا ہے، انھیں سوچنے سمجھنے اور اصلاح کا موقع دیتا ہے۔ اس کے بعد وہ اگر مسلسل نالائق ثابت ہوتے ہیں تو ان کو مٹا دیا جاتا ہے۔ دنیا کی تاریخ اور قرآن کے صفحات میں اس سنت الہیہ کی داستانیں بیان ہوئی ہیں۔ پھر کسی قوم پر اگر رسول کی طرف سے اتمام حجت ہو جائے تو اس کا معاملہ جلد نمٹا دیا جاتا ہے۔ کیوں کہ رسول، حق کو ان کے سامنے آخری درجے میں واضح کر دیتا ہے۔اس کے بعد ان کے پاس کوئی عذر نہیں رہتا۔
معلوم رسولوں کے سوانح میں اکثر رسول ہجرت کے بعد ریاست و حکومت کے قیام کے مرحلے تک نہیں پہنچے۔ ان کے منکرین خدا کی براہ راست مداخلت سے قدرتی آفات کے ذریعے تباہ کیے گئے۔ دعوت و ہجرت کے بعدریاست کے قیام تک کے یہ مراحل محمد رسول اللہ ﷺ کے ہاں البتہ مکمل ملتے ہیں، آپؐ کے دور میں ریاستی طاقت کے ہاتھوں خدا کے حکم اور اس کی نصرت سے آپؐ کے وقت کے منکرین اور مفسدین کا استیصال کیا گیا۔
اسوہ انبیا سے چند مثالیں:
حضراتِ انبیا کے اسوہ سے یہاں چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
انبیا کی تاریخ میں دیکھیے کہ حضرت موسیؑ اور ان کی قریباً چھ لاکھ نفوس پر مشتمل قوم برسوں فرعون کے مظالم سہتے رہے، لیکن علَم بغاوت بلند کیا نہ ہتھیار اٹھائے۔ حضرت موسی فرعون کو تبلیغ و نصیحت اور بنی اسرائیل کی اصلاح کے کام سے آگے نہیں بڑھے، یہاں تک کہ خدا نے خود فرعون اور اس کی طاقت کو نابود کر دیا۔ پھر بنی اسرائیل پر ایک وقت آیا کہ فلتیوں کی جارحیت سے دفاع اور قومی آبرومندی کی حفاظت کے لیے بنی اسرائیل نے اس وقت کے نبی، سموئیل علیہ السلام سے خود درخواست کی کہ ان پر کوئی بادشاہ مقرر کیا جائے جس کے زیرِ قیادت وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔ اس پر بھی سموئیل نبی علیہ السلام نے ان کا مطالبہ فورا مان لینے کی بجائے فرمایا کہ بادشاہ مقرر ہو جانے کے بعد کہیں وہ اپنی بات سے پھر نہ جائیں۔ دیکھا جا سکتا ہے کہ جنگی مہم جوئی جیسے سنجیدہ معاملے میں ایک نبی اپنی قوم کے لیے کوئی جلد بازی اختیار نہیں کرتا، وہ انہیں دشمن کے خلاف جنگ کے لیے ابھارتا بھی نہیں، بلکہ ان کی اصلاح ہی کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ پھر جب وہ خود تنگ آ کر جنگ کا مطالبہ کرتے بھی ہیں تب بھی ان کی استقامت کے بارے میں اسے اطمینان اگر نہیں ہوتا تو پس و پیش کرتا ہے۔ جنگ جوئی کوئی معمولی چیز نہیں۔ اس میں بڑی احتیاطوں کو مد نظر رکھنے کا درس اس واقعہ میں ہمیں دیا گیا ہے۔
حالتِ کمزوری میں غیر مسلم جارحین کے خلاف اقدام کرنے کے معاملے میں یہ اسوہ انبیا ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس کے برعکس اگر ان انبیا کو جب طاقت حاصل ہوئی تو انھوں نے غیر مسلم حکومتوں کے خلاف ضرورت پڑنے پر جنگی اقدام کرنے سے گریز نہیں کیا۔ اس میں ہمارے پاس حضرت داؤد، حضرت سلیمان اور محمد رسول اللہ علیھم السلام کا اسوہ موجود ہے۔
تاہم، انبیائے بنی اسرائیل کی تاریخ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جہاں کفار کے خلاف جہاد کیا گیا وہاں بنی اسرائیل کے اندر ان کے اپنےغیر صالح بادشاہوں کے خلاف عوام کو ہتھیار اٹھانے کی کوئی ترغیب کسی نبی نے نہیں دی۔ ان غیر صالح بادشاہوں کی اصلاح کے لیےان کے انبیا وعظ و نصیحت اور کلمہ حق کی ادائیگی سے زیادہ کچھ نہیں کرتے تھے، چاہے اس میں ان کی جان ہی چلی جاتی، حضرت زکریا، یحیی، اور عیسیٰ علیھم السلام کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اپنے اندر کے مسلم سماج کی درستی کے لیے ہتھیار اٹھانے کی کوئی ایک بھی مثال انبیا کے اسوہ میں موجود نہیں ہے۔
یہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ ریاست کا قیام دین کا مطالبہ ہے نہ رسول کی دعوت کا مقصد، یہ رسول کی دعوت کا نتیجہ اور خدا کا وعدہ، بشارت اور انعام ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں ایسی کوئی ایک بھی نص موجود نہیں جو ریاست کے قیام کو اسلام کا واجب تقاضا باور کراتی ہو۔ قرآن مجید میں سلطنت و حکومت، خدا کی عطا اور اس کے انعام کے طور پر مذکور ہے، نہ کہ کسی ایسے امر کے طور پر جس کا حصول مسلمانوں پر دینی فریضہ قرار دیا گیا ہو۔ ریاست سے متعلق احکامات اہل حکومت کو دیے گئے ہیں، ایسے ہی جیسے مسلم افراد کی مختلف سماجی حالات کے احکامات قرآن مجید میں دیے گئے ہیں۔ اس سے ریاست کے قیام کا فریضہ نہیں بلکہ ریاست کے قیام کے بعد درست طرزِ حکومت کے لیے خدا کی طرف سے احکام و ہدایات کا اظہار ہوتا ہے۔ قیامِ ریاست کا فریضہ ثابت کرنے کے لیے براہ راست نص درکار ہے جو دستیاب نہیں۔
اسوہ حسین
اموی خلیفہ، یزید بن معاویہ کی حکومت کے خلاف حضرت حسین کے اقدام کی مختلف توجیھات کی گئی ہیں، لیکن ایک بات طے ہے کہ حضرت حسین کے نزدیک سیاست و حکومت میں بگاڑ آ گیا تھا، جس کا براہ راست اثر سماج پر پڑ رہا تھا، وہ اس بگاڑ کو سدھارنے کے خواہش مند تھے۔ اہل عراق کی طرف سے حضرت حسین کے زیرِ قیادت ایک متوازی حکومت کے قیام کی متعدد بار یقین دہانی کے بعد آپ انتہائی اقدام اٹھانے کے لیے پر عزم ہو گئے تھے۔ اپنے خاندان کو عراق منتقل کرنا اسی اقدام کی کڑی تھی۔ حضرت حسین اگر عراق پہنچنے اور اپنی متوازی حکومت منظم کرنے میں کامیاب ہو جاتے، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ حجاز میں اپنی متوازی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے، تو اموی حکومت سے جنگ ناگزیر تھی جیسے عبد اللہ بن زبیر کی حکومت میں امویوں کی ان سے جنگیں ہوئیں، جو آٹھ سال جاری رہیں۔ تاہم حضرت حسین عراق نہ پہنچ سکے، شامی افواج نے آپ کا راستہ روک لیا، ادھر حکومتی جبر کے باعث اہل عراق بھی آپ کی مدد کو نہ پہنچ سکے۔ اس بدلی ہوئی نئی صورت حال میں حضرت حسین نے مذاکرات کے ذریعے معاملہ نمٹانا چاہا: انھوں نے واپس چلے جانے، یزید کے پاس جا کر مذاکرات کرنے یا حکومت کی سرکردگی میں غیر مسلم ممالک کے خلاف ہونے والے جہاد میں اپنی خدمات پیش کرنے کی تین تجاویز پیش کیں، جنھیں فوج کے کمان داروں نے مسترد کر دیا، اور آپ سے یزید کی بیعت پر بضد رہے، جس کے انکار پر وہ المناک سانحہ پیش آیا جسے ہم واقعہ کربلا کے نام سے جانتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ دینِ اسلام کی تعلیمات اور اس کی مستند نمائندہ شخصیات، حضرات انبیا علیھم السلام کے اسوہ کی روشنی میں مسلم سیاست و سماج میں در آنے والے بگاڑ کے سدھار کے لیے سیاسی و عسکری قوت کے استعمال اور اس کے نتیجے میں مسلم گروہوں کے ممکنہ خون خرابے اور بد امنی کا جواز کس حد تک موجود ہے؟
اسوہ حسین کے دینی جواز کی ایک ہی صورت ممکن ہے:
حضرت حسین کے اس اقدام کا جواز صرف اس صورت میں بن سکتا ہے کہ یہ متحقق ہو کہ یزید، حکومت کی طاقت سے عقیدہ و عمل کی دینی آزادیوں پر پابندی عائد کر رہا تھا۔ وہ قرآن کی اصطلاح میں فتنہ برپا کر رہا تھا، یعنی اسلام قبول کرنے یا مسلم سماج کے اسلام پر عمل کرنے کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہا تھا۔ اس لحاظ سے اس کی بیعت، کفر پر بیعت کرنے کے مترادف ہوتی۔ اسی بنا پر حضرت حسین سے بیعت لینے کے لیے اس کے جبریہ ہتھکنڈے بھی فتنہ یعنی persecution کے زمرے میں آ سکتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ حضرت حسین انبیا نے کے اسوہ کے مطابق اسے انذار کیا ہو، برسوں اسے سمجھایا ہو اور اس کے بعد اس کی طرف سے مکمل مایوسی ہوگئی ہو۔ تیسرے یہ کہ اس صورت حال میں حضرت حسین کو اہل عراق کی حمایت کی صورت میں ریاست و اقتدار اگر مل جاتا، جس کی انھیں توقع تھی، تو ان کے اقدام کا جواز بن سکتا ہے۔
سوال مگر یہ ہے کہ کیا یزید کے دور میں ہونے والے حکومتی ظلم اور جور کو کفر اور نفاذِ کفر قرار دیا جا سکتا ہے؟ اگر یہ کفر ثابت ہو سکے تو امام حسین کے اقدام کا جواز تو ایک حد میں ثابت ہو جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ صحابہ کی ایک بڑی تعداد، بشمول فرزندِ علی، محمد بن حنفیہ کے، اور اہل شام سمیت امت کا ایک بڑا حصہ یزید کی بیعت کر کے اس کفر یا کفر کے نفاذ پر رضامند ہو گئے تھے۔ یزید کے دور میں معاملہ اگر دین کی حرمتوں کی پامالی تک پہنچ گیا تھا، جیسا کہ بعض حضرات ایسا باور کراتے ہیں، تو از روئے قرآن، اس وقت کے سب مسلمانوں کا فرض تھا کہ حکمران کی اطاعت سے نکل جاتے، پھر ان کے پاس دو راستے تھے: یزید کے زیرِ حکومت علاقوں سے ہجرت کر جاتے یا عوام کی غالب اکثریت ایک متفقہ رہنما کی قیادت میں خود کو کسی علاقے میں منظم کر پاتی تو پھر وہ حاکم کے خلاف بشرطِ امکانِ کامیابی جنگ کرتے۔ اسوہ انبیا سے یہی رہنمائی ملتی ہے۔
حجاز میں اس وقت بھی اس امت کا جوہر موجود تھا جس نے رسول اللہ ﷺ سے براہ راست تربیت پائی تھی، کم از کم وہی یہ اقدام کرتے، مگر ان کی ایک بڑی تعداد نے تو یزید کی بیعت کر لی تھی۔ جنگ کے لیے تیار ہوئے تو اہل عراق، وہی اہل عراق جن کی بد دینی اور ناقابل بھروسہ ہونے کی گواہی حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ بارہا دے چکے تھے! مزید یہ کہ حضرت حسین بھی دین کے ان اصولوں کی روشنی میں اہل حجاز کو خروج پر ابھارتے نظر نہیں آتے، اور نہ ہی اس مزعومہ کفر کی بیعت کر لینے پر کسی کے خلاف کفر کے ارتکاب کا فتوی ہی دیتے ہیں!
دوسری اہم بات یہ ہے کہ بالفرض ایسا تھا بھی تو کیا حضرت حسین نے یزید کو سمجھانے اور نصیحت کرنے کی ذمہ داری ادا کی تھی اور کیا اس کے انکار کے بعد مایوس ہو کر وہ اس انتہائی اقدام کے لیے تیار ہوئے تھے؟ انبیا کا طریقہ تو یہی رہا ہے جیسے کہ حضرت موسی نے نے فرعون جیسے سرکش اور آمادہ فساد بادشاہ کو برسوں دعوت ایمان و اصلاح دی تھی۔ اور اتمام حجت ہو چکنے کے بعد جب انھیں مایوسی ہو گئی تو فرعون کی تباہی کی دعا کی تھی۔ حضرت حسین نے یزید کو سمجھانے میں کتنا وقت صرف کیا؟ معلوم تاریخ میں سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصلاح احوال کے لیے انھوں نے یزید کو ایک بار بھی مخاطب نہیں کیا۔
دوریزید میں سماج میں دینی آزادی کی صورت حال
صورتِ حالات لیکن،درحقیقت یہ تھی کہ یزید کے تمام تر ظلم و جور کے باوجود، اس وقت کا سماج اپنی روایات اور رسوم میں اسلامی ہی تھا اور آئین و قوانین بھی اسلامی تھے، دینی شعار اور احکامات کی بجا آوری میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ یزید کے بعد بھی آل امیہ تقریباً ایک صدی حکمران رہے، اس تمام عرصے میں اسلام کے تمام شعائر محفوظ رہے، لوگوں کو دین پر عمل کی مکمل آزادی رہی اور دین اپنے تمام متعلقہ علوم میں ترقی بھی کرتا رہا۔ یعنی مذھبی جبر کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا۔ معاملہ بس یہ تھا کہ حکومتی اشرافیہ طاقت کے زور پر قانون سے بالاتر ہو گئے تھے، اور اپنے خلاف بغاوتوں کو کچلنے میں وہ ہر حد پار کر جاتے تھے، نظام عدل کا وہ معیار باقی نہ رہا تھا جس کا نمونہ خلفائے راشدین نے قائم کیا تھا۔ حکومت پر ایک خاندان یعنی بنو امیہ کا قبضہ ہو گیا تھا۔ یہ مسلم سماج کا بگاڑ تھا اور خلافت کو ملوکیت میں بدلنے جیسے بگاڑ کے لیے ہتھیار اٹھانے کا کوئی دینی جواز موجود نہیں۔
ایسے بگاڑ میں کسی مسلح بغاوت یا مسلح اصلاحی کوشش اسوہ انبیا میں تلاش نہیں کی جا سکتی، اور نہ قرآن مجید اس کا کوئی حکم دیتا ہے۔ یہ صورت حال بالکل ایسے ہی تھی جیسے آج ہم اپنے ہاں کی اشرافیہ کو قانون سے بالا دیکھتے ہیں، ان کے خلاف احتجاج بھی اگر جارحانہ صورت اختیار کر جائے تو آج بھی وہ گولی چلانے سے دریغ نہیں کرتے، بعض جگہ ان کے ہاتھوں عزتیں بھی محفوظ نہیں ہوتیں، لیکن اشرافیہ کی اس تمام تر بد اخلاقی اور لاقانونیت کے باوجود سماج کا بنیادی ڈھانچہ آج بھی اسلامی ہی ہے، اور اسی بنا پر اس کے خلاف مسلح خروج کا جواز مہیا نہیں کیا جا سکتا۔ یزید بھی بس ایسا ہی ظالم ہو سکتا تھا۔ اس پر لیکن مذھبی جبر اور کفر کا کوئی الزام ثابت نہیں۔ اس پر کفر کا الزام حضرت زینب نے اس وقت بھی نہیں لگایا، جب سانحہ کربلا کے بعد یزید کے ساتھ ان کی تلخ کلامی ہوئی تھی اور یزید غصے میں آ کر بھی ایک خلافِ شریعت حرکت کرنے کا اعلان کرنے کے باوجود اس پر عمل کرنے کی جرات نہ کر سکا:
"حضرت فاطمہ بنت علی سے مروی ہے کہ جب ہم یزید کے سامنے بٹھائے گئے تو اس نے ہم پر ترس ظاہر کیا۔ ہمیں کچھ دینے کا حکم دیا۔ بڑی مہربانی سے پیش آیا۔ اسی اثنا میں ایک سرخ رنگ کا شامی کھڑا ہوا اور کہنے لگا:امیر المومنین یہ لڑکی مجھے عنایت کر دیجیے اور میری طرف اشارہ کیا۔ اس وقت میں کمسن اور خوب صورت تھی، میں خوف سے کانپنے لگی اور اپنی بہن زینب کی چادر پکڑ لی۔ وہ مجھ سے بڑی تھیں، سمجھدار تھیں، جانتی تھیں یہ بات نہیں ہو سکتی۔ انھوں نے پکار کر کہا: تو کمینہ ہے نہ تجھے اس کا اختیار ہے نہ اسے (یزید کو) اس کا حق ہے۔ اس جرات پر یزید کو غصہ آ گیا۔ کہنے لگا: تو جھوٹ بکتی ہے، واللہ مجھے حق حاصل ہے، اگر چاہوں تو ابھی کر سکتا ہوں۔ زینب نے کہا: ہرگز نہیں، خدا نے تمھیں یہ حق ہرگز نہیں دیا۔ یہ بات دوسری ہے کہ تم ہماری ملت سے نکل جاؤ اور ہمارا دین چھوڑ کر دوسرا دین اختیار کر لو۔ یزید اور بھی خفا ہونے لگا: دین سے تیرا باپ اور تیرا بھائی نکل چکا ہے۔ زینب نے بلا تامل جواب دیا: اللہ کے دین سے میرے باپ کے دین سے میرے بھائی کے دین سے میرے نانا کے دین سے تو نے، تیرے باپ نے تیرے دادا نے ہدایت پائی ہے۔ یزید چلایا: اے دشمن خدا تو جھوٹی ہے! زینب بولیں: تو زبردستی حاکم بن بیٹھا ہے۔ ظلم سے گالیاں دیتا ہے، اپنی قوت سے مخلوق تو دباتا ہے۔ زینب کہتی ہیں: اللہ کی قسم، ایسا لگا کہ اسے حیا آ گئی۔ پھر وہ خاموش ہوگیا۔ اس شامی نے پھر مطالبہ کیا :" اے امیر المومنین مجھے یہ لڑکی عنایت کر دیجیے۔ اس پر یزید غصے سے بولا: دور ہوجا، خدا تجھے موت دے۔" بعد ازاں یزید نے آل حسین کو عزت و احترام سے اپنے ہاں ٹھرایا اور اور پھر عزت و احترام سے انھیں مدینے کے لیے رخصت کر دیا۔ (تاریخ طبری جلد 5، ص 461،462)
تاریخ میں سیاسی معاملات میں منقول ہونے والی انفرادی روایات پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے ہم اس مضمون سے ان سے حتی الامکان اجتناب برت رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ آج بھی سیاسی مخالفین اور ان کے پیروکار کس طرح ایک دوسرے پر مبالغہ آمیز الزامات لگاتے ہیں حتی کے ایک دوسرے کو غدارِ وطن اور گستاخِ دین و مذہب اور مرتد تک ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ آج کے "اخبار احاد" ہیں، یہ مستقبل کے قاری کے لیے کتنے قابل بھروسہ ہو سکتے ہیں؟ ہمارے نزدیک ایسی تاریخی روایات بھی اتنی قابل اعتماد جو سیاسی رقابت اور جانب داری کے جذبے سے مختلف راویوں سے تاریخ میں نقل ہوئی ہیں۔ اسی بنا پر ہم انفرادی روایات کی بجائے تاریخ کے مسلمات تک اپنے بیان کو محدود رکھیں گے۔
ہم یہاں اس وقت کے سماج کے اجتماعی چہرے کی بات کر رہے ہیں جس میں یزید کے عہدِ حکومت سمیت پورے اموی دور میں سماج کی سطح پر اسلامی شعار اور اقدار کا تسلسل برقرار رہا، مذھبی جبر حکومتی پالیسی نہیں تھی۔ان حقائق کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مسئلہ اصل میں یہ تھا کہ سیاست و حکومت کا وہ اسلامی چہرہ گہنا گیا تھا جو خلافت راشدہ میں تاباں تھا۔ عدل و انصاف کی صورتِ حال مثالی نہیں رہی تھی۔ سیاسی مفادات، دینی مفادات پر ترجیح پا گئے تھے۔ حکومتی اہل کار اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے میں بے باک ہو گئے تھے۔ایسے بگاڑ کے سدھار کے لے مسلح جدوجہد کا طریقہ انبیا کا طریقہ نہیں جو قرآن کے اصولوں کی روشنی میں تشکیل پایا ہے۔
جو لوگ سیاست و حکومت کو دین کا مقصود سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک یزید کے دور حکومت کی یہ ناقابل رشک صورتِ حال دین سے ہی انحراف تھا، لیکن جیسا کہ ہم نے پیشتر عرض کیا، سیاست و حکومت کی اصلاح تو دین کا مقصود ہے لیکن خود سیاست و حکومت دین کا مقصود نہیں۔ اسی بنا پر حکومت کے حصول کے لیے کوئی نص موجود نہیں۔ البتہ مسلمانوں کی حکومت کہیں قائم ہو جائے تو اجتماعیت سے متعلق دینی احکام کی بجا آوری مسلم اہل حکومت پر فرض ہو جاتی ہے ۔
بگاڑ فرد میں ہو یا اجتماع میں اس کی تو بس اصلاح کی کوشش ہی ہے جو مصلحین کا فرض ہے۔ لیکن یہ کوئی دینی فریضہ نہیں بتایا گیا کہ وہ اس اصلاح کے لیے طاقت کا استعمال بھی کیا کریں اور تخت حکومت پر قابض ہو کر اصلاح بزور نافذ کریں۔
محسوس یہ ہوتا ہے کہ حضرت حسین کے لیے سیاست کے دائرے میں آنے والا بگاڑ، یعنی عدل و انصاف کی دگرگوں صورتِ حال اور موروثی حکومت بشکل ملوکیت کا قیام ناقابل برداشت تھا، انھیں شاید یہ محسوس ہو رہا تھا کہ جہاں یہ بگاڑ آیا ہے اگر وہیں اس کی روک تھام نہ کی گئی تو سماج کی اصلاح کی راہ مزید دشوار ہو جائے گی۔ یزید کی بیعت ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی، اسلامی مملکت کا ایک حصہ ان کو خلافت کی کرسی پر بٹھانا چاہ رہا تھا، تو دوسرا حصہ اس کے خلاف تھا۔ ان حالات میں یزید کے خلاف اقدام کا جواز شاید اس لحاظ سے بھی حضرت حسین کے نزدیک موجود ہوگا، یعنی حضرت حسین کی نظر میں سیاست اور سماج میں آنے والے بگاڑ کی اصلاح سیاسی نظام کی اصلاح میں تھی۔ یہی وہ نظریہ ہے جس کے قائل بہت سے اہل علم و نظر رہے ہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ نظمِ حکومت میں اصلاح کے لیے حضرت حسین نے اہل عراق کو کب ابھارا تھا؟ یہ تو وہی تھے جنھوں نے خود آپ کو پکارا تھا۔ یہ باور کرنا مشکل ہے کہ اہل عراق نظمِ حکومت میں اصلاح کے لیے بے تاب ہوئے جاتےتھے۔ درحقیقت حضرت حسن کی خلافت سے دست برداری کے بعد وہ اقتدار کے ایوان سے بے دخل ہو گئے تھے۔ طاقت کا مرکز کوفہ سے دمشق منتقل ہو گیا تھا۔ وہ طاقت کے مرکز کو واپس اپنی سر زمین پر منتقل کرنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے حضرت حسین سب سے موزوں شخصیت تھے، جن کے اپنے عزائم بھی یہی تھے کہ نظمِ حکومت کی اصلاح کے لیے طاقت کا استعمال روا یا ناگزیر تھا۔ گویا حضرت حسین اہلِ عراق کی ہوس اقتدار کو اپنے مقصد کے لیے اور اہلِ عراق حضرت حسین کے اصلاحی جذبے کو اپنی راہ سیدھی کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہ رہے تھے۔
سماج کی اصلاح کے دو نظریات:
سیاست و حکومت اور سماج کے بگاڑ کے سدھار کے ہمیشہ دو نظریے موجود رہے ہیں۔ ایک کے مطابق اس بگاڑ کو درست کرنے کے لیے قیادت کسی صالح شخص یا جماعت کو سونپ دینی چاہیے۔ اس کے لیے طاقت کا استعمال کرنا پڑے تو وہ بھی گوارا کر لینا چاہیے۔ باقی سب ٹھیک ہو جائے گا۔ حضرت حسین کا نظریہ یہی معلوم ہوتا ہے۔ اس نظریے کے لیے لیکن کسی نبی و رسول کا اسوہ پیش نہیں کیا جا سکتا۔ اس راہ میں انسانی جانوں کی جانتے بوجھتے تلفی اور بد امنی کو دینی جواز فراہم کرنے کی کوئی دینی بنیاد موجود نہیں۔
اس کے برعکس ایک دوسرا نقطہ نظر یہ رہا ہے کہ سیاست کا بگاڑ یا سدھار، سماج کے بگاڑ اور سدھار کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اصلاح مقصود ہے تو افراد کی جائے جس کا لازمی نتیجہ سماجی و سیاسی نظام کی اصلاح کی صورت میں بھی نکلتا ہے۔ انبیا کا اسوہ یہی رہا ہے۔ عوام کی اصلاح نہ ہو تو حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسا حکمران بھی اہلِ عراق جیسے عوام کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے، لیکن اگر عوام میں شعور بیدار ہو اور وہ اپنے اقدار کے بارے میں حساس ہوں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے حکمران سے بھی ایک کی بجائے دو چادریں اوڑھنے پر حساب مانگا جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فرزندِ علی، محمد بن حنفیہ سمیت دیگر صحابہ نے یزید کی بیعت اس لیے کر لی تھی کہ وہ سمجھ گئےتھے کہ اس وقت کی سیاست میں در آنے والا وہ بگاڑ ناگزیر تھا جسے روکنا ممکن نہیں تھا۔ یہ کفر و اسلام کا معاملہ بھی نہیں تھا۔ سماج کی اصلاح کا میدان البتہ مصلحین کے لیے کھلا ہوا تھا۔
اسوہ حسن
ہم سمجھتے ہیں کہ حضرت علی کے فرزند اکبر حضرت حسن کا اسوہ اس بارے میں ہمیں درست رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اصولاً دیکھا جائے تو حضرت معاویہ بھی خلافت کی کرسی کے لیے کوئی درست حق یا دعوی نہیں رکھتے تھے لیکن حضرت حسن نے حالات کی ناگزیریت کو قبول کر لیا تھا۔ وہ جان گئے تھے کہ بنو امیہ کی طاقت ور سیاسی عصبیت کو اقتدار کے مسند سے دور نہیں رکھا جا سکتا، وہ چاہتے تو جنگ کر کے اپنی سی کوشش کر سکتے تھے۔ حضرت حسین کی نسبت وہ بہت بہتر پوزیشن میں تھے، لیکن وہ جان چکے تھے کہ جنگ عبث ہوگی، جو نتیجہ جنگ کے بعد نکلنا تھا، وہ بغیر جنگ کے ہی انہوں نے ہو جانے دیا۔ اس وقت کی سیاسی اور قبائلی عصبیتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے سمجھا جا سکتا ہے کہ حضرت حسن کو اس فیصلے کے لیے کتنی بصیرت، ہمت اور تحمل درکار ہوا ہوگا، اپنوں اور غیروں کے کتنے طعنے ہوں گے، بزدلی کے کتنے القابات ہوں گے جو آپ کو سننے اور سہنے پڑے ہوں گے، لیکن آپ نے حالات کا درست مطالعہ کر کے وہی فیصلہ کیا جو بالکل مناسب تھا، یوں ایک بے فائدہ مہم جوئی سے لوگوں کا خون رائیگاں بہانے کی بجائے آپ نے حالات کے جبر کو تسلیم کر لیا۔ حالات کے اس درست مطالعہ کے لیے جو برتر دانش مندی درکار ہے وہ پرجوش اہل مذہب میں کم ملتی ہے۔ حضرت حسن اس گمشدہ دانش کی تابندہ مثال ہیں۔ حضرت حسن کا اقدام اسوہ انبیا کی روشنی میں ایک درست اقدام قرار پاتا ہے۔ امت کی بد قسمتی رہی کہ ہیروازم کی تلاش میں انھیں حضرت حسن کی برتر دانش مندی اپنے ذوق کے لیے پسند نہ آئی، حضرت حسن کا یہ اسوہ امت میں پذیرائی حاصل نہ کر سکا۔ اور اس کے برعکس ہیروازم سے بھرپور حضرت حسین کا اسوہ امت نے مقبول ہوا، جس کی تائید میں لیکن کسی نبی کا اسوہ پیش نہیں کیا جا سکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ یزید کی تخت نشینی کے ساتھ در آنے والے اُس بگاڑ کو کسی فوری علاج سے درست کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ اس کے لیے جنگ کی راہ محض خون خرابے کی راہ تھی۔ حقیقتاً ہوا بھی یہی۔ سانحہ کربلا کے بعد، عبد اللہ بن زبیر کی قیادت میں اہل حجاز اور بعد ازاں مختار ثقفی کی قیادت میں اہل عراق کی بغاوت بھی بہت خون خرابے کے بعد کچل دی گئی، اور بنو امیہ کی زیادہ طاقت ور عصبی طاقت نےسیاست و حکومت کے میدان میں اپنی طبعی عمر پوری کی۔ پھر بنو عباس اپنی زیادہ بڑی طاقت ور عصبی طاقت سے تختِ حکومت پر قابض ہو گئے۔ ان کے خلاف ہونے والی بغاوتوں کا انجام بھی گزشتہ بغاوتوں سے مختلف نہ ہوا، اور سماج اپنی ڈگر پر چلتا رہا۔
اموی دور حکومت میں خلیفہ عمر بن عبد العزیز، اچانک اور اتفاقاً تختِ سلطنت پر براجمان ہو گئے۔ بگڑے معاشرے میں صالح حکمران کے آنے سے کیا تبدیلی آتی ہے اور وہ کتنی دیرپا ہوتی ہے، عمر بن عبد العزیز اس کی بہترین مثال ہیں۔ ان کا دور بہترین طرزِ حکمرانی کا دورمانا جاتا ہے، جس کی صالحیت پر عموماً اتفاق پایا جاتا ہے۔ لیکن ان کے اصلاحی اقدامات محض عارضی ثابت ہوئے۔ جیسے ہی ان کا اقتدار اختتام پذیر ہوا، سیاست اور سماج واپس اپنی پرانی ڈگر پر آگیا۔ وجہ یہی تھی کہ یہ اصلاح بنیاد سے اوپر نہیں اٹھی تھی، بلکہ اوپر سے نافذ ہوئی تھی۔ یہ اصلاح ایک شخصیت کے بل بوتے پر قائم تھی، اس کے رخصت ہوتے ہی یہ بھی رخصت ہوگئی۔ دیرپا اصلاح وہی ہوتی ہے جس کی جڑیں عوام کی تربیت میں پیوست ہوں۔ وہ بگاڑ کو اندر داخل نہیں ہونے دیتیں۔ دور حاضر کی مہذب اقوام کو دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کے امن و خوش حالی، عدل و انصاف ،اعلٰی معیارِ اخلاق اور اپنی مفید سماجی اقدار اور نظام کی بقا کے لیے حساسیت، یہ سب ان کی طویل شعوری، اخلاقی اور سیاسی و سماجی تربیت کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ اجتماعی سطح پر وہ اپنے سیاست و سماج میں کسی زیادتی اور بدیانتی کا علم ہو جانے کے بعد برداشت نہیں کرتے۔ ان کی اسی حساسیت کی وجہ سے ان کے حکمرانوں کو اپنا معیارِ سیاست و حکومت اور ذاتی اخلاق و کردار عام معیار سے بلند رکھنا پڑتا ہے۔ ان کے سماج کی صالحیت و افادیت، شخصیات پر منحصر نہیں رہی۔ شخصیات کے آنے جانے سے ان کے سماج اور سیاست کے اخلاق و کردار پر بحیثیتِ مجموعی کوئی بنیادی فرق نہیں پڑتا۔ چناں چہ اصلاح وہی کارآمد ہے جو عوام سے سیاست کے ایوانوں میں پہنچے۔ اصلاح نفاذ سے نہیں نفوذ سے آتی ہے، اس کے لیے البتہ طویل محنت اور تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مصلحین کا دائرہ کار یہی ہے۔
مصلحین کا دائرہ کار
مصلحین کی عسکریت کی راہ سے اصلاح احوال کی کوشش کے معاملے کو ایک اور پہلو سے دیکھیے:
سیاست کے بگاڑ کو عسکریت کی راہ سے درست کرنے کی کوشش میں ہونے والے ممکنہ خون خرابے کو گوارا کر لینا کس حد تک درست ہو سکتا ہے؟ اس پر ہم اپنے ایک مضمون کا اقتباس پیش کرنا چاہیں گے:
"کوئی مصلح اگر یہ سمجھتا ہے کہ عدل و انصاف کی حکومت قائم کرنے کے لیے خود اس کا حکومت حاصل کرنا ضروری ہے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ حق و انصاف اور دین کے تقاضوں کے معیارِ مطلوب کے مطابق حکومت چلا پائے گا، سوائے یہ کہ اس مصلح کو معصوم مان لیا جائے۔ بالفرض، وہ مصلح اگر خود اچھے طریقے سے حکومت چلا بھی لے تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ اس کی ذریت یا پیروکار اسی معیارِ مطلوب کے مطابق حکومت چلا پائیں گے۔ جب اس سب کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی تو حصولِ حکومت کے لیے آمادہ پیکار ہو جانا ایک مقصدِ موہوم کے لیے کمر بستہ ہو جانا ہے، اس کے لیے عوام کے دو گرہوں کو آپس میں لڑا دینا کس برتے پر درست اقدام ہو سکتا ہے؟" (مصلحین کا دائرہ کار اور حکومت کے خلاف قیام کا مسئلہ،تاریخ اشاعت، 1 اکتوبر، 2016، مکالمہ ڈاٹ کام) https://www.mukaalma.com/6857
دین کی رو سے مسلم سماج و سیاست میں آنے والا بگاڑ انفرادی ہو یا اجتماعی، اس کے اصلاح کی کوششوں کو تعلیم و تربیت، وعظ و تلقین اور جابر حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنے تک ہی محدود رکھا گیا ہے۔ مصلحین کا جہاد یہی ہے اور یہی افضل جہاد ہے:
أفضل الجهاد كلمة عدل حق عند سلطان جائر
ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا افضل جہاد ہے۔
مسلم سماج کی اصلاح کے لیےہتھیار اٹھانا اپنے فرائض اور دائرہ کار سے تجاوز کرنا ہے، پورے قران میں کہیں ایسا حکم موجود نہیں۔ ایک مسلم معاشرے کے سماجی و سیاسی بگاڑ کے سدھار کی خاطر قتل و قتال کے جواز کے لیے کسی نبی و رسول کی نظیر مہیا نہیں کی جا سکتی۔ یہ تفرد بعد کے دور کی پیداوار ہے اور اسلام اس کی تائید نہیں کرتا۔
حضرت حسین کا اقدام اوّل تو ایک فاسق ہی سہی مگر ایک مسلم حکومت کے خلاف تھا، جس کے خلاف قتال کے نتیجے میں دونوں اطراف سے مسلم افراد کا خون بہنا لازم تھا، دوسرے یہ کہ اصلاح کی یہ کوشش سماجی و سیاسی بگاڑ کو سیاسی و عسکری طاقت سے درست کرنے کی کوشش تھی، جس کی تائید دین سے نہیں ہوتی، تیسرے جن کے اصرار پر حضرت حسین یہ اقدام کرنے جا رہے تھے، ان کی وفاداری کا مشکوک ہونا مسلّم تھا، جس کی طرف ان کے برادر اکبر، حضرت حسن کے علاوہ مکہ و مدینہ کے اہل نظر نے بھی آپ کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش بھی کی تھی اور آخر میں آپ خود بھی ان کی عدم استقامت یا معذوری کا علم ہو جانے کے بعد واپسی پر مائل ہو گئے تھے۔
وہ اصلاح جو بزور بازو، خون بہا کر لائی جائے، اوّل تو اس کے صالح ہونے کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی، کیونکہ اس کی ضمانت خدا کا کوئی فرستادہ ہی دے سکتا، جو خدا سے براہ راست ہدایت حاصل کرتا اور اس کی نگرانی میں خطا سے محفوظ ہوتا ہے۔ اس سے کوئی خطا ہو بھی جائے تو خدا اسے اس پر قائم نہیں رہنے دیتا۔ نبی کے علاوہ یہ مقام اور اپنی حکمت عملی پر یہ اعتماد کسی اور کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ پھر اگر کوئی کسی غیر نبی کو بھی اس مقام کا حامل سمجھتا ہے اس کا ثبوت اس کے ذمے ہے۔ دوسرا یہ کہ ایسی اصلاح اگرصالح ہاتھوں میں ہو بھی تو اس کے صالح رہنے کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی، یعنی اس مصلح کے ساتھی اور اس کے جان نشین بھی اسی درجے کے صالح ہوں، اس کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ ہمیشہ یہی دیکھا گیا کہ مسلح جدجہد یا انقلاب سے اصلاح لانے والوں کی اصلاح کرنی پڑ جاتی ہے، اور یہ بسا اوقات اور بھی مشکل ہو جاتی ہے، یہاں تک کہ انقلاب پر انقلاب لانے کی نوبت بھی آ جاتی ہے۔ اگر بعد میں بھی ان مصلحین کے لیے بھی وعظ و نصیحت پر ہی آنا پڑتا ہے تو کس بھروسے پر انسانی خون بہا کر انقلابی اصلاح کی دعوت دی جا سکتی ہے؟
بگڑے ہوئے نظامِ حکومت میں کب رحمت کی بارش بن کر کوئی عمر بن عبد العزیز آ جائے یا کب صالحین کی حکومت یزید جیسوں کے ہاتھ آ لگے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اصلاح کا معقول و مسنون راستہ دعوت، تذکیر و تلقین کی راہ ہی ہے۔ عوام کی اصلاح ہو جائے تو ایسے حساس صالح عوام کے سامنے کوئی بگاڑ ٹھیر نہیں سکتا۔ انبیا کا اسوہ اسی طریقہ کا شاہد ہے ۔اس کے سوا کوئی راستہ درست نہیں، اس میں کامیابی ملے تو فبھا، نہ ملے تو مصلحین کو ان کے دین نے اس سے بڑھ کر ان کی کوئی ذمہ داری نہیں بتائی ہے۔ اپنی اس ذمہ داری سے تجاوز، خدا کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز ہے۔ مصلحین کے جنگی اقدامات کی تاریخ شاہد ہے کہ وہ جب بھی اپنے اس دائرہ کار سے آگے بڑھے ہیں، فساد اور انارکی پھیلانے کے سوا ان سے کچھ نہیں بن پڑا۔ نظم حکومت میں کوئی ہیجان انگیزی پیدا کیے بغیر سماج و سیاست کے ذمہ داران کو وعظ و نصیحت اور اصلاحی تنقید ہی وہ مثبت اور نتیجہ خیز طریقہ ہے جس سے سماج بتدریج بہتر ہونے چلے جاتے ہیں۔ اور یہی انبیا کا اسوہ ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔