برصغیر پاک و ہند کے ادبی افق پر چمک پیدا کرنے والی اگر کوئی بہترین شخصیت جو اپنے نقوش چھوڑ کر گئی جنہیں ادبی دنیا سے الگ نہیں کیا جاسکتا تو اس شخصیت کا تعارف اقبال کے نام سے کرایا جاسکتا ہے جن کے کلام کی تاثیر اب تک ویسی ہی ہے جیسی آج سے پہلے ان کے زمانے میں ہوا کرتی تھی اقبال نام لیں تو کہہ سکتے ہیں وہ تنہا اک انجمن تھے اپنی بزم میں جن کی شخصیت کے مختلف انداز اور مختلف گوشے دیکھنے کو ملتے ہیں اور ہر گوشہ اپنے اندر ایک تحریک ایک انجمن چھپائے ہوئے ہے
اقبال کی سحر گاہی
اقبال کی نس نس میں للاہیت کا غالب عنصر موجود تھا یہی سبب ہے کہ اقبال اپنے سحر گاہی کا تذکرہ کرتے دکھاٸی دے رہے ہیں اقبال کی شاعری میں صبح کی نماز عنوانات بدل بدل کر ظاہر ہوتی ہے اور اپنی معنویت کا اظہار کرتی ہے۔ مثلاً اقبال نے ایک جگہ کہا ہے
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی ”آدابِ سحر گاہی
ایک اور جگہ ارشاد ہوا ہے
عطار ہو رومی ہو رازی ہو غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا ”بے آہِ سحر گاہی“
ایک اور مقام پر فرمایا ہے
جوانوں کو مری ”آہِ سحر“ دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پَر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کردے
اقبال کی اس شاعری میں پہلی مثال بتارہی ہے کہ اقبال کے لیے صبح کی نماز وظیفہ حیات بن گئی ہے، اور اس وظیفہ حیات کی ادائیگی کے حوالے سے لاہور اور لندن میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے۔ عطار، رومی، رازی اور غزالی اسلامی تہذیب کی بلند ترین روحانی، تہذیبی، علمی اور تخلیقی علامتیں ہیں، اور اقبال کی دوسری مثال بتارہی ہے کہ اقبال کی آہِ سحرگاہی اتنی اہم ہے کہ اس کے بغیر کسی اور کیا‘ عطار، رومی، رازی اور غزالی کے بھی کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ یعنی یہ آہِ سحرگاہی ہی ہے جس نے عطار کو عطار، رومی کو رومی، رازی کو رازی اور غزالی کو غزالی بنایا ہے۔ اقبال کی تیسری مثال ظاہر کررہی ہے کہ آہِ سحرگاہی کا جوانوں کے بال و پَر اور نورِ بصیرت سے گہرا تعلق ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ مزید گہرائی میں اقبال کی آہِ سحرگاہی کی معنویت کس طرح آشکار ہوتی ہے؟
یہاں ہم نے آہِ سحرگاہی کے لیے ”صبح کی نماز“ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ یہ ایک مبہم اصطلاح ہے۔ صبح کی نماز کی اصطلاح دو نمازوں کے لیے استعمال ہوسکتی ہے۔ تہجد کی نماز کے لیے اور فجر کی نماز کے لیے۔ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ اقبال نے یہ اصطلاح ان میں سے کس نماز کے لیے استعمال کی ہے۔ لیکن اسلام کے نظامِ عبادات اور اسلام کی روحانی تاریخ میں فجر کی نماز کی اہمیت بنیادی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فجر فرض نماز ہے اور تہجد نفلی عبادت ہے۔ اصول اور عام تجربہ یہ ہے کہ انسان فجر کی نماز سے تہجد کی نماز کی طرف جاتا ہے، تہجد سے فجر کی نماز کی طرف نہیں آتا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ جس شخص کو فجر پڑھنے کی عادت ہوجاتی ہے اُس کے لیے تہجد پڑھنا مشکل نہیں رہتا۔ چنانچہ گمان غالب ہے کہ اقبال کی آہِ سحرگاہی کا تعلق فجر کی نماز سے زیادہ ہے، تہجد کی نماز سے کم ہے۔
فجر کی نماز کی فضیلت کا یہ عالم ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے مطابق جو شخص عشا اور فجر کی نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کرے اُسے تمام رات عبادت کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ لیکن فجر کی یہ فضیلت کیوں ہے
فجر کے سوا چار نمازوں کا معاملہ یہ ہے کہ انسان انہیں ”عادت کی قوت“ سے ادا کرسکتا ہے۔ انسان کو ایک بار نماز کی عادت پڑجائے تو عادت کی قوت اور اس کی خودکاریت انسان کے بہت کام آتی ہے۔ لیکن فجر کی نماز عادت کی قوت اور اس کی خودکاریت یا Automation کی مدد سے پڑھی ہی نہیں جاسکتی، اس لیے کہ فجر اُس وقت ادا کی جاتی ہے جب انسان نیند کے سمندر میں غرق ہوتا ہے۔ اس کے حواس، اس کا شعور، اس کا ارادہ سب کچھ معطل ہوتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ نیند کا عالم کیف کا عالم ہے، لذت کا عالم ہے۔ چنانچہ فجر کے لیے انسان کو اپنے شعور کی تمام استعداد اور قوت کو بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ چنانچہ فجر کی نماز فرض نمازوں میں سب سے زیادہ شعوری اور سب سے زیادہ ارادی نماز ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ فجر کی نماز وہ نماز ہے جس میں بندگی عادت کی سطح سے اٹھ کر شعور اور ارادے کی سطح پر آجاتی ہے، اور یہ بات اس لیے اہم ہے کہ مذہب ایک شعوری اور ارادی حقیقت ہے۔ لیکن اقبال کی آہِ سحرگاہی اس مقام پر پیدا نہیں ہوتی، یہاں سے اس کے اظہار کا آغاز ہوتا ہے۔
نیند کا منفی پہلو یہ ہے کہ وہ ایک مکمل غفلت ہے، لیکن اس غفلت کا مثبت پہلو یہ ہے کہ انسان جب صبح کے وقت نیند سے بیدار ہوتا ہے تو اس کی سماجیات اور اس کی نفسیات معطل ہوتی ہے۔ چنانچہ انسان کا قلب اس وقت نسبتاً شفاف حالت میں ہوتا ہے اور نماز میں نفس کی مداخلت کم سے کم ہوتی ہے۔ قلب اور نفس کی یہ کیفیت خشوع و خضوع کہلاتی ہے۔ اسی کیفیت کو ایک اور سطح پر ذوق و شوق بھی کہتے ہیں۔ شوق کا مطلب یہ ہے کہ انسان رغبت کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہے۔ نماز کے ذوق بن جانے کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں حلاوت پیدا ہوگئی ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ فجر اور تہجد کی نمازوں میں ان کیفیات کے پیدا ہونے کے امکانات کسی بھی دوسری نماز سے زیادہ روشن ہیں۔ لیکن نماز میں صرف خشوع و خضوع اور ذوق و شوق کافی نہیں۔ نماز کو نمازِ عشق بن جانا چاہیے۔ مگر ”نمازِ عشق“ کا مطلب کیا ہے؟
نمازِ عشق کا مطلب یہ ہے کہ نماز صرف جسم اور ذہن کی نماز نہ رہے بلکہ پورے وجود کی نماز بن جائے۔ یعنی انسان کا جسم، انسان کا ذہن، انسان کا نفس اور اس کی روح شعورِ بندگی سے جگمگا اٹھے۔ فجر اور تہجد کی نمازیں ان کیفیات کو جس طرح پیدا کرسکتی ہیں کوئی دوسری نماز نہیں کرسکتی۔ لیکن نمازِ عشق نماز کی آخری منزل نہیں۔ عشق میں وارفتگی کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ وارفتگی رقت پیدا کرتی ہے۔ یہی وارفتگی، یہی رقت آہِ سحرگاہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے۔ آپ تہجد میں سب سے زیادہ گریہ کرنے والے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نماز میں رقت اور گریہ کی سب سے بڑی مثال سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مرض الموت میں مبتلا ہوئے اور نماز کی امامت آپ کے لیے ممکن نہ رہی تو آپ نے حضرت ابوبکرؓ کو امامت کا حکم دیا۔ اس موقع پر حضرت عائشہ صدیقہؓ نے کہا کہ آپ میرے والد کو نماز پڑھانے کے لیے کیوں کہہ رہے ہیں؟ وہ نماز میں بہت گریہ کرنے والے ہیں۔
بہت سے لوگ رونے اور گریہ کرنے کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں، لیکن رونے کا تعلق اپنی شخصیت کی محبت سے ہے اور گریہ کا تعلق خدا یا دوسرے انسان کے ساتھ محبت سے۔ رونے میں ہم خود اہم ہوتے ہیں۔ گریہ میں دوسرا اہم ہوتا ہے۔ رونا محرومی سے آتا ہے۔ گریہ صبر اور شکر سے جنم لیتا ہے۔ یہ وہ حال ہے جس میں انسان خدا کے روبرو بندے کے سوا کچھ نہیں ہوتا، کچھ بھی نہیں۔ نمازوں میں فجر اور تہجد کی نمازیں وارفتگی، رقت اور گریہ کے لیے سب سے زیادہ کفایت کرتی ہیں، اس لیے کہ ان نمازوں کے وقت انسان دنیا اور اس کی محبت سے سب سے زیادہ فاصلے پر کھڑا ہوتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اقبال نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ یہ آہِ سحرگاہی ہی ہے جس نے عطار کو عطار، رومی کو رومی، رازی کو رازی اور غزالی کو غزالی بنایا۔ لیکن اقبال نے آہِ سحرگاہی کو نوجوانوں کے بال و پَر سے متعلق کیا ہے اور اس کا رشتہ اپنی بصیرت سے استوار کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان باتوں کا مفہوم کیا
علامہ کا حُب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
مثل بو قید ہے غنچے میں‘ پریشان ہو جا
رخت بردوش ہے ہوائے چمنستان ہو جا
ہے تنک مایہ‘ تو ذرّے سے بیاباں ہو جا
نغمہ موج سے ہنگامہ طوفاں ہو جا
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمدؐ سے اُجالا کر دے
اقبال نے مغربی تہذیب و تمدن کو محض ساحل پر کھڑے ہو کر نہیں دیکھا بلکہ وہ غوطہ زن ہو کر تہہ تک گئے اور اس کے بعد ان میں جو استحکام بیدار ہوا وہ ان کے پختہ العقیدہ ہونے کا بین ثبوت ہے۔ بلکہ بقول سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس شخص کا یہ حال تھا کہ
’’مغربی تعلیم و تہذیب کے سمندر میں قدم رکھتے وقت وہ جتنا مسلمان تھا اس کے منجدھار میں پہنچ کر اس سے زیادہ مسلمان پایا گیا جتنا اس کی گہرائیوں میں اُترتا گیا اتنا ہی زیادہ مسلمان ہوتا گیا یہاں تک کہ اس کی تہہ میں جب پہنچا تو دُنیا نے دیکھا کہ وہ قرآن میں گم ہوچکا ہے اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی نہیں رہا۔‘‘
یہیں تک نہیں وہ احادیث کے بارے میں بھی یقین کی اس انتہا پر پہنچے ہوئے تھے کہ جو بعض علماء کو بھی حاصل نہیں جب کسی نے ان کے سامنے اس حدیث کا تذکرہ کیا کہ:۔
ایک مرتبہ حضورنبی اکرمؐ ،سیدناصدیق اکبرؓ، عمر فاروقؓ، اور سیدنا عثمان غنیؓ جبل اُحد پر کھڑے تھے تو وہ لرزنے لگا۔ رسول اللہ نے فرمایا اُحد کیوں لرزتا ہے، تجھ پر ایک رسولؐ ایک صدیق اور دو شہید کھڑے ہیں جس کے بعد وہ ساکت ہوگیا‘‘۔
سوالی حیرت اور استعجاب کی حالت میں ان کی طرف دیکھنے لگا جس پر علامہ اقبال گویا ہوئے اور اس شخص سے کہا کہ اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔ میں اس حدیث کو سچ سمجھتا ہوں کیوں کہ حقیقت یہی ہے کہ نبی کے قدموں تلے مادے کے بڑے بڑے ٹکڑے بھی لرز اُٹھتے ہیں یہ کوئی فرضی بات نہیں درحقیقت ایسا ہی ہوتا ہے۔
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآن وہی فرقان وہی یاسین وہی طاہا
علامہ اقبال عشق رسول میں اس قدر ڈوبے تھے جس کا انکشاف ان کی موت کے بعد لوگوں کو ہوا۔ وہ سادہ زندگی گزارتے تھے
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
حُب رسول کے حوالے سے ان کی شیفتگی کا یہ عالم تھا کہ ذکر رسولؐ ہوتا اور ان کی طبیعت میں سوز و گداز درآتا اور اکثر تو وہ آبدیدہ ہو جاتے کیوں کہ عشقِ رسولؐ سے انہوں نے وہ سرمدی روشنی حاصل کی تھی جو انہیں اور ان کے کلام کو لازوال بنا گئی۔ اس کے لیے انہوں نے کامل سپردگی کی وہ منزل حاصل کی جو اپنی خواہشات اور ذات کی نفی کے بعد پیدا ہوتی ہے اور جسے حاصل کیے بغیر عشق رسولؐ کا دعویٰ بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ اقبال کا حضور اکرمؐ سے محبت و عقیدت کا والہانہ انداز اپنی جگہ لیکن غلامی رسول کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حضورؐ کا نام نامی لیا جانا یا ان کے واقعات کا اظہار ان کی شخصیت پر اس قدر اثر انداز ہوتا تھا کہ وہ ملول و افسردہ سر جھکائے نمدیدہ ہو جایا کرتے تھے
اقبال اپنی قوم کے لئے بھی خاصا فکر مند رہتا تھا اسے مرعوبیت کے سحر سے نکالنے کے لئے اقبال نے کس کس زاویہ سے اسے نہ پکارا اس مغرب کی چکا چوند کے سحر سے نکالنے کی ترغیب دیتے ہوئے کہتے ہیں
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
اقبال اپنی قوم پر ماتم کناں ہوکر کہتا ہے اس کی بدحالی و لاچاری دیکھی نہیں گئی تو کہتے ہیں
اے اقبال تیری قوم کا اِقبال کھو گیا ہے
ماضی تو سُنہرا ہے مگر حال کھو گیا ہے
وہ رعب و دبدبہ وہ جلال کھو گیا ہے
وہ حُسنِ بے مثال وہ جمال کھو گیا ہے
ڈوبے ہیں جوابوں میں پر سوال کھو گیا ہے
اقبال تیری قوم کا اقبال کھو گیا ہے
اقبال اپنی قوم سے شکوہ کناں ہے کہ اس کی بلندی اس کی عظمت اس کا رعب جلال کھو گیا ہے اب پوری قوم گرچہ اپنی اس لاچارگی پر حیرت زدہ ہے پر اسے احساس ہی نہیں کہ اس نے کیا کھویا او کیسے کھو دیا اس سلسلے میں ہم جانتے ہیں کہ جو قوم اچانک پورے منظر پر چھا گئی تھی پر اپنی انانیت کے سبب اور الگ الگ ہوکر اس کی عظمت تو کیا خاک بچی رہتی بلکہ اس کا اپنا وجود بھی اب ہچکولے کھا رہا ہے اپنی بقاء کیلئے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
بے باکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
یہ صرف اپنے وطن کی بات نہیں ہورہی ہے بلکہ پوری دنیا میں عالم اسلام کی بات کی جارہی ہے کہ آئے دنیا کیا حال بتاؤں کہ میرا جو طرہ امتیاز تھا حق گوئی و بیباکی وہ بھی کھودی میں نے نتیجہ سامنے ہے کہ ایوان ظلمت کی ٹوٹی بیساکھی کے سہارے ہم خود کو منوانے کی دوڑ میں گرچہ دوڑ رہے ہیں پر بحیثیت قوم ہمارا کوئی وجود ہی نہیں جہاں میں
اقبال کا شاہین
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور
علامہ اقبال نے نوجوانوں کو خودی کے تصور سے آشناس کروایا۔ کہ خود شناسی ہی خدا شناسی ہے۔فلسفے کے طالبعلم کی حیثیت سے میرے نزدیک علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر جس کا مطالعہ نسلِ نو کی تربیت میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے، وہ ’خطاب بہ جاوید‘ ہے یعنی نئی نسل سے کچھ باتیں۔. نوجوانوں کے لیے یہ پورا ضابطہ حیات ہے۔ وہ آج کے نوجوان کو رزقِ حلال اور صدقِ مقال شرم و حیا ذکر اور فکر کی نصیحت کرتے ہیں۔آپ کے درد و سوز کا عالم یہ تھا کہ جب اس نظم کو ختم کرتے ہیں توآپ فرماتے ہیں اے نوجواں مسلم! میں نے زندگی بھر یہ کیا کہ تمہیں یہ سمجھا سکوں کہ دین کا مطلب کیا ہے؟ اور تیرے ساتھ میری محبت کا عالم یہ ہے کہ میں قبر میں جا کر بھی تیرے لیے دعائیں کرتا رہوں گا
کچھ اشعار مزید
پر جو میں نے سمجھا وہ شاید آپ کی نظر میں انتہائی کمتر معیار کا ہو پر میرے دل میں اک ہوک سی اٹھی وہی کرب مٹانے کے لئے یہ لکھ دیا ان اشعار کی کیا تفھیم ماہرین اقبالیات کرتے ہیں میں نہیں جانتا پر میرے احساسات جو ہیں آپ کی نظر کر رہا ہوں اقبال رحمہ اللہ کو میں روحانی مرشد کی حیثیت سے مانتا ہوں کہ ان کے دل میں امت کے لئے جو سوز و گداز تھا وہ دیکھنے کو کہیں ملا نہیں مجھے ممکن ہے کہ میرا مطالعہ ناقص ہو پر جیسا ہے وہی ہے سوائے اس کے کچھ ہے ہی نہیں اقبال رحمہ اللہ ماضی نہیں حال کے شاعر تھے جن کے دل میں امت کی حالت زار کے سبب اٹھتی ٹھیس کچھ یوں زبان پر چلی آتی ہے کہ
یہ ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیں تمام
ہم نے یہ جو طریقہ زندگی میں جدت پیدا کی تو نتیجہ یہ نکلا کہ سایہ خلافت کی جگہ ملوکیت کا ورود ہوگیا جو ملا اور صوفی ہر دو فکروں کو تسلیم ہے جیسا کہ آج کل ہے اہل علم سے لے کر خانقاہی مزاج کے حاملین قناعت کرچکے ہیں سایہ ملوکیت میں
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغِ بے نیام
ہائے الہی یہ کیسی مار ہے کہ امت کہیں بحیثیت مجموعی کسی منظر نامے پر موجود ہی نہیں بس اس کا دیں صرف مسجد سے لے کر مسجد تک ہی رہ گیا ہے سوائے اس کے یہ اپنا وجود منانے میں حد درجہ ناکامی کا سامنا کئے جارہی ہے
کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمانِ جدید
ہے جہاد اس دور میں مردِ مسلماں پرحرام
ہمارا حکمراں طبقہ ہو کہ اہل علم ہوں انہوں نے اپنی اپنی حدود کی بقاء کے لئے جہاد سے فرار اختیار کیا کیونکہ انہیں خود یہ احساس ہے کہ ہم میں مزاج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا فقدان ہے تو کامیابی کی امید بھی نہیں کرتے اسی لئے اپنی انانیت اور ضد کو باقی رکھنے کے لئے حکم الہی کو ہی حرام ٹہرا دیا
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن ،اندروں چنگیز سے تاریک تر
جس نظام کی چکا چوند کے سامنے یہ اپنا سر جھکانے کھڑے ہیں اسی نظام جدید کے لئے اقبال رحمہ اللہ نے صدا بلند کی تھی کہ کیا تم جانتے نہیں اس کا ظاہر جس قدر روشن ہے اسی قدر حقیقت میں یہ ظلمت شب کا اک تاریک باب ہونے کے سوا کچھ بھی نہیں جو لوگ مغربی تہذیب و تمدن سے واقف ہیں جانتے ہیں کہ مغرب جس کربناک حالت سے دوچار ہے اس کا مداوا سوائے اسلام کے کہیں نہیں پر اسلام کے جو شیدائی ہیں انہیں اپنی نجات آج مغرب کے سایہ میں دیکھائی دیتی ہے
گلہ تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الااللہ
اہل مدرسہ وہ اہل علم ہیں جو فضائل و مناقب تو بیان کرتے ہیں پر منکرات کے سلسلے میں تاویلات کا دفتر سجا کر علم و آگہی کا گلہ گھونٹ دیتے ہیں ایسے ہی جدید تعلیم گاہوں کے فارغین دنیا و آخرت سے بے بہرہ ہیں اسی لئے کہتے ہیں کہ جس تعلیم سے انسان میں رمز انسانی آشکار نہ ہو خالق و مالک کی پہچھان نہ ہو وہ تعلیم تو موت کے برابر ہے
اس سلسلے میں جہاں جدید طرز تعلیم گاہوں نے پڑھے لکھے جاہلوں کی ایک فوج تیار کرکے انسانیت کے لئے درد سر پیدا کیا وہیں اسلامی تعلیمات کی تعلیم گاہوں نے تن آسانی کے متوالوں کی ایک کثیر تعداد پیدا کی جدید تعلیم گاہوں سے نکلنے والے افراد جہاں شرم و حیا پاکیزہ معاشرے انسانی بقاء و فلاح جیسی لازمی ضروریات سے جہاں نابلد ہیں وہیں دوسری طرف علوم اسلامیہ کی سند فراغت کو لہرانے والے خود کو اس قدر صاحب فضیلت بنائے بیٹھے کہ انہیں لگتا ہے کہ صحراء کی خاک میں از خود انقلاب آئے گا پوری دنیا ان کی قدر داں اور ان کی قدم بوسی کرتی پھرے پر یہ اپنی خواب گاہوں سے ہی دعوت دین کا فریضہ انجام دیتے رہیں کانٹوں سے الجھنا انہیں پیارا نہیں لگتا نرم و ملائم بستر ہی ان کی دعوت کے لئے موذوں ہے آج کے دور میں