“جب ہم نے لاہور کالج ميں داخلہ ليا تو شوق سے دو دوستوں کیساتھ علامہ اقبال کو ديکھنے نکل گے۔انکی شہرت سن رکھی تھی ڈيرے کا اندازہ تھا۔ايک دو بندوں سے پوچھ کرہم باآسانی انکے چوبارہ تک پہنچ گے۔علامہ اقبال اوپر والی منزل پر ايک کمرے ميں چارپائی پر بيٹھے حقہ پی رہے تھے۔ کمرے ميں کھڑکی سے ہلکی ہلکی روشنی آرہی تھی،دھوپ سے بچنے کيلئے اس پر ايک گندہ سا کپڑا لٹکا ہوا تھا، جو ايک طرف کو تھا۔ کھڑکی سے آنے والی روشنی ميں بھاری بھر کم جسامت کے ساتھ بڑی مونچھوں اور موٹی آنکھوں سے سفید اور سرخی ملا چہرہ انکے کشميری پنڈت ہونے کی چغلی کھا رہا تھا، انکا جسم ايک گندی بنیان اور ميلی دھوتی سے ڈھکا ہواتھا۔دھول ميں لپٹی کچھ کتابیں الماری پر پڑی تھيں۔بستر گندہ تھااور فرش پر کہيں کہيں تھوک جما ہوا تھا۔ايک عجیب قسم کی مايوسی اور کھٹن کا سا ماحول تھا۔ہميں زيادہ پتہ تھا نہ ہی انھوں نے کوئئ خاص بات کی البتہ انھوں نے ہم مخاطب کر کے پوچھا ضرور تھا کہ “منڈيو تواڈا کی حال اے” (جلالپوری سے گفتگو اپوا محلہ جہلم)
عشروں بعد علم سے منور اسی علی عباس جلالپوری نے اقبال پر پاے جانے ابہام کو اپنی کتاب”اقبال کا علم الکلام “ ميں کھولا۔جلالپوری لکھتے ہيں کِہ اقبال فلسفی نہيں کيونکہ وہ فلسفے کی بنیادی شرط “کيوں” کا سوال نہيں اٹھاتے اور وراثت ميں ملنے والے نظريات کو من وعن قبول کيا، ایسا شخص فلسفی نہيں متکلم ہوتا ہے۔خود اقبال کہتے ہيں انھوں نے تو وارثت ميں ملنے والے عقائد کی عقلی توجيع کی ہے ۔ فلسفی وہ ہوتا ہے جو بشمول وراثت ہر عقیدے پر سوال کرے اور خير و شر کو الہامی مسلے کی بجاے قابل بحث سمجھے۔جلالپوری اگلی دليل ميں کہتے ہیں کہ اقبال خود اپنی عقل کو عقل ناقص کہتا ہے اور جو شخص خود اپنی عقل کو ناقص قرار دے،اسے اپ کیسے اعلی عقل والا کہہ سکتے ہيں؟اقبال انسانی عقل سے زیادہ ولايت، الہام اور وحی کو مستند مانتے ہيں ۔اقبال عقل پر عشق کو فوقیت ديتے ہيں “بے خطر کود پڑا آتش نمرود ميں عشق۔عقل تھی محو تماشہ لب بام ابھی” یعنی اقبال عقل کو کوٹھے کی منڈير پر بٹھا کر جنون کو داد دے رہا ہے ايسا شخص عقل دشمن ہوتا ہے۔اقبال کے والد شيخ نور کا شمار اولين احمدی رہبروں ميں ہوتا ہے۔اقبال نے اپنے بھائی اور پھر بڑے بيٹے کو ربوہ ميں داخل کروايا۔1897 ميں قادیان جاکر خليفہ کے ہاتھوں بيعت کی۔کشمیر کمیٹی کے رکن کی حيثیت سے صدارت کيليے بشیر الدین محمود کا نام ديا اور خود جنرل سيکرٹری بنے۔ احراری اسےکشمیر کمیٹی نہیں بشیر کمیٹی کہتے تھے يوں تنقيد کے باعث يہ کميٹی ٹوٹ گئی۔سید احمد کانپور ميں اپنے تنقیدی مقالے ميں بتاتے ہيں کہ اقبال مجسٹريٹ کی آسامی کے خواہش مند تھے انکے مقابلے ميں کوئئ ہندو وکيل تھا اسکی قابلیت کيوجہ سے مرزا صاحب نے اپنا ووٹ اسکو دیا۔بعدازاں اقبال واہسراے کی کابینہ کے ممبر کے امیدوار تھے مگر خلیفہ نے سر ظفر اللہ کی سفارش کی، 1935 ميں سر ظفر کے انتخاب کے بعد اقبال خلیفہ اور قادیان کے خلاف ہوگے۔بقول سيد احمد خليفہ کے خلاف انکی لرائی نظریاتی نہيں بلکہ ذاتی تھی۔ اقبال کشمیری النسل پنجابی تھے انکی مادری زبان پنجابی تھی اور ٹھیٹھ پنجابی بولتے تھے۔آخر کیوں اقبال نے اردو کے علاوہ فارسی ميں تو شاعری کی مگر پنجابی میں کوئئ ايک شعر تک نہ کہا؟
ایک ایسا شاعر جسکی جڑيں اپنی زمين ميں نہ ہوں، اپنی دھرتی اور عوام کے نوحے کی بجاے خواص و حاکموں کے قصیدے لکھے،ایسا شاعر کسی قوم کا نماہندہ شاعر ہوسکتا ہے؟۔اقبال کا علم اتنا سطحی تھا کہ وہ یورپ کے جدید صنعتی انقلاب سے معاشرتی تبدیلی، انقلاب فرانس سے بادشاہت کے خاتمے اور اکتوبر انقلاب سے طبقاتی بیداری کا ادراک کرنے کی بجاے 20ويں صدی ميں بھی بحر ظلمات ميں گھوڑے دوڑانے والا بندہ صحرائی ڈھونڈ رہے تھے اورعظمت گم گشتہ کے لوٹنے کے منتظر تھے۔
جب ترک سلطنت نے بلغاریہ پر جارحیت کی تو اقبال نے 1913 ميں موچی گيٹ لاہور پر ترک سلطنت کی حمایت ميں چندے کيليے اپنی نظم جواب شکوہ پیش کی۔مگر خود تحریک خلافت کے عروج پر نائٹ ہڈ(سر) کا اعزاز لے لیا۔خطبہ الہ آباد ميں جو الگ مسلم رياست کی بات تو بعد ميں لنڈن کے اخبار ميں خط لکھ کر وضاحت فرمائی کہ”انکا مقصد برطانوی راج کے اندر ايک الگ صوبے کا مطالبہ تھا نہ کہ مکمل آذاری“۔ دراصل اقبال نے شمال مغربی انڈيا ميں برطانوی سامراج کے اندر الگ اکائی کا مطالبہ کرکے برطانيہ کے روس کے بڑھتے ہوے اثر کو روکنے کيليےمستقبل کے منصوبے کی تعبیر کی۔آخر اقبال کو کيوں مشرقی بنگال کی مسلم اکثریت نظر نہ آئئ جو نسبتا زيادہ استحصال زدہ تھے؟يوں بنگالی صحافی فرید-ايس۔رحمان نے اپنے جریدے ميں اقبال کو”راج کا کٹھ پتلی “قرار دیا، اور فرنٹير پوسٹ کے فاروق قریشی نے لکھا ”يہ ہندوستان سے زيادہ خود مسلمانوں کی تقسيم تھی “۔سانحہ جليانوالہ پر پنجاب بھر ميں ہنگامے پھوٹ پڑے، انکو روکنے کئلیے گورنر پنجاب سر ايڈواہر کے مارشل لا کی جن بااثر افراد نے مدد کی ڈی کلاسيفاہئڈ دستاویزات کے مطابق مسلمانوں ميں اقبال اورسرشفیع کے نام سرفہرست ہيں۔اقبال نے ملکہ وکٹوریہ کا مرثيہ اور کنگ جارج ولیفیٹیننٹ گورنر سر مائیکل اڈوائیر کی شان ميں بھی قصیدہ لکھا۔اقبال کی ان خدمات اور ایڈوائرکی سفارش پر”سر “کا خطاب ملا۔برطانيہ نے1928 جب سر جان سائمن کی سربراہی ميں کمیشن بھيجا، کانگرس اور آل انڈيامسلم لیگ دونوں نے اسکا باہيکاٹ کيا،مگر مسلم ليگ پنجاب نے اپنے صوبائی صدر سر شفیع اور جنرل سيکرٹری سر اقبال کی قيادت ميں اس فيصلے سے بغاوت کی اور کمیشن کا ريلوے اسٹشن کے اندر استقبال کيا۔جبکہ اسٹشن کے باھر باقی لیگی “گو بیک سائمن “ کے نعرے لگا رہے تھے۔جلوس پر لاٹھی چارج ہوا، جس سے لالہ لاجپت راے مر گے(جسکے بدلے ميں بھگت سنگھ نے سارجنٹ سانڈ رس کو قتل کيا)، يوں سر شفيع اور سر اقبال کی انگریز حمايت کیوجہ سےمسلم ليگ تقسیم ہوگئی ۔جناح مسلم اکثریتی صوبہ پنجاب میں اس تقسيم سے دل برداشتہ ہوکرلنڈن واپس چلے گے اور سر اقبال سر شفيع کی 1932 ميں موت تک شفیع لیگ ميں رہے۔1935 کے بعد اقبال اور جناح دونوں نے اپنے اپنے مقاصد کی خاطر کسی حد تک صلح کر لی۔اقبال سیاسی طور يتيم تھے تو جناح کو بھی اسلامی چورن کی ضرورت تھی۔سیاست کی طرح اقبال کی شاعری ایک پرچون کی دوکان ہے۔مثلاً جب انڈين نیشنل ازم جاگا تو” سب سے اچھا ہندوستان ہمارا “ ترانہ لکھا، جب پين اسلام ازم کا نشہ چڑھا تو کہہ دیا” نيل کے ساحل سے تابخاک کاشغر “۔ جب سرخ انقلاب کے سورج کو چڑھتے ديکھا تو” لینن خدا کے حضور “ نظم لکھی اور کارل مارکس کو صاحب کتاب پیغمبر بنا دیا۔سجاد ظہیر کی دعوت پر انجمن ترقی پسند کانفرنس کی صدارت قبول کی اور اسے دل کے قریب مانا، مگر دوسری طرف کہا کہ”جدا ہو دین سياست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی “۔مجنوں گورکھپوری اقبال کی خودی کو جرمن فلاسفر نطشے سے مستعار بتاتے ہوے کہا کہ”يہ فاشسٹ نظريہ ہے “۔نطشے کی خودی سے ہٹلر نے متاثر ہو کر فاشزم کی ترویج کی تو اقبال نے بھی خودی کا پرچار کيا مگر اپنے شاہين کو پہاڑوں کے نشيمن کی بجاے قصر سلطانی کے در پر بٹھاے رکھا۔اقبال کی ذاتی(مساجنسٹ)زندگی پر ہم بات نہيں کرتے مگر اقبال نے یورپ ميں ابھرتی feminist تحریک” ايک فرد ايک ووٹ” پر توجہ دينے کی بجاے کہا کہ”جمہوریت ميں انسان گنے جاتے ہيں تولے نہيں “۔ یوں بادشاہت کے مقابلے ميں جمہوریت کو کہتر جانا۔
اقبال قادر الکلام شاعر تھے مگر انکی بہت سی شاعری دوسری زبانوں مثلا فارسی،پنجابی،پشتو،انگریزی اور جرمن شعراء کے کلام کا اردو ترجمہ ہے(ثبوت لف ہيں)۔اسی طرح اسلامی معشیت پر اقبال کے خطبات سلطنت عثمانيہ کے مباحثوں ، جامعتہ الاھزر کے پرچوں اور اخوان المسلمين کے اولين ليڈروں کے مضامين کا چربہ تھے۔اقبال نے ان چوری شدہ خيالات کو کبھی غیر اخلاقی مانا نہ اسے بددیانتی سمجھا۔اقبال بہت بڑے شاعر تھے مگر ہم نے انکا بت بنا کر دوسرے اچھے شعرا کے اشعار کو بھی ان سے منسوب کر ديا۔انھوں نے مخصوص خطے کے لوگوں کيلیے شاعری کی مگر ہم نے انھيں پورے مشرق کا نمائندہ شاعراور امت کا حکیم سمجھ ليا،اور ان پر تنقید کفر ٹھہری۔
(ختم شد)
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...