آج – ١٦؍جون؍ ١٩١٩
علاّمہ سیمابؔ اکبر آبادی کے شاگرد، نظریاتی طور پر ترقی پسند تحریک سے قریب اور معروف شاعر” اقبال ماہرؔ صاحب “ کا یومِ ولادت…
اقبال ماہرؔ ١٦ جون ١٩١٩ء کو الہٰ آباد میں پیدا ہوئے۔ وہ سیماب اکبر آبادی کے تلامذہ کے سلسلے کی آخری کڑی تھے۔ ابتدائی تعلیم اسلامیہ انٹر کالج الہ آباد سے حاصل کی اور گورنمنٹ انٹر کالج الٰہ آباد سے انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ سائنسی علوم میں خاص مہارت رکھتے تھے۔ ١٩٣٥ء میں شاعری کی ابتدا کی۔ غزل اور نظم دونوں اصناف میں شاعری کی۔ نظریاتی سطح پر ترقی پسند تحریک سے قریب تھے اور اسی فکر وشعور کے ساتھ شعر کہتے تھے۔
نظموں کا پہلا مجموعہ ’دیارِ گنگ وجمن‘ 1975 میں الہ آباد سے شائع ہوا۔ جس میں کئی نظیں الہ آباد شہر پر ہیں۔ دوسرا مجموعہ ’لوحِ ادب‘ (غزلیں) ١٩٨٤ء میں شائع ہوا۔ اقبال ماہر کو ان کی ادبی وشعری خدمات کے لئے کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
معروف شاعر اقبال ماہرؔ کے یومِ ولادت پر منتخب کلام بطورِ خراجِ تحسین…
ﺟﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺭﮦِ ﺧﻮﻑ ﻭ ﺧﻄﺮ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﮮ ﮨﯿﮟ
ﺟﺪﮬﺮ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮔﺰﺭﮮ ﺍﺩﮬﺮ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﮮ ﮨﯿﮟ
ﺻﻒِ ﺻﻠﯿﺐ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ
ﻣﺴﯿﺢِ ﻭﻗﺖ ﺍﺳﯽ ﺭﮦ ﮔﺰﺭ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﮮ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﮈﻭﺏ ﮈﻭﺏ ﮐﮯ ﺍﺑﮭﺮﺍ ﮨﻮﮞ ﮨﺮ ﺗﻼﻃﻢ ﺳﮯ
ﮨﺰﺍﺭ ﺳﯿﻞِ ﺭﻭﺍﮞ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺮ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﮮ ﮨﯿﮟ
ﺟﻮ ﮐﻞ ﺗﮭﮯ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮔﯿﺴﻮﺅﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺋﮯ ﻣﯿﮟ
ﻭﮦ ﺁﺝ ﺗﭙﺘﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺭﮦ ﮔﺰﺭ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﮮ ﮨﯿﮟ
ﺳﮑﻮﺕِ ﺷﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﯾﺎﺩﻭﮞ ﮐﮯ ﮐﺎﺭﻭﺍﮞ ﻣﺎﮨﺮؔ
ﺩﻝ ﺗﺒﺎﮦ ﮐﮯ ﺍﺟﮍﮮ ﻧﮕﺮ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﮮ ﮨﯿﮟ
***
ﺍﮨﻞِ ﻓﻦ ﺍﮨﻞِ ﺍﺩﺏ ﺍﮨﻞِ ﻗﻠﻢ ﮐﮩﺘﮯ ﺭﮨﮯ
ﺑﺪ ﺯﺑﺎﮞ ﮐﻮ ﮨﻢ ﺯﺑﺎﻥ ﺩﺍﻥِ ﻋﺠﻢ ﮐﮩﺘﮯ ﺭﮨﮯ
ﺟﺒﺮ ﻭ ﺍﺳﺘﺒﺪﺍﺩ ﮐﻮ ﺟﻮﺩ ﻭ ﮐﺮﻡ ﮐﮩﺘﮯ ﺭﮨﮯ
ﺻﺒﺮ ﻭ ﻃﺎﻋﺖ ﮐﻮ ﻋﻼﺝ ﺩﺭﺩ ﻭ ﻏﻢ ﮐﮩﺘﮯ ﺭﮨﮯ
ﮨﻢ ﮐﻮ ﮨﺮ ﻣﺤﻔﻞ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺁﺩﺍﺏِ ﻣﺤﻔﻞ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ
ﺍﺣﺘﺮﺍﻣﺎً ﮨﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻣﺤﺘﺮﻡ ﮐﮩﺘﮯ ﺭﮨﮯ
ﭼﺸﻢِ ﭘﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺭﯾﺎ ﮐﺎﺭﯼ ﮐﻮ ﺷﮩﮧ ﻣﻠﺘﯽ ﺭﮨﯽ
ﻋﯿﺐ ﭘﻮﺷﯽ ﮐﻮ ﺷﺮﺍﻓﺖ ﮐﺎ ﺑﮭﺮﻡ ﮐﮩﺘﮯ ﺭﮨﮯ
ﺁﺑﺮﻭﺋﮯ ﻣﺬﮨﺐ ﻭ ﻣﻠﺖ ﺑﮭﯽ ﺭﮐﮭﻨﯽ ﺗﮭﯽ ﺿﺮﻭﺭ
ﻧﻨﮓ ﻣﻨﺒﺮ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﺷﯿﺦ ﺣﺮﻡ ﮐﮩﺘﮯ ﺭﮨﮯ
ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﻧﮑﻠﮯ ﺭﮨﻨﻤﺎﺅﮞ ﮐﮯ ﻧﻘﻮﺵِ ﮐﺠﺮﻭﯼ
ﺟﻦ ﮐﻮ ﺭﺍﮨﯽ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﮐﮯ ﭘﯿﭻ ﻭ ﺧﻢ ﮐﮩﺘﮯ ﺭﮨﮯ
ﺑﺎﺭﮨﺎ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﻣﺎﮨﺮؔ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻣﻐﻤﻮﻡ ﻭ ﻣﻠﻮﻝ
ﮨﻢ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﭘﺮﻭﺭﺩۂ ﻧﺎﺯ ﻭ ﻧﻌﻢ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﮯ
اقبال ماہرؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ