(Last Updated On: )
شاعرِ مشرق ، حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ کی شخصیت ، فکر اور فنی پختگی جب اوجِ کمال کو پہنچی تو اُن کی نظر ہو یا نظم ،اس کا محورومرکز ’’اُمت ‘‘ بن گئی ۔اِقبالؒ نے فر د بن کر سو چنا چھوڑ دیا ۔ وہ ہمیشہ ہر منظر کو ، ہر عکس کو اُمت کی نظر سے دیکھتے اور ہر مسئلے پر اجتماعی غور فرماتے ۔ نفع و نقصان کو اُمت کے ترازو میں تو لتے ۔ خیر و شر کو اُمت کے پیمانے سے ناپتے ، حسن و قبح کو اُمت کی کسوٹی پر پر کھتے ۔ علامہ اِقبال کی زندگی میں ایک ایسا وقت آیا کہ اُن کا ذہن اُمت کا تر جمان ، اُن کا قلم اُمت کی زبان ، اُن کی فکر اُمت کا نقطہ نظر ، اُن کی نظر اُمت کی فکر اور اُن کی نظم اُمت کا سوز بن کر رَہ گیا ۔
کلامِ اقبالؒ میں وہ کبھی اُمت کے حوالے سے فلسفے کی زبان میں بات کر تے ہیں ۔ کبھی داعی اور مبلغ بن کر کلام کر تے ہیں ۔ کبھی اُمت کے مر ثیہ گو نظر رکھتے ہیں ۔ کبھی شکوہ لکھتے ہیں ۔ کبھی رزمیہ انداز اختیار کر تے ہیں ۔ کبھی طنزیہ مزا ح اَپناتے ہیں۔ کبھی عالمِ ناسوت اور لاہوت میں پہنچ جاتے ہیں ۔ کبھی بارگاہِ رسالتؐ میں فر یاد کرتے ہیں ۔ کبھی اُمت کے جوانوں کو شاہین کی طر ح پرواز کر نے پر اُبھارتے ہیں ۔ کبھی ’’یزداں بکمند آور‘‘ کا نغمہ گاتے ہیں ۔ کبھی ماضی کو آواز دیتے ہیں ، کبھی حال کا رونا روتے ہیں ، کبھی خلوت میں تڑپتے ہیں ، کبھی جلوت میں پھڑکتے ہیں ، کبھی نالہ نیم شبی کی آڑ لیتے ہیں ،کبھی فغاں صبحگاہی کو ڈھال بناتے ہیں ۔ علامہ اِقبالؒ کا مد و جزر ، سب کچھ وقف ِ اُمت رہا۔ وہ اس سے خو ش نہ تھے کہ دنیا اُنہیں فیلسوفِ مشر ق کہتی ہے بلکہ وہ اس پر دِگر تھے کہ اُمت مغلوب ہو رہی ہے ۔وہ اس پر نازاں نہیں تھے کہ اُنہوں نے یورپ کا فلسفہ کنگال لیا ہے بلکہ وہ اس سے آزردہ تھے کہ اُمت میں فکری زوال آرہا ہے ۔علامہ اِقبالؒکو یہ گھمنڈ نہیں تھا کہ وہ عصرِ رواں کا بہترین دفاع ہیں بلکہ اُنہیںیہ فکر دامن گیر رہی کہ اُمت کا مضبوط فکری قلعہ تعمیر ہو نا چاہیے۔ وہ اس پر مطمئن نہیں تھے کہ اُن کی بات اب ہر محفل میں ہو رہی ہے بلکہ اُنہیں اضطراب تھا کہ اَقوام کی مجلس میں اُمت کی فر یاد سنی جائے۔ وہ اس شادماں نہیں تھے کہ ہر کو ئی اُن کا گن گا رہا ہے بلکہ یہ دیکھ کر پریشان تھے کہ آفتابِ اُمت کا گہنا رہا ہے۔ اُنہیں یہ اطمینان نہیں تھا کہ اہلِ دانش کی نگاہیں اُن کی طرف لگی ہوئی ہیں بلکہ اُن کا اَرمان رہا کہ اہلِ دنیا اُمت سے نگاہیں پھیر رہی ہے۔ اُنہیں یہ شوق نہیں تھا کہ وہ نابغہ اور عبقری کہلائیں بلکہ اُن کی یہ خواہش تھی کہ اَفراد اُمت رمز خودی کو اپنائیں اور دنیا پر چھا جائیں ۔ حضرت اقبال ؒ کی زندگی اس آرزو میں گزری کہ ہر گام پر اُمت سر خرو ہو کر رہے ۔
ڈاکٹر علامہ محمد اِقبالؒ کے خطبات ہوں کہ اُردو کلیات ۔ فارسی زبان کا کلام ہو کہ ملفوظات ، ہر پہلو سے اُمت کا رنگ جھلکتا ہے۔ آپؒ پر لکھی جانے والی ہر کتاب میں غالب حصہ اُمت کے مسائل و معاملات کیلئے وقف ہے ۔ آج تو اُمت کا وجود مختلف اَمراض میں گھرا ہوا ہے ۔ علامہ اقبال ؒ کے دِور میں بھی اس کی حالت قابلِ رشک نہ تھی ۔ مصائب کی نوعیت تو یکساں رہی البتہ آج کے دَور میں اس کی سنگینی اور شد ت بڑھ گئی ہے۔ اس زمانے میں بھی کچھ مشکلیں بے شمار تھیں، آج بھی اُن کے بیان کو اُمت بے تاب ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ آج کے مسلم مفکر اُمت کے بجائے اپنی فکر میں زیادہ مبتلا ہیں۔ جبکہ اقبالؒ کی رگوں میں خون نہیں اُمت ِمسلمہ کا درد دَوڑ رہا تھا ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ حقیقی ماں باپ کو اپنی اَولاد کے مستقبل کیلئے اتنی فکر مندی اور سو چ نہیں ہو تی جتنی علامہ اقبال ؒ کو اس اُمت کی رہتی تھی ۔ماں باپ اپنی اولاد کیلئے اتنا وقت نہیں صرف نہیں کر پاتے ،جتنا اقبالؒ نے اس اُمت پر دماغ خر چ کیا ہے ۔ اہلِ درد اور نظر والے جانتے ہیں کہ اقبالؒ کس طرح آدھی آدھی رات کو اُٹھ کر بارگاہِ ایزدی میں اُمت کا دُکھڑا پیش کر تے اور نجات کی دعائیں کر تے رہے ۔ کس طرح مجسم آرزو بن کر سر ور ِ کائنات ؐکے حضور میں اُمت کا احوال سناتے اور کرم طلب کرتے رہے ۔ جب بے تابی اور بے چینی حد سے بڑھ گئی تو خدا کے حضور ’’شکوہ ‘‘تک لکھ ڈالا ۔
آج اُمت کا ہر فرد اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دے کہ خدائے ذو الجلال کی بے نیاز بارگاہ میں اقبالؒ کے علاوہ کس نے اپنے جذبات ، اس قدر دَر د مندی اور سوزِ دروں سے اس کا مقد مہ پیش کیا ہے ؟ اس شکوے پر اقبال کو فتوئوں کے کتنے تیر و نشتر سہنے پڑے لیکن آرزو اور اَرمان کا ایک ایک کانٹا دل سے نکال کر رکھ دیا۔ علامہ اِقبالؒ کے عہدمیںکیا فلسفی ، خطیب و ادیب نہ تھے، دنیا شاعروں سے بانجھ ہو گئی تھی ،کیا صاحب ِدر د اُٹھ گئے تھے ،اہلِ نظر مفقود تھے ۔ سبھی لوگ تھے ،اُنہوں نے اپنے وقت کے خانے بنا رکھے تھے اور ایک خانہ ’’اُمت ‘‘کا تھا مگرعلامہ اقبالؒ کا ہر لمحہ وقف ِاُمت تھا۔ وہ اُمت کے اَفراد سے اس طرح مخاطب ہوتے ہیں ۔
ترا اَندیشہ افلاکی نہیں ہے
تری پرواز لولاکی نہیں ہے
یہ مانا اَصل شاہینی ہے تیری
تری آنکھوں میں بے باکی نہیں ہے!
کبھی علامہ اِقبالؒ اس لہجے میں بات کر تے ہیں :
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں
نماز و روزہ قربانی و حج
یہ سب باقی ہے تو باقی نہیں
علامہ اقبالؒ جب اُمت کے ہاتھ میں کشکولِ گدائی دیکھتے ہیں اور چھوٹے چھو ٹے کاموں کیلئے غیروں کی طرف التجا بھری نظروں کا مشاہدہ کر تے ہیں تو پر وانے اور جگنو کو استعارہ بنا کر اہلِ اسلام کو درسِ خودی دیتے ہیں ، پروانہ کہتا ہے:
پروانے کی منزل سے بہت دور ہے جگنو
کیوں آتش بے سوز پہ مغرور ہے جگنو
جگنو جواب دیتا ہے :
اللہ کا سو شکر کہ پروانہ نہیں میں
دریوزہ گر آتش بیگانہ نہیں میں
اُمت کی زبوں حالی پرعلامہ اقبالؒ کچھ یوںفرماتے ہیں :
ہو گئی رُسوا زمانے میں کلاہ لالہ و رنگ
جو سراپاناز تھے ، ہیں آج مجبور و نیاز
اُمت آج بھی گو ناگوں مصیبتوں اور مشکلات میں گھری ہو ئی ہے۔ آج اُمت کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی بد حالی کا رونا ہے اور معاشی بدحالی کو ’’اُم المسائل ‘‘ کا درجہ حاصل ہے لیکن بخدا اُمت معاشی بد حالی کا شکار نہیں بلکہ اربابِ اقتدار کی بد اعمالی میںگر فتار ہے۔سورئہ رحمن کی ستائیس کی ستائیس نعمتیں جو قدرت نے اُمت کو عطا ء کی ہیں ۔دراَصل مسئلہ یہ ہے کہ اُمت میں ذوق و ولولہ پیدا ہو، روح ِانقلاب بیدار ہو ۔ نسبت ِ مصطفیؐ اُستوار ہو، نصب العین کی پہچان پیدا ہو ، خودی کی تلاش اور استحکام پر توجہ دی جائے ۔حکیم الامت علامہ محمد اِقبالؒ نے سب سے زیادہ انہیں باتوں پر زور دیا ہے کہ اگر ہاتھ شل ہوں تو آپ کسی کام کی نہیں ہوتے ، آنکھیں اُداس ہوں تو نظارے مزا نہیں کر تے ، ذوق بگڑا ہو تو لاہوتی نغمہ بھی کانوں پر گراں گزر تا ہے ۔ علامہ محمد اقبالؒ نے اس ہاتھ کو ’’دستِ قدرت‘‘ بنانے کی بات کی ہے ۔ انہیںآنکھوں میں چمک پیدا کر نے کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔ اسی دل کی تپش آشنا بنانا چاہا ہے اور اسی ذوق کو دُرست کر نے کی تلقین کی ہے ۔
نشانِ راہ ز عقلِ ہزار حیلہ مپرس
بیا کہ عشق کمالے ز یک فنی دارد
ترجمہ : راستے کا نشان ہزار حیلے بنانے والی عقل سے مت پوچھ۔ آ اور عشق سے پوچھ کہ یہ ایک فن کا کمال رکھتا ہے، یعنی منزل کا نشان اور راستہ عشق ہی بتا سکتا ہے۔
علامہ اِقبال ؒفرماتے ہیں :
نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینہ میں اسے اور ذرا تھام ابھی
پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی
عشق فرمودۂ قاصد سے سبک گام عمل
عقل سمجھی ہی نہیں معنی ٔپیغام ابھی
شیوہ ٔ عشق ہے آزادی و دہر آشوبی
تو ہے زناریٔ بت خانہ ٔایام ابھی
عذر پرہیز پہ کہتا ہے بگڑ کر ساقی
ہے ترے دل میں وہی کاوش انجام ابھی
سعی ٔ پیہم ہے ترازوئے کم و کیف حیات
تیری میزاں ہے شمار سحر و شام ابھی
ابر نیساں یہ تنک بخشی ٔ شبنم کب تک
میرے کہسار کے لالے ہیں تہی جام ابھی
خبر اقبالؔ کی لائی ہے گلستاں سے نسیم
نو گرفتار پھڑکتا ہے تہ دام ابھی
٭
حوالہ جات :
۱۔ کلیاتِ اقبال ،علامہ اِقبالؒ ۔ مطبع: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی ،۲۰۱۴ء
۲۔فلسفہ ٔ عجم ،علامہ محمد اِقبالؒ ۔مترجم: میر حسن الدین، مطبع: بک کارنر ، جہلم ۲۰۱۲ء
۳۔ شکوہ ، جوابِ شکوہ ، علامہ محمد اِقبالؒ ۔ مؤلف : محمد شریف بقا ، رابعہ بک ہائوس لاہور ، ۲۰۱۰ء
۴۔ اِقبالؒ کی شاعری ، ہندی ایڈیشن ، سٹار پبلی کیشنز نئی دہلی ، ۲۰۰۱ء
۵۔ روحِ مکاتیب ِ اِقبالؒ ، محمد عبد اللہ قریشی ، اِقبال اکادمی لاہور ، ۱۹۷۷ء