(Last Updated On: )
اردو شاعری کی تاریخ میں بے شمار شعرا گزرے ہیں ۔بلاشبہ ان تمام شاعروں نے اپنے اپنے مبلغِ علم وفکر کے اعتبار سے اردو زبان وادب کی خدمت انجام دی ہے۔ان شاعروں میں کم کم ہی سہی ایسے شعرا بھی گزرے ہیں جواپنے منفرد اسلوب اور اچھوتے مضامین اور خیالات کی وجہ سے امتیازی حیثیت کے حامل ہیں ۔ لیکن جب ہم ان شاعروںمیں ایسے شعراکی تلاش کرتے ہیں جنھوں نے اپنی غیر معمولی ذہانت وذکاوت،علمی بصیرت،اعلٰی درجے کی سیاسی وسماجی سوجھ بوجھ،دینی شعور، ملیّ و قومی درد،فلسفے اوراور دانشوری سے فکر و نظر کے چراغ روشن کیے ہوں اور اپنی شاعری سے پیغمبری کا کام لیا ہوتو ہماری نظرصرف اقبالؔ پر آ کر ٹھہر جاتی ہے۔ اردو شاعری کی تاریخ میں اقبالؔ ہی واحد شاعر ہیں جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری سے پیغمبرانہ کام لیا ہے۔ بلا شبہ اقبالؔ پیامی شاعر ہیں ۔اقبالؔ نے اپنی شاعری کے ذریعے نہ صرف امتِ ِ مسلمہ کی فکری اور تمدنی اصلاح کا عظیم الشان کارنامہ انجام دیا بلکہ دیگر اقوام کو بھی یہ پیغام دیا کہ ان کی فلاح اور نجات کا ذریعہ بھی اسلام ہی ہے۔
اقبالؔ کی شاعری پیامی ضرور ہے لیکن یہ پیام شعرو فن کے پردے میں دیا گیا ہے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اقبالؔ کی شاعری نری پیامی شاعری نہیں ہے بلکہ ان کی شاعری میں شعرو فن کے تمام تقاضوں کی تکمیل بھی بدرجہ اتم نظر آتی ہے۔زبان کے حسن، تشبیہات ،استعارات،تلمیحات ،علامات،رمزوکنایہ اور دیگر شعری صنعتوں کے فن کارانہ استعمال کے اعتبار سے بھی ان کا کلام نہایت شاندار اور جاندار ہے۔فنی حسن کے حوالے سے پنجاب کے اقبالؔ کا کلام دہلی اور لکھنئو کے کسی بھی بڑے سے بڑے استادشاعر کے کلام کے مقابلے میں رکھا جاسکتا ہے۔یہاں یہ بات اس لیے زور دے کر کہی جارہی ہے کہ عام طور پر اقبال کو صرف پیامی شاعر کہہ کر ان کے کلام کی ان خصوصیات کو نظر انداز کیاجاتا ہے۔ یااس کی طرف بہت کم کسی کی نظر جاتی ہے۔
طبعی جمالیات یا حسنِ فطرت کی مصوری کے حوالے سے جوش ؔ اور انیسؔ کا نام زیادہ لیا جاتا ہے۔جوشؔ کو تو شاعرِ فطرت قرار دیا گیا ہے۔ فطرت نگاری کے تناظر میںجب ہم اقبالؔ کی نظموںکا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حسنِ فطرت کی مصوری میں اقبال کا موئے قلم بھی جوشؔ یا انیسؔ سے کسی طرح کم نہیں۔محاکات نگاری میں اقبال کو بڑا کمال حاصل تھا۔وہ لفظوں کے ذریعے کسی واقعے یا منظر کی ایسی بہترین تصویر کھینچ کے رکھ دیتے ہیں کہ طبیعت وجد کرنے لگتی ہے۔
اقبالؔ نے اپنی مختلف نظموں میں حسنِ فطرت کے ایسے ایسے مرقعے کھینچے ہیں کہ ان کا اعتراف نہ کرنا اور ان کی داد نہ دینا ادبی بد دیانتی ہوگی۔فطرت اور قدرت کے نظارے بجائے خود حسین ہوتے ہیں ۔لیکن جب یہ نظارے کسی فسوں کار شاعر کے قلم سے بیان ہوتے ہیں تو ان میں ایک عجیب طرح کا’ حسنِ سحر کار‘پیدا ہوتا ہے جو با ذوق قارئین کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیتا ہے؛اور وہ لفظوں کے ذریعے کھینچے گئے ان حسین مرقعوں سے جمالیاتی تلذذ حاصل کرتے ہیں۔اقبالؔ کی ایسی کئی نظمیں ہیں جن میں حسنِ فطرت کی مصوری کے جلوے دکھائی دیتے ہیں۔مثلاً: ہمالہ، ایک آرزو،بزمِ انجم،انسان اور بزمِ قدرت ،جگنو،ابرِ کہسار گلِ رنگیں،ایک شام،عشق اور موت، خضرِ راہ( پہلا بند) ساقی نامہ ( پہلا بند)وغیرہ ۔
نظم ’’ہمالہ‘‘ اقبالؔ کی ایسی نظم ہے جس میں جلال و جمال کا حسنِ امتزاج نظر آتا ہے۔اس نظم سے دو بند ملاحظہ فرمائیں۔پہلے بند میں اقبالؔ نے پہاڑ کی بلندی سے آتی ہوئی ندی کی خوبصورت منظر کشی کی ہے۔
آتی ہے ندّی فرازِ کوہ سے گاتی ہوئی کوثر وتسنیم کی موجوں کو شرماتی ہوئی
آئنہ سا شاہدِ قدرت کو دکھلاتی ہوئی سنگ رہ سے گاہ بچتی گاہ ٹکراتی ہوئی
چھیڑتی جا اس عراقِ دلنشیںکے ساز کو
اے مسافر ! دل سمجھتا ہے تری آواز کو
اقبالؔنے کہا ہے کہ فرازِ کوہ سے جو ندی گاتی ہوئی آرہی ہے اس کا پانی اس قدر صاف وشفاف ہے کہ اس کے سامنے کوثر وتسنیم کی موجیں بھی شرماتی ہیں۔ کوثر اور تسنیم جنت کی دو نہروں کے نام ہیں۔یہ پانی اس قدر صاف اور شفاف ہے گویا آئینہ ہے جس میں اس کے اطراف واکناف کی چیزوں کا عکس نظر آرہا ہے۔اس بات کو ظاہر کرنے کے لیے اقبالؔ نے ’’ شاہدِ قدرت کو آئینہ دکھاتی ہے‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔پھر کہا ہے کہ یہ ندی رستے کے پتھروں سے کبھی بچتی ہوئی اور کبھی ٹکراتی ہوئی آرہی ہے۔پہاڑی ندیوں کے بہنے سے ایک طرح کا ترنم پھوٹتا ہے۔ اس لیے اقبال ؔ ندی کو گویّا اور موسیقی کار تصور کر کے اس سے مخاطب ہو کر کہہ رہے ہیں کہ اے ندی! تیری طرح میرا دل بھی نغموں سے معمور ہے۔اس طرح میں بھی تیرا ہمراز وہمدم ہوں ۔تو میرے دل کے ساز کو بھی چھڑتی جا۔اقبالؔ نے اپنے دل کو ساز سے تعبیر کیا ہے ۔ پھر اسے’’ عراقِ دلنشین کہا ہے’’عراق‘‘ ایک موسیقی کا نام ہے ۔یعنی میرے دل کے ساز میں پوشیدہ موسیقی کو بھی انگیز کر۔اگر اس بند کو توجہ سے پڑھا جائے تو ہماری نظروں کے سامنے بل کھاتی ہوئی پہاڑی ندی کا مکمل منظر گھوم جاتا ہے۔
لیلیِِ شب کھولتی ہے آ کے جب زلفِ رسا دامنِ دل کھینچتی ہے آبشاروں کی صدا
وہ خموشی شام کی جس پر تکلم ہو فدا وہ درختوں پر تفکر کا سماں چھایا ہوا
کانپتا پھرتا ہے کیا رنگِ شفق کہسار پر
خوشنما لگتا ہے یہ غازہ ترے رخسار پر
اس بند میں شام کے پُر کیف منظر کی تصویر کشی کی گئی ہے ۔کہا ہے کہ جب لیلیِ شب اپنی زلفِ رسا کھولتی ہے۔ یعنی جب سورج ڈھلتا ہے اور تاریکیوں کے سائے بڑھتے جاتے ہیں تو اس وقت آبشاروں کی مترنم صدا اور بھی پُر کیف ہو جاتی ہے۔شام کی خموشی اس قدر دل فریب ہے کہ اس پر گفتگو بھی قربان ہو جائے۔درختوں کو دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی گہری سوچ میں کھڑے ہیں۔ شفق کی لالی کویکھ کر اقبالؔ کو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ کسی نے کہسار کے چہرے غازہ لگا دیا ہے جس سے کہسار مزید حسین معلوم ہو رہا ہے۔
نظم ’’ایک آرزو‘‘ میں اقبال ؔنے ہنگامۂ ہاے دنیا سے دور کسی پہاڑ کے دامن میں ایک چھوٹے جھونپڑے میں بے فکر زندگی گزارنے کی آرزو کا اظہار کیا ہے۔اس پہاڑی دامن کا منظر کیسا ہونا چاہپیے ؟ اقبالؔ کی زبانی ملاحظہ کریں ۔
لذت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں
چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو
صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں
ندّی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو
ہو دلفریب ایسا کہسار کا نظارہ
پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو
آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ
پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو
پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو
مہندی لگائے سورج جب شام کی دلہن کو
سرخی لیے سنہری ہر پھول کی قبا ہو
پہاڑ کا دامن ہو ۔ہر طرف چڑیوں کے چہچہے ہوں۔،چشمے کا ساز بج رہا ہو۔ ،ندی کے کنارے ہرے ہرے پودے صف باندھے کھڑے ہوں۔ندی کا صاف پانی ایسا ہو گویا آئینہ ۔کہسار کے دلفریب نظارے کو دیکھنے کے لیے ندی کا پانی موج بن بن کراوپر اٹھ رہا ہو۔زمین کی آغوش میں سبزہ اور جھاڑیوں میںپانی پھر رہا ہو جس میں چمک ہو۔ندی کے پانی میں کسی گل کی ٹہنی ا س طرح جھک رہی ہو جیسے کوئی حسین آئینہ دیکھتا ہو۔غروبِ آفتاب کے حسین منظر کو بیان کرتے ہوے کہا ہے کہ سورج شام کی دلہن کو مہندی لگا رہا ہو۔اورہر پھول کی قبا سنہری ہو۔ جیسے جیسے قاری یہ اشعار پڑھتا جائے گا ویسے ویسے یہ حسین اور دلکش منظرا س کی نظروں کے سامنے ابھرتا چلا جائے گا۔محاکات کی اس سے بڑھ کر اور بہتر مثال کیا ہو سکتی ہے۔تمام اشعار حرکیاتی کیفیت سے معمور ہیں۔پڑھنے والا یوں محسوس کرے گا گویا وہ اسکرین پر کوئی فلم دیکھ رہا ہے۔پہاڑی دامن ندی کا بہنا،سبزہ ،پیڑ پودے،گلوں کی ٹہنیوں کالہلہانا، شام کا خوبصورت منظروغیرہ۔اقبالؔ نے ان اشعار میں بھی حسنِ فطرت کی ہو بہوعکاسی کی ہے۔جس کی جس قدر تعریف کی جائے کم ہے۔
نظم ’’ بزمِ انجم‘‘ کے ابتدائی تین شعر ملاحظہ کریں جن میں غروبِ آفتاب کی منظر کشی کی گئی ہے۔
سورج نے جاتے جاتے شامِ سیہ قبا کو
طشتِ افق سے لے کے لالے کے پھول مارے
پہنا دیا شفق نے سونے کا سارا زیور
قدرت نے اپنے گہنے چاندی کے سب اتارے
محمل میں خامشی کے لیلائے ظلمت آئی
چمکے عروسِ شب کے موتی وہ پیارے پیارے
غور کیجیے ۔آفتاب غروب ہو رہاہے ۔شام کالی ہوتی ہے۔ اس لیے شاعر نے اسے ’’شامِ سیہ قبا‘‘ کہا ہے۔آسمان کے کناروں پر جو رنگِ شفق پھیلا ہے وہ شاعر کے نزدیک گلہائے لالہ کا طشت ہے۔ شاعر نے دن کے اجالے یا سورج کی روشنی کو چاندی کے گہنوں سے تعبیر کیا ہے۔یہاں یہ کہنے کہ ضرورت نہیں کہ چاندی کا رنگ سفید ہوتا ہے۔ شفق میں لالی کے ساتھ ساتھ سنہرا رنگ بھی ہوتا ہے اس لیے اسے سونے کا زیور کہا ہے۔ آسمان پر چمکنے والے ستاروں کو عروسِ شب یعنی رات کی دلہن کے موتی کہا ہے۔ ان تین اشعار میں اقبال ؔنے غروبِ آفتاب کے منظر کو ایسے حسین اور دلکش استعاروں اور تشبیہوں کے ذریعے بیان کیاہے کہ طبیعت بے ساختہ جھومنے لگتی ہے۔اور زبان سے صدائے مرحبانکلتی ہے۔
نظم ’’ایک شام‘‘ میں اقبال ؔنے دریائے نیکر(ہائڈرل برگ ،جرمنی) کے کنارے کی ایک پُر سکوت شام کا منظر بیان کیا ہے۔اقبال ؔ کا کمالِ فن دیکھیے کہ انھوں نے اس نظم میں جتنے الفاظ استعمال کیے ہیں اس کے ہر لفظ سے سکوت ہی سکوت ظاہر ہو رہا ہے۔ملاحظہ فرمائیں:
خاموش ہے چاندنی قمر کی شاخیں ہیں خموش شجر کی
وادی کے نوا فروش خاموش کہسار کے سبز پوش خاموش
فطرت بے ہوش ہو گئی ہے آغوش میں شب کے سو گئی ہے
کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے نیکرؔ کا خرام بھی سکوں ہے
تاروں کا خموش کارواں ہے یہ قافلہ بے درا رواں ہے
خاموش ہیں کوہ ودشت ودریا قدرت مراقبے میں ہے گویا
مکمل خاموشی اور سکوت کی ترجمانی کے لیے’قدرت کو مراقبے میں ہے ‘سے تعبیر کرناکس قدر بلیغ اندازِ بیان ہے یہ کہنے کی ضرورت نہیں۔چاند کی چاندنی خاموش ہے۔تمام درخت ساکت و صامت کھڑے ہوے ہیں۔وادی کے نوا فروش یعنی طائرانِ خوش نوا بھی خاموش ہیں۔فطرت بے ہوش ہو کرشب کی آغوشِ میں سو چکی ہے۔تاروں کا قافلہ بھی خاموش اور بے درا ہے۔یعنی وہاں بھی کوئی حرکت نہیں ۔گویا ساری کائنات بے ہوش اور مد ہوش ہے۔اس نظم میں ایسی کیفیت ہے کہ نظم پڑھنے سے قاری پر ایک غنودگی سی طاری ہونے لگتی ہے۔ طبعی جمالیات کی ایسی تصویر کشی کیا قابل ِ داد تحسین نہیں؟ ایک اعلیٰ درجے کا فطرت نگار شاعر ہی حسنِ فطرت کی ایسی لفظی تصویر کھینچ سکتا ہے۔
نظم ’’ خضرِراہ‘‘ کے پہلے بند کے یہ ابتدائی اشعار بھی دیکھیں جن میں سکوت کی کس قدر بہترین مرقع کشی کی گئی ہے:
ساحلِ دریا پہ میں اک رات تھا محوِ نظر
گوشۂ دل میں چھپائے اک جہانِ اضطراب
شب سکوت افزا،ہوا آسودہ،دریا نرم سیر
تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویرِ آب
جیسے گہوارے میں سوجاتا ہے ہے طفلِ شیر خوار
موجِ مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مستِ خواب
رات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر
انجم ِکم ضو گرفتارِ طلسمِ ماہتاب
دریا کے سکوت کو تصویرِ آب سے تعبیر کرنا۔موجوں کی خاموشی کو گہوارے میں سوئے ہوئے طفلِ شیرخوار کی خاموشی سے تشبیہ دینا فن کارانہ حسن کی بہترین مثال ہے۔ان اشعار سے دریاکے سکوت کی تصویر بخوبی نمایاں ہو تی ہے۔
’’ساقی نامہ‘‘ اقبال کی شاہکار نظموں میں سے ایک ہے۔یہ نظم غیر معمولی سلاست وروانی ،اورصوری ومعنوی حسن کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔اس نظم کے پہلے بند میں اقبالؔ نے موسمِ بہار کی منظر کشی کی ہے ۔یہاں بھی اقبالؔ جمال پرست شاعر اور بہترین مصورِ فطرت کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتے ہیں۔موسمِ بہار ہے،پہاڑ کے دامن میں رنگ برنگ کے پھول کھلے ہوے ہیں جن سے دامنِ کوہسار باغِ ارم بن گیا ہے۔ہوائوں میں ایسا کیف اور سرور ہے کہ پرندے اس کیف وسرور سے سرشار ہیں اور اپنے آشیانوں میں ٹھہرنے کے لیے تیار نہیں ۔ان پُرکیف ہواؤںسے سرشار ہو کر وہ اپنے نغموں سے فضائوں کو اور بھی کیف آگیں بنارہے ہیں۔پہاڑی ندی اچکتی ،لچکتی ،اٹکتی ،سرکتی اور بل کھاتی ہوئی بہتی چلی جارہی ہے۔پہاڑ کے دامن میں طرح طرح کے پھول ،پرندوں کی نغمہ زنی پُر کیف ہوائیں،ندی کا بل کھاتے ہوے بہنا۔اقبال ؔنے ان تمام مناظر کی ایسی دل نشین تصویر کھینچی ہے کہ اس بند کو بار بار پڑھنے پر بھی طبیعت سیر نہیں ہوتی ۔مصرعوں کی ترنم خیزی ایک الگ جادو جگا تی ہے۔ملاحظہ فرمائیں:
ہوا خیمہ زن کاروانِ بہار ارم بن گیا دامنِ کوہسار
گل ونرگس وسوسن ونسترن شہیدِ ازل لالہ خونیں کفن
جہاں چھپ گیا پردۂ رنگ میں لہو کی ہے گردش رگِ سنگ میں
فضانیلی نیلی ہوا میں سُرور ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور
وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی اٹکتی لچکتی سرکتی ہوئی
رکے جب تو سل چیر دیتی ہے یہ پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ
نظم ’’جگنو‘‘ اقبالؔ کے پروازِ تخیل اورزبردست قوتِ متخیلہ کی دلیل ہے۔رات ہے اور چمن میں جگنو اڑ رہا ہے ۔جگنو کو کس نے نہیں دیکھا ہوگا؟ظاہر ہے کہ ہر کسی نے دیکھا ہوگا اور بیسیوں بار دیکھا ہوگا۔ لیکن جب اقبالؔ اس جگنو کو دیکھتے ہیں تو ان کا پروازِ تخیل کہاں سے کہاں جاتا ہے ملاحظہ کریں:
جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں
آیا ہے آسماں سے اڑ کر کوئی ستارہ یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں
یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا غربت میں آکے چمکا گمنام تھا وطن میں
تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا ذرہ ہے یا نمایاں سورج کے پیرہن میں
حسنِ قدیم کی یہ پوشیدہ اک جھلک تھی لے آئی جس کو قدرت خلوت سے انجمن میں
چھوٹے سے چاند میں ہے ظلمت بھی روشنی بھی نکلا کبھی گہن سے آیا کبھی گہن میں
پروانہ اک پتنگا جگنو بھی اک پتنگا
وہ روشنی کا طالب یہ روشنی سراپا
چمن میں جگنو کی چمک اورروشنی کو دیکھ کر شاعر پر ایک عجیب سحر طاری ہے ۔وہ اس ننھے سے کیڑے کی روشنی سے ایسا متاثر ہے کہ اسے سمجھ میں نہیں آرہا کہ اسے کیا نام دے۔کہتا ہے کہ چمن میں جگنو چمک رہا ہے یا بزمِ ِگلستاں میں کوئی شمع جل رہی ہے۔ آسمان سے کوئی ستارہ چمن میں آگیا ہے یا چاند کی کرن میں زندگی پیدا ہو چکی ہے۔رات کی حکومت میں کوئی دن کا سفیر آیا ہے جو اپنے وطن میں تو گمنام تھا لیکن مسافرت کی حالت میں چمکنے لگا ہے۔ چاند کی پوشاک سے کو چمکتا ہوا تکمہ گرا ہے یاسورج کے لباس میں کوئی ذرہ چمک رہا ہے۔ کیا یہ حسنِ ازل ( خدا کے حسن) کی ایک پوشیدہ جھلک تھی جسے قدرت نے عالمِ بالاکی خلوت سے دنیا کی جلوت میں لے آئی ہے ۔آخر یہ چمکتا ہوا ننھا سے کیڑا کیا ہے؟پھر شاعر نے اسے ایک چھوٹا سا چاند کہا ہے جس میں روشنی بھی ہے اور تاریکی بھی ۔ کبھی یہ چاندگہن میں آجا تا ہے تو کبھی گہن سے باہر نکل جا تا ہے۔یعنی جب جگنو اپنی دم کو بازوئوں میں چھپا لیتا ہے تو ظلمت میں تبدیل ہو جاتا ہے اور جب اڑنے لگتا ہے تو سراپا نور بن جاتا ہے۔ پھر کہا ہے کہ یوں تو پروانہ اور جگنو دونوں بھی چھوٹے سے پتنگے ہیں لیکن قدرت کی کاریگری اور شان دیکھیے کہ پروانہ روشنی کا طالب ہوتا ہے جب کہ جگنو سراپا روشنی ہے۔
’’ عشق اور موت‘‘ انگریزی کے ملک الشعرا ٹینی سنؔ سے ماخوذ دلچسپ اور خوبصوررت نظم ہے ۔اس میں اقبالؔ نے تخلیقِ کائنات کی ابتدا کا ایک خیالی منظر پیش کیا ہے۔یہاں اقبال ؔنے چشمِ تصور سے کام لے کر ایک منظر تخلیق کیا ہے جو سراسر حرکیاتی ہے۔ جدھر نظر ڈالیں ادھر کچھ نہ کچھ سرگرمی جاری ہے۔گویا ایک پراسیس ہے جو مسلسل جاری ہے۔
سہانی نمودِ جہاں کی گھڑی تھی تبسم فشاں زندگی کی کلی تھی
کہیں مہر کو تاجِ زر مل رہا تھا عطا چاند کو چاندنی ہو رہی تھی
سیہ پیرہن شام کو دے رہے تھے ستاروں کو تعلیمِ تا بندگی تھی
کہیں شاخِ ہستی کو لگتے تھے پتے کہیں زندگی کی کلی پھوٹتی تھی
فرشتے سکھاتے تھے شبنم کو رونا ہنسی گل کو پہلے پہل آرہی تھی
عطا درد ہوتا تھا شاعر کے دل کو خودی تشنہ کامِ میِ بے خودی تھی
اٹھی اول اول گھٹا کالی کالی کوئی حور چوٹی کو کھولے کھڑی تھی
زمیں کا تھا دعویٰ کہ میں آسماں ہوں مکاں کہہ رہا تھا کہ میں لا مکاں ہوں
یہاں اقبالؔ نے اپنے غیر معمولی پروازِ تخیل سے کام لے کر ابتدائے آفرینش کا ایسا جمال پرور نقشہ کھینچا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تخلیق ِکائنات کی ابتدا میں ایسا ہی کچھ ہو ا ہوگا۔ابتدائے آفرینش کا سہانا منظر ہے۔ تبسم فشاں زندگی کی کلی ہے ۔یعنی دنیا میں زندگی کا آغاز ہو رہا ہے۔مہر کو تاجِ زر مل رہا ہے۔ یعنی سورج کو روشنی دی جارہی ہے۔ چاند کو چاندنی عطا ہو رہی ہے ۔شام کو سیہ رنگ کا لباس پہنایا جارہا ہے تو ستاروں کو چمکنے دمکنے کی تعلیم دی جارہی ہے۔یعنی رات اور دن کا نظام قائم کیا جارہا ہے۔کہیں شاخِ ہستی کو پتے لگ ر ہے ہیں ۔یعنی دنیا میں مختلف چیزیں پیدا کی جارہی ہیں۔فرشتے شبنم کو رونا سکھا رہے ہیں تو کہیں پھولوں کو ہنسنا سکھایا جارہا ہے۔گویا کارکنانِ قضا وقدر نظامِ کائنات قائم کرنے میں مصروف ہیں ۔کالی کالی گھٹائو ں کو شاعر نے حور کی چوٹی سے تشبیہ دی ہے اور کہا ہے کہ کہیں حور اپنی چوٹی کھولے ہوے کھڑی تھی۔ یہ تمام مناظر وہ ہیں جسے شاعر نے کبھی دیکھا نہیں۔ اَن دیکھے واقعے یا منظر کو اپنے زورِ تخیل کے سہارے تخلیق کرنا کمالِ فنکاری نہیں تو اور کیا ہے۔ اس بند کا اگر غور سے مطالعہ کریں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سامنے ایک فلم چل رہی ہے اور ہم یہ تمام مناظر بچشمِ خود دیکھ رہے ہیں۔ ایسے دلکش ودلفریب خیالی منظر پر ہزار ہا واقعات قربان۔
مختصر یہ کہ اقبال ؔکی نظمیں فکر وفلسفہ ،پیغامِ ہدایت،گہری بصیرت،درسِ اخوت اور نکتہ ہائے دقیق ہی کی حامل نہیں بلکہ ان کی نظموں میں وہ تمام فنی نزاکتیں ، شعری حسن لطافت وپاکیزگی اور زیبائی ورعنائی بھی ہے جو اعلیٰ درجے کی شاعری کے اجزئے لازمہ سمجھے جاتے ہیں۔حسن فطرت کی مصوری کے اعتبار سے بھی اقبالؔ کی نظمیں بے مثال اور انتہائی حسین ہیں۔