میں نے کل اقبال کے اس شعر کی تفسیرو تشریح کی تھی۔
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
تیرا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
اس پردو اختلافی تشریح بھی آئی، ایک تو بالکل ہی متضاد تھی، وہ سامین پینا زئی کی تھی۔۔ 'اس میں اقبال نے خرد کو صرف خبر سمجھنے والوں کو اندھا بتایا ہے اور ان کو یہ بتا یا گیا ہے کہ اگر وہ خرد کو صرف خبر سمجھتے ہیں تو وہ اپنی نظر کا علاج کرالیں'۔۔۔۔
خیر یہ تشریح تو میری عقل و فہم کو ہی اڑا کر رہ گئی۔۔۔۔۔! یہ دور کی کوڑی کیسے لے آئے۔
البتہ جو زیادہ سنجیدہ اور علمی تفسیر آئی وہ یاسمین بی بی صاحبہ کی تھی، یہ انگلینڈ مین مقیم ، تعلیم یافتہ اور شائد سائیکولوجیسٹ ہیں۔ (ہمیں شکرکرنا چاہئے کہ نوجوان فی میل تعلیم یافتہ نسل آج بھی اقبال کی شاعری اور ہم جیسوں کی اردو شوق سے پڑھ سکتی ہیں، ان کا جواب انگریزی میں تھا، ظاہرہے ان کو اس میں سہلوت ہوگی۔۔۔ آپ دوستوں کی دلچسپی کے لئے۔۔ اور مزید خیال آرائی میں اضافہ کرنے کرنے کے لئے پیش خدمت ہے۔۔۔
یاسمیں صاحبہ:
I feel you interpreted this couplet in a literal sense whereas how I interpret it is:
Cleverness is information gained through external sources
Whereas your remedy is in perception.
Nazar is how you perceive things.
Meaning that unless one had internalised the knowledge through ability of perception, reflection and analyses it’s just a learnt material and won’t sit deep in our consciousness to facilitate any reform within us.
میرا جواب:
آپ نے جس ' نظر ' سے اس شعر کو سمجھا ہے۔۔۔ اور اس کی جو تعبیر کی ہے۔۔ وہ اکیڈیمک سطح کی چیز ہے۔۔۔ یہ موضوع عام شعری بیانیہ کا نہیں رہتا۔۔۔۔ ہاں میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں۔۔ کہ اندورنی طور پر آپ کی چیزوں کو perceive کرنے کی صلاحیت جب تک نہیں بدلتی۔۔ اور چیزوں کو صحیح تناظر میں نہیں دیکھ سکتے۔۔۔ لیکن یاسمین جی۔۔ یہ صلاحیت بھی خرد، وسیع گہرے مطالعہ سے ممکن ہے۔۔ اور پھر یہ عام آدمی کے لئے ممکن نہین ہوسکتا۔۔۔۔ جب شاعری عام آدمی سے مخاطب ہوتی ہے۔۔۔۔ اسکالروں سے نہیں۔۔۔۔۔۔ آپ انفرادی طور پر اس شعر کو ایسے لے سکتی ہیں۔۔ لیکن عام آدمی کے لئے وہی پیغام ہے جو میں نے مطالب دیئے ہیں۔۔۔
یاسمین صاحبہ:
is it fair to put a poet down because a ‘common person’ doesn’t get what being said. Is it poets fault? I wonder why would one reinforce casual misinterpretation of something.
میرا جواب:
یاسمین جی، یہ ضروری ہے۔۔ جب آپ کسی کو 'قومی اور اسلامی شاعربنا کرپیش کریں۔۔۔ اسے یونیورسٹیوں میں نہیں۔۔۔ ابتدائی تعلیم میں پڑھایا جاتا ہو۔۔۔ اور پھر یہ صرف ایک شعر تک محدود نہیں معاملہ۔۔۔ اس انٹی خرد، انٹی ریشنل، انٹی سائنس، انٹی تہذیب جدید۔۔۔۔ اقبال کا کلام بھرا پڑا ہے۔۔۔۔ آپ اس شعر کو آئی سو لیشن میں نہیں لے سکتی۔۔۔۔ ہاں ہزاروں اشعار میں یہ ایک شعر ہوتا۔۔ تو واقعی پھر آپ کی تشریح بنتی تھی۔۔۔ وہ بھی ہائر اکیڈیمک فورم پر۔۔۔۔۔ ایک اعلی شعور کے حامل آڈیئنس میں ۔۔۔۔ نہ کہ گلی محلے کے عام آدمی اور میٹرک کے طلبا کے ساتھ۔۔ وہ بھی پاکستانی میٹرک۔۔ آپ کو اس کے معیار کا پتا ہی ہوگا۔۔۔
یاسمین صاحبہ:
Sahi but poor poet didn’t say to be put on a pedestal. Poet is a person who evolved and went through his own journey, he didn’t ask to be followed and worshipped, I guess he penned what he was going through at the time and our nation decided to make him into a semi-prophet but that shouldn’t take away his humanity. He had a right to be wrong and say things which were not well thought after. He is not a demon nor a prophet. When he is portrayed in either way we are stripping his humanity away and dehumanising him. He has written some extraordinary pieces. Even a devil deserves his due. You can’t totally discredit him posthumously for the hero worshipping of him by his people, is it his fault.
میرا جواب:
میری کتاب ' تصور خدا ' میں اقبال کا تصور خدا ایک باب موجود ہے، یہ جو باتیں آپ نے ابھی ااقبال کے حوالے سے کہیں۔ بالکل یہی باتیں میں اس مضمون میں لکھ چکا ہوں۔۔۔۔ کہ ہم کیسے کسی شخص کو ایک دیوتا بنا دیتے ہیں۔۔ اور پھر اسے پوجنے لگتے ہیں۔۔ لیکن یاد رکھین۔۔ جب کوئی شخص دیوتا بنا دیا جاتا ہے تو اتنا ہی خطرناک ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔ اس کا استعمال اور فائدہ دیوتا بنانے والے پھر اٹھاتے ہیں۔۔ اگر اقبال کو دیوتا نہ بنایا جاتا۔۔ تو آج اسے شیطان بنانے والے بھی نہ آتے۔۔۔۔۔ دیوتا کو گرانے والے بھی پیدا نہ ہوتے۔۔۔۔۔ اب وہ والا اقبال جو ایک انسان تھا، جو ایک بڑا شاعر تھا۔۔۔۔۔ باقی نہیں رہا۔۔۔۔۔۔ اب جو اس کے ساتھ متھ لگائیں ہیں۔۔ وہ اہم ہیں۔۔۔ اور وہ حکمران اشرافیہ ، مولوی جن مقاصد کے لئے اسے استعمال کرتا ہے، اب وہ اہم ہیں۔۔ اب اقبال ایک رحمتہ اللہ علیہ ہوچکے ہیں
ایک بات بڑی اہم ہے۔۔ آپ ماشا اللہ ایک زہین، تہذیب یافتہ شخص ہیں۔۔ فلسفہ کا بنیادی سوال ہمیشہ سے یہ رہا ہے۔۔ کہ ہم نے میٹافزیکل سے فیزکیل کی طرف جانا ہے۔۔ یا فزیکل سے میٹا فزیکل کی طرف۔۔۔۔۔۔۔ تمام مذاہب، روحانی علوم، میٹا فزیکل کو ' اول ' سمجھتے ہیں اور پھر اس مادی دنیا کو ثانوی۔۔۔۔ جب کہ تعلقلات یعنی علم عقلی۔۔۔۔ (سائنس) کا تقاضہ رہا۔۔ کہ فزیکل پہلے ہے۔۔۔۔۔ میٹا فزیکل۔۔۔۔ بعد میں۔۔ یعنی اگر میٹا فزیکل کچھ ہے۔۔۔۔ تو وہ فزیکل کی ہی ایک شکل ہے۔۔۔ اور اسی کی خصوصیت۔۔۔۔ اگر فزکس نہیں ہے ، تو میٹا فزیکل بھی کچھ نہیں ہے۔۔۔ اقبال اس شعر۔۔ اور آپ کی تشریح بھی۔۔۔۔۔۔ ہمیں پہلے ' نظر ' کو اہم قرار دے رہی ہے۔۔۔۔ یہ نظرکہاں سے آتی ہے، آپ کے اندر یہ نظر کہاں سے آئی ہے؟ اگر آپ اتنی تعلیم یافتہ نہ ہوتی۔۔ آپ اتنا ایکسپوزر نہ ہوتا۔۔ آپ نے پہلے سے ہی اتنی زہانت یعنی چیزوں کو گہرائی سے دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت نہ ہوتی۔۔۔۔ تو اس ' نظر ' کا بھی کوئی وجود نہ ہوتا۔۔۔۔۔ چنانچہ سائنسی اپروچ ہے۔۔ کہ ہم پہلے مادے، فزکس کو اولیت قرار دیں گے۔۔ آپ کی تعلیم و تربیت ہوگی پہلے ۔۔ پھر آپ میں ایک گہری نظر بھی پیدا ہوجائے گی۔۔ جو انسان کو مفکر و فلاسفر بناتی ہے۔ ایک بڑا سائنس دان بناتی ہے۔۔ اور ایک اعلی مہذب انسان بناتی ہے۔۔
یاسمیں صاحبہ:
my observation is that formal education gives us status and skills to deal with physical aspects of our existence, ability to transcend from the form and see beyond what is visible comes from introspection, self awareness and that is not necessarily the result of formal learning. There maybe people who are highly successful and scientific but may lack the psychological and emotional intelligence.