اقبال کا تصورِ موت
موت ایک ایسا عام فہم لفظ ہے جس کے تصور سے ہر انسان واقفیت رکھتا ہے۔ دن رات کے مشاہدات موت کے بے شمار مناظر پیش کرتے رہتے ہیں۔ ہم میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اپنے عزا و اقربا کے وداعِ دائمی کے وقت موجود نہ رہاہو۔ حیرت کی بات ہے کہ جو چیز اس قدر ہمہ گیر اور دن رات کے
معمولات میں شامل ہے اس کے تصور سے انسان گھبراہٹ اور پریشانی محسوس کرتاہے۔ ہم یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ موت ناگزیر ہے اور حیاتِ ابدی ممکن نہیں لیکن ہمارا دل و دماغ موت کے تصور سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم موت کو زوالِ زندگی یا اختتامِ زندگی سمجھتے ہیں ۔ ہمارے ذہن و تصور پر یہ خوف چھایا رہتا ہے کہ موت کے بعد ہم لذائذِ دنیا و کوائفِ زندگی سے یک لخت محروم ہوجائیں گے اور موت ہمارے سارے ولولوں ، آرزوؤں اور تمناؤں کا خاتمہ کردے گی۔ ہم زندگی کا سفر طے کرنے کے بعد اپنی آخری منزل پر پہنچ جائیں گے جہاں دائمی جمود اور ابدی تعطل کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔
موت کے تعلق سے مذکورہ بالا خیالات ایک عالمگیر تصور کی صورت انسانی نفسیات میں رچ بس گئے ہیں۔ علامہ اقبال نے اس تصور کے علی الرغم موت کے اسلامی تصور کو اپنی شاعری میں کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اقبال کے نزدیک موت کے یہ معنی نہیں کہ یہ ہمیں ابدی نیند سلادیتی ہے بلکہ اقبال موت کو دوسری بہتر اور لازوال زندگی کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں:
موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی ، صبحِ دوامِ زندگی
اقبال کے نزدیک موت سے وہی لوگ ہراساں و پریشان ہوتے ہیں جن کا ایمان آخرت کے یقین سے محروم و تہی دامن ہوتا ہے۔ جو لوگ آخرت پر یقین رکھتے ہیں موت کو آئندہ زندگی کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں۔موت کے خوف کو علامہ اقبال دنیائے اسلام کا سب سے بڑا فتنہ تسلیم کرتے ہوئے یہ خیال پیش کیا کہ انسان ذاتی منفعت جیسی ادنیٰ ترین چیز کے لیے توہزار ذلت و رسوائی برداشت کرلیتا ہے جبکہ موت جو کہ محض ہوش و حواس کا کچھ عرصہ موقوف ہونے کا نام ہے اس سے ہمہ وقت خائف رہتا ہے۔
ہمچو کافر از اجل ترَسِندہ ئی
سینہ اش فارغ ز قلب زندہ ئی
(کافر کی طرح موت سے ڈرتا ہے۔ اس کے سینے میں زندہ رہنے کا والا دل نہیں ہے۔)
ایک بار سرورکائنات حضور ؐ نے فرمایا کہ:
’’ ایک زمانہ آنے والا ہے جبکہ مسلمان نہایت ذلیل و خوار ہوں گے ۔ ان کی زندگی باعثِ ننگ و عار ہوجائے گی۔‘‘ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ کیا اس وقت مسلمانوں کی تعداد کم ہوجائے گی۔ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ اُس وقت تو ان کی تعداد اب سے بہت زیادہ ہوگی۔ اصحاب نے پھر دریافت کیا یا رسول اللہؐ کیا اُس وقت مسلمانوں میں افلاس آجائے گا۔ آپ ؐ نے فرمایا نہیں وہ اُس وقت کافی خوش حال و دولت مند ہوں گے۔ اصحاب نے استفسار کیا یا اللہ کے رسولؐ پھر ناتوانی و بے چارگی کی کیا وجہ ہوگی۔ حضور ؐ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے بڑی لعنت جو ان پر مسلط ہوچکی ہوگی وہ موت کا غیر معمولی خوف اور دنیا سے انتہائی محبت ہوگی۔‘‘
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔