1905ء تک اقبال نے ہندی وطنی قومیت کا پرچار کیا جس کے مطابق ہندوستان میں رہنے والے تمام لوگ ہندی ہیں اور ہندوستان ہی ان کا وطن ہے۔ اس میں مسلمانوں اور دیگر قوموں میں کوئی تخصیص نہیں تھی۔ اگر یہی پرچار جاری رہتا تو متحدہ ہندی قومیت کے نتیجے میں متحدہ ہندوستان آزاد ہوتا اور پاکستان کبھی نہ بنتا۔ لیکن شاعر مشرق نے یہ تصور ترک کر دیا اور اس کی مخالفت کی اور اسلامی تصور قومیت کے علمبردار بن گئے۔
ایک وقت ایسا آیا کہ روئے زمین پر حب الوطنی قومیت کا تصور عام ہو گیا تھا اس وقت اقبال نے اسلامی قومیت کا نعرہ بلند کیا۔ اس تصور کی روشنی میں مسلمان اسلام کی بنیاد پر ایک قوم ہیں، اور برصغیر کی سطح پر یہ تصور واضح طور پر پاکستان ہے چنانچہ عالم اسلام خاص طور پر اہل پاکستان کے لیے یہ تصور بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ قوم افراد کے مجموعہ کا نام ہے فرد اور قوم دونوں لازم و ملزوم ہیں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ قوم جس چیز کا نام ہے اس کے نصب العین کا تعین ضروری ہے اقبال کے نزدیک یہ نصب العین تعمیری ہونا چاہیے۔ اقبال ایک محب وطن شاعر تھے اور ان کو اپنے وطن سے بے انتہا محبت تھی۔ اقبال کی شاعری میں یورپ جانے سے پہلے وطن کی محبت کے بارے میں بہت سے اشعار ہیں۔ وہ "ترانہ ہندی" میں لکھتے ہیں:
؎ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
کوئی بھی انسان جس جگہ یا وطن میں پیدا ہوتا ہے اسے قدرتی طور پر اس جگہ سے بے پناہ محبت ہوتی ہے، وہ اس وطن، ملک یا دیس کے ذرے ذرے سے محبت کرتا ہے اور اس پر قربان ہونے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ وہ کہتے ہیں کہ!
رفعت ہے جس زمین کی بامِ فلک کا زینا
جنت کی زندگی ہے جس کی فضا میں جینا
میرا وطن یہی ہے، میرا وطن یہی ہے
قومیت کے نظریہ میں جو چند بنیادی باتیں ہیں ان میں ایک تو یہ ہے کہ قوم کی وحدت کا سب سے بڑا وسیلہ یہ ہے کسی وطن یا خطے کی ایسی محبت جس سے سرشار ہو کر انسانوں کا ایک بڑا گروہ اپنے آپ کو ایک قوم کا فرد سمجھنے لگ جاتا ہے،لہذا ایک بڑا ذریعہ وطن ہے اس لیے قومیت کے ساتھ وطنیت کا لفظ بھی لایا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ بعض قوموں کی قومیت کا انحصار اس پر ہے کہ افراد ایک قبائلی رشتے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اور ایک نسل کی وجہ سے ایسی وحدت محسوس کرتے ہیں کہ خود کو قوم کہنے لگتے ہیں۔ بعض دفعہ قومیت کے لیے زبان کی وحدت بھی ایک بڑا ذریعہ ہے۔ وطن، رنگ، نسل، قبیلہ اور زبان یہ عقیدے یورپ میں آج کل بہت غالب ہیں اور ہم بھی ان کے اثرات سے آزاد نہیں مگر اقبال یورپ کے اس شعور قومیت یا وطنیت کے خلاف ہیں۔
اقبال کا یورپ میں 3 سالہ قیام ان کے نظریات میں ردوبدل کی وجہ بنتا ہے۔ اس قیام کے دوران انہوں نے یورپ کو قلبی نگاہ سے دیکھا اور اقبال نے اپنے نقطہ نظر میں کسی حد تک تبدیلی کر دی۔ اب ان کے نزدیک وطن صرف جغرافیائی سرحدوں پر قائم ہونے والا خطہ زمین نہیں بلکہ انہوں نے ملت کا وسیع روحانی نظریہ قائم کیا۔ اقبال اس کی تشریح اس طرح کرتے ہیں!
"میں سماجی اتحاد کے لئے وطن کو ایک بنیاد سمجھتا تھا، اس لیے خاکِ وطن کا ہر ذرہ مجھے دیوتا دکھائی دیتا ہے۔ اس وقت میرے خیالات مادیت کی طرف مائل تھے۔ سوائے وطن کے مجھے انسانوں میں اتحاد کے لیے کوئی دوسرا ذریعہ دکھائی نہیں دیتا تھا، اب میں انسانوں کو صرف ازلی اور ابدی روحانی بنیادوں پر متحد کرنا چاہتا ہوں۔"
یورپ جانے سے پہلے ڈاکٹر صاحب وطن پرستی کے جذبہ سے سرشار تھے لیکن یورپ جا کر انھوں نے مختلف قوموں کی باہمی رشک و رقابت کے مناظر دیکھے تو ان کو معلوم ہوا کہ اس تنگ محدود مادی نظریہ سے قومیت کا بحرپیدا نہیں ہو سکتا بلکہ چھوٹی چھوٹی نہریں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس سے اخوت، محبت اور انسانیت کا خاتمہ ہوجائے گا۔
اقبال یورپ (مغرب) کی چالوں سے خوب واقف ہو چکے تھے، اور ترکی، یمن اور عرب کا نقشہ ان کی آنکھوں کے سامنے باربار ابھر کر آتا، اقبال کے نزدیک مغرب پوری دنیا پر راج کرنا چاہتا تھا کیونکہ وہ سائنس، ٹیکنالوجی اور صنعت کے اعتبار سے ترقی کی کافی منازل طے کر چکا تھا اور پوری دنیا کو قومیت، وطنیت کے تعصب میں جکڑ دینا چاہتا تھا۔ اس کو اقبال نے یوں بیان کیا ہے!
؎ ہوتی ہے ترک کلیسا سے حاکمی آزاد
فرنگیوں کی سیاست ہے دیو بے زنجیر
اقبال اسلامی تصور ملت کو پسند کرتے ہیں ان کے نزدیک اسلام ایک مکمل اور جامع نظامِ حیات پیش کرتا ہے۔ جس میں دین و دنیا اور مذہب و سیاست کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ اقبال کا تصور ملت یہ ہے کہ مسلمان دنیا کے جس جس کونے میں ہیں وہ ایک نبیؐ کے امتی ہونے کے ناطے سے ایک قوم بن جائیں، ایک ملت بن جائیں۔ آپس میں اتحاد و یگانگت پیدا کر لیں، آپس میں سارے معاملات کو طے کر لیں، اس اتحاد کی بدولت مغرب ان پر حکومت نہیں کر سکے گا۔ وہ اپنے تمام تر فیصلے خود آزادانہ طور پر کرنے کے قابل ہو جائیں۔
اقبال اچھی طرح جانتے ہیں کہ مرد مومن کا جغرافیائی حد بندیوں سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ ساری دنیا ہی مومن کا وطن ہوتی ہے۔ اقبال جانتے ہیں کہ اسلام جو رنگ و نسل کے تمام اعتبارات سے بالا تر ہے۔ وہ مسلمانوں کے لئے کوئی مخصوص جغرافیائی حد بندی نہیں کرتا۔ اقبال کا نقطہ نظر بہت واضح ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے، جو عالمگیریت کی تشکیل کرتا ہے اور جغرافیائی حدود سے محدود نہیں کر سکتیں، کیونکہ مسلمان کسی خطہ ارض کا پابند نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ!
؎ چین و عرب ہمارا
ہندو ستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے
سارا جہاں ہمارا
اقبال کا تصور ملت ایک انقلابی نعرہ یا جذباتی فیصلہ نہیں جس کو اقبال کے کلام میں دوامی حیثیت حاصل نہ ہو اور نہ ہی اقبال ملت کے اس تصور کا خالق ہے۔ اقبال سے پہلے بھی ایک مرد مجاہد "جمال الدین افغانی" نے ملت کی ایک عملی شکل سامنے رکھ دی تھی۔ جو مسلمانوں پست سیاسی حالت اور سیاسی غلامی کے خلاف ایک احتجاج تھا، اور یہ خیال تھا کہ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کا شغر سب مسلمان حرم کی پاسبانی کے لئے متحد ہو جائیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے جمال الدین افغانی اس کو عملی جامہ محض اس لئے نہ پہنا سکے کہ ان کے خلاف ایک محاذ ابھر کر سامنے آ گیا تھا۔ اور جب اقبال کے ذہن میں ملت کا تصور ابھرا، اس وقت دنیائے اسلام کی حالت ایک بیمار جسم کی سی تھی۔ جنگِ عظیم اؤل کے بعد مسلم ریاستیں حقیقی معنوں میں آزاد اور خود مختار نہ تھیں۔ترکی کی حالت ایک مڑے ہوئے تاش کے پتے کی سی تھی۔ ایران پر روس اور برطانیہ کی حکومت تھی۔ افریقہ اور مصر پر یورپی اقوام قابض تھیں۔
اس حالت میں اقبال کا تصورملت محض ایک انقلابی نعرہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی تاریخ کا حامل ہے۔ اقبال نے دیکھا کہ اقوام عالم وطن پرستی کے بھیس میں دوسری اقوام پر ظلم کر رہی ہیں تو اقبال وطنیت کے اس تصور سے متنفر ہو گیا۔ اس کے بعد اقبال وطن دوست کی صورت میں سامنے آتے ہیں جبکہ وطن پرستی سے کوسوں دور ہو جاتے ہیں۔
اقبال مغربی طاقتوں کے ارادوں کو بھانپ چکے تھے ان کو پتہ تھا کہ مغربی طاقتیں وطن پرستی یا قوم پرستی کے تصور کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہیں اور جو مقاصد وہ صلیبی جنگوں سے حاصل نہیں کر سکے تھے، وہ مقاصد قوم پرستی سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں بہت سی ایسی قومیں گزری ہیں کہ جن کی مادی شان و شوکت سے دوسری قومیں لرزتی تھیں، لیکن گردش ایام نے ان کو پیس کر رکھ دیا۔ اس کی وجہ دین سے بیزاری اور نسلی اور جغرافیائی طریقہ زندگی کو فوقیت دینا ہے۔ اس لیے کہ وطنیت چاہے رنگ و نسل کی بنیاد پر ہو یا علاقائی حدبندی کی بنیاد پر ہو، انسانوں کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ کرکے ہوس پرست بنا دیتی ہے۔
یہ بات بڑے یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اقبال کی زندگی میں ان کے قیام یورپ کے تین سال بلاشبہ ایک “Turning Point” ثابت ہوئے ہیں۔ انہی تین سالوں میں اقبال نے یورپ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور یورپ کی وطن پرستی، اشتراکیت، تنگ نظری، ہوس، لالچ اور سیاسی چالوں سے واقف ہوئے، اشتراکیت سے اسلامی اشتراکیت کی طرف آئے، وحدۃ الوجود سے وحدۃ الشہود کی طرف آئے، قومیت سے ملت کی طرف آئے، انفرادیت سے اجتماعیت کی طرف آئے۔ لہٰذا اقبال کا سفر یورپ کسی اہمیت سے کم نہیں۔
؎ یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تو رانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
بلا ِ امتیاز