مزاحمت بنیادی طور عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کی اصل مزاحم ہے ،مزاحم کے لغوی معنی خلل ڈالنا ، رخنہ اندازی کرنا ، ٹکرانے ، مدافعت اور راہ کا مسدود کردینا کے ہیں۔ ادب بنیادی طور پر مزاحمت پر ہی مشتمل ہوتا ہے۔اہلِ قلم سماج کے ذمے دار افراد ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت حساس طبع کے مالک بھی ہوتے ہیں۔ وہ معاشرے کی ہر چیز پر عمیق نگاہ رکھے ہوتے ہیں۔کہیں بھی غیر منصفانہ ، جابرانہ یا استحصالی رویہ نظر آئے تو وہ قلم کو جُنبش دے کر ان جبرو استبداد کے عناصر کے خلاف جہاد کرتے ہٰیں۔گویا ایک حساس ، باشعور اور باضمیر فرد کا سماج میں جبر واستحصال کرنے والے عناصر کے خلاف عَلم بغاوت بلند کرنے کا نام ’’مزاحمت‘‘ ہے۔ مزید براں مزاحمتی ادب سے مراد ایسا ادب ہے جو کسی بھی نوعیت کے ظلم و استبداد کے خلاف تخلیق کیا گیا ہو۔
مزاحمت کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی جبر کی ۔جب بھی سماج جبر اور ظلم و بربریت کی آماج گاہ بنا تب باضمیر ادیب اس ظلم و بربریت کے خلاف آواز اٹھاتا رہا۔اردو ادب میں کے ابتدائی دور میں جعفر ؔزٹلی کی شاعری میں مزاحمت کے عناصر ملتے ہیں۔ڈاکٹر سلیم اختر کے بہ موجب جعفرؔ زٹلی اُردو کاپہلا باضابطہ’’ مزاحمتی شاعر ‘‘ہے۔جعفرؔ زٹلی کے بعد مزاحمتی شاعری کے حوالے سے میؔر و سوداؔ ،نظیرؔ،ا کبر ؔ ، حالی ؔ ، جوشؔ ، مجید امجد، حبیب جالبؔ ، فیض احمد فیض ؔ اور احمد فرازؔ کے نام گنوئے جاسکتے ہیں۔لیکن ان تمام ناموں کے علاوہ اقبال ؔ بھی ایک ایسا نام ہے جو بیس ویں صدی کے مزاحمت ، احتجاج اور انقلاب کے لحاظ سے بہت اہم ہے۔
۱۸۵۷ء کی شکست خوردہ قوم میں نئی روح پھونکنے کے لیے حالی ؔ اور اُن کے رفقا نے جو شعری روایت قائم کی اُس میں اقبال کی شاعری ایک کام یاب اور توانا آواز دکھائی دیتی ہے۔ بیس ویں صدی کے آغاز میں نو آبادیاتی نظام اپنے عروج کو چھو رہا تھا ، غلامی کی اس تقسیم نے سماج کو دو حصوں میں منقسم کردیا تھا ، جو طبقہ اس نظام کے خلاف تھا اور اس کےخلاف فکری وعملی جہاد میں مصروف عمل تھا ، اقباؔل کا تعلق بھی اسی طبقے سے ہے۔علامہ ایشائی اور افریقی ممالک پر یورپ کی نو آبادیاتی طاقتوں کے تسلط کے حوالے سے خبردار کرتے ہیں:
؎ دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکان نہیں
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو ، وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
اقباؔل نے مغربی تہذیب اور اس کے فکر عمل کا عمیق نگاؤں سے جائزہ لیا ، انھیں مغرب کی تعمیر میں خرابی نظر آنےلگی تو انھوں نے مغربی تہذیب کے نقائص چن چن کر گنوائے۔ علامہ نے دیکھا کہ کم زور اقوام کو غلام بنا نا اور لوٹنا اس تہذیب کا شیوہ ہے ، ان اقوام کو بہت سی دولت اسی سے حاصل ہوتی ہے۔ اقباؔل نے مغرب اور مغربی تہذیب کو ایک خاص عینک سے دیکھا ،اس بابت بال جبریل میں لکھتے ہیں:
؎ تاک میں مدت سے بیٹھے ہیں یہودی سود خوار
جن کی خوں خوں کے آگے ہیچ ہے زورِ پلنگ
خود بہ خود گرنے کو ہے پکے پھل کی طرح
دیکھیے گرتا ہے آخر کس کی جھولی میں فرنگ
اقباؔل کی شاعری سے مترشح ہوتا ہے کہ علم و فن اور تہذیب و تمدن کے یہ مغربی تیز قمقمے اُن کی آنکھوں کو خیرہ نہ کرسکے۔اُن کے نزدیک یورپی اقوام کا عقلیت پر زور ، مشینی ایجادات پر بے جا افتخار ، کا ئنات کی مادی تعبیرات اور روحانیت سے بے نیازی و بے احترازی ایسی چیزیں ہیںں جو مغربی تمدن کےحق میں سمِ قاتل ثابت ہوں گی۔
؎ تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ ِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا
اقباؔل کو معاشرتی ناانصافیوں کا شدت سے احساس تھا ، انھوں نے اپنی شاعری کے توسط سے اس صورتِ حال کے خلاف بھرپور آواز بلند کی ۔ جب روس میں ۱۹۱۷ء میں اشتراکی انقلاب برپا ہوا،تو اقبال نے سرمایہ داروں کے خلاف ، غریبوں ، مزدوروں اور عام محنت کش طبقوں کی حمایت میں زورِ قلم صر ف کیا۔ اقباؔل معاشی ومعاشرتی انصاف سے وابستگی کے مظہر ہیں۔
؎ اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے درو دیوار ہلا دو
گرماؤ غریبوں کا لہو سوزِ یقین سے
کنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
اقباؔل معاشی و سیاسی جبر کے خلاف تھے۔ اُن کی نظم ’’ لینن خدا کے حضور میں ‘‘ مزاحمت کی مکمل آئینہ دار ہے۔وہ استحصال کے خلاف نبرد آزما رہے۔
؎ یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
اقبال نظام سرمایہ داری سے غیر مطمئن ہیں،وہ اس جہانِ نو کا خالق غریب اور مزدور کو قرار دیتے ہیں۔اقبال ہر اُس تہذیب و تمدن اور نظام کو اکھاڑ دینے کے حمایت کرتے ہیں جو جبر اور استحصال کو جنم دیتا ہے ۔ اُن کی نظم ’’خضر راہ‘‘ اس کی عمدہ مثال ہے۔اقبال ؔ استحصالی عناصر کے خاتمے کے خواہاں ہیں، اسی کی خاطر وہ انقلاب کی بات کرتے ہیں۔ وہ انقلاب جو کھوکھلے اور فرسودہ نظام کو مٹا دے۔ جو کاخ امرا کے لیے سیلاب بن جائے اور مزدور کے دور کی ابتدا کرے۔ اقباؔل بانگ درا میں مزدور کو پیغامِ انقلاب دیتے ہوئے کہتے ہیں:
؎ اُٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
علامہ اقبؔال مزدور کو محتاج اور خواجہ کا دست نگر دیکھنا پسند نہیں کرتے بل کہ اسے اپنی قوت ، صلاحیت اور خودی کے بل بوتے پر رہزنانِ چمن سے انقلاب لینے اور برپا کرنے کا درس دیتے ہیں۔
اقبال ؔ انسانیت کے پرستار اور امن و محبت کے داعی بھی ہیں، انھیں احساس ہے کہ وہ اپنی قوم کو انقلابی نوعیت کا پیغام دے رہے ہیں۔اس ضمن میں عام ذہنی رحجانات اور رویوں کے خلاف تلخ نوائی اور احتجاج سے بھی کام لیتے ہیں۔اقبال کے دور میں قوم پر جمود طاری تھا ،انھوں نے اس قوم کو تحرک بخشا،اور ان کو خبردار کیا کہ اگر تو اپنی دنیا آپ پیدا کرکے زندوں میں شامل نہیں ہوگا تو پھر ہستی سے مٹ جائے گا۔مثال کے طور پر اپنے اہلِ وطن کو ایک جگہ تنبیہ کرتے ہیں:
؎ نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
اقبال ؔ کے نزدیک انسانی رویوں میں انقلاب لانا لازم ہے، اس کے لیے وہ تطہیر قلب کے قائل ہیں، چوں کہ تغیر ارتقا کا ضامن ہے اور ارتقا انسانی حیات کا، لہٰذا اقبالؔ عدم تغیر کو موت سے تعبیر کرتے ہیں:
؎ جس میں نہ ہو انقلاب ، موت ہے وہ زندگی
روح ِ اُمم کی حیات ، کش مکشِ انقلاب
اقبالؔ نے اپنے مزاحمتی کلام کے ذریعے نہ صرف مغربی تہذیب کا پردہ چاک کی بل کہ مسلمانوں میں ملی تشخص کو بھی اجاگر کیا۔ اقبال ؔ اردو شاعری کی روایت میں اس لحاظ سے بھی اہمیت کے حامل ہیں کہ انھوں نے ملی اور سیاسی انقلاب کو منظر عام پر لانے کے ساتھ ساتھ رجائیت کا بھی پیغام دیا ۔ وہ قوم سے نااُمید نہیں بل کہ پُرامید دکھائی دیتے ہیں۔
؎ نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مِٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
اقبالؔ کی مزاحمتی شاعری کے رُجائی پہلوؤں سے اُس عہد کے ادب میں بہت سی نئی راہیں وا ہوئیں اور انھوں نے اپنی مزاحمتی رویے سے حیات کے افروز نغمے تخلیق کیے۔