ہندوستانی شاعر سرفراز بزمی صاحب ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک میں یکساں مشہور و معروف ہیں اس کی خاص وجہ ان کی شاعری پر شاعر مشرق علامہ اقبال کی شاعری کا اثر سمجھا جاتا ہے اور شاید یہ حقیقت بھی ہے حالانکہ حضرت علامہ محمد اقبال اور سرفراز بزمی صاحب کے مابین کوئی موازنہ نہیں بنتا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سرفراز بزمی کی شاعری کے مطالعے سے یہ ضرور محسوس ہوتا ہے کہ ان کی شاعری میں اسلام اور وطن سے بھرپور محبت اور عالمی حالات و واقعات پر بھی ان کی گہری نظر ہے جس کے باعث یہ کہنا پڑتا ہے کہ سرفراز بزمی کی شاعری، سوچ اور فکر کی کڑیاں علامہ اقبال کی شاعری اور سوچ و فکر سے کسی حد تک ضرور ملتی جلتی ہیں۔ سرفراز بزمی نے اس وقت پاکستانی عوام کو چونکا دیا جب ان کا ایک قطعہ اقبال کے نام سے منسوب کر دیا گیا ان کا یہ قطعہ اتنا مشہور ہوا کہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان سمیت کئی اہم شخصیات اور عوام بھی اس قطع کو اقبال کی شاعری سمجھ کر حالات و واقعات اور موقع کی مناسبت سے ایک دوسرے کو سناتے اور شیئر کرتے رہے اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے۔ ایسی صورت میں کچھ علمی اور ادبی شخصیات کو یہ شک ہوا کہ یہ قطعہ اقبال کا نہیں ہے اس لیئے کلیات اقبال کو کنگھالا گیا تو اس میں یہ نہیں ملا تب کچھ حضرات یہ کھوج لگانے میں کامیاب ہوئے کہ یہ قطعہ اقبال کا نہیں بلکہ اس کے خالق ہندوستان کے شاعر سرفراز بزمی صاحب ہیں۔ میں نے گزشتہ دنوں واٹس ایپ کے ذریعے خود سرفراز بزمی صاحب سے یہ سوال کیا کہ یہ سب کیسے ہوا اور اس کی حقیقت کیا ہے ؟ تو سرفراز بزمی صاحب نے جو کچھ بتایا وہ خود ان کی زبانی ملاحظہ فرمائیں۔
" میرے کئی اشعار اور کچھ غزلیں کچھ نادانوں نے علامہ اقبال علیہ الرحمہ سے منسوب کرکے سوشل میڈیا پر ڈال دیا ہے اسے اتنا وائرل کیا گیا کہ گوگل بھی اس میں دھوکہ کھا گیا ہے
اس سلسلے میں میرا ایک قطعہ جو میرے ابتدائی دور کی شاعری میں ایک مشاعرے میں پڑھا گیا تھا خاص طور سے مشہور ہوا یہاں تک کہ پاک سینیٹ میں بھی ایک ممبر نے اسے علامہ اقبال کے نام سے پڑھ دیا تھا وہ قطعہ ہے
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
اولاد بھی املاک بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہء تکبیر بھی فتنہ
حالانکہ 1993 میں شایع ہوتے وقت اس میں ضروری اصلاح کردی گئی تھی"۔
سرفراز بزمی صاحب عالمی حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور مذہب و ملت کے حوالے سے بھی وہ خاصے حساس اور خبردار واقع ہوئے ہیں۔ وہ مسلمانوں کی بے بسی اور مسلمان حکمرانوں کی بے حسی اور نااتفاقی پر بھی کڑھتے نظر آتے ہیں ۔ ترکی کے رہنما طیب اردگان جب ملک کے صدر منتخب ہوئے تھے( اب وہ وزیر اعظم ہیں) تو ان کے دل میں امید کی ایک کرن پیدا ہوئی کہ شاید اب مسلمانوں کی حالت کچھ بہتر ہو لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کو ایک خدشہ بھی لاحق ہوا تو اس صورت میں انہوں نے یہ قطعہ لکھا
ستم کی دھوپ ڈھلی آسماں پہ نکلا چاند
کرن امید کی مغرب میں نظر آئی ہے
خدا کرے یہ کوئی مصطفی کمال نہ ہو
دیار ترک سے ٹھنڈی ہوا تو آئی ہے
صرف یہی نہیں بلکہ وہ فلسطین اور بیت المقدس کی صورت حال سے بھی بہت پریشان نظر آتے ہیں اس کے علاوہ اپنے ملک کے حالات سے بھی پوری طرح باخبر ہیں اور اس پر بھی اپنی شاعری میں اپنے خیالات اور جذبات کا کھل کر اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
ہزار والی ء مکہ ہیں آستینوں میں
کوئی یہود کا بندہ کوئی سبائی ہے
ہزار ابن سبا تخت و تاج والوں میں
سیاہ قلب لباسوں میں پارسائی ہے
چراغ طاق حرم کا خدا محافظ ہو
حرم کا پیر کلیسا سے آشنائی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی تالی کبھی تھالی کبھی جھوٹوں کا باجہ ہے
امیر سلطنت خواجہ سرا ہے یا کہ خواجہ ہے
تری قسمت پہ اے پیارے وطن رونا بہت آیا
جہاں جھانسی کی رانی تھی وہاں جھانسے کا راجہ ہے
سرفراز بزمی صاحب 2 فروری 1969 کو ہندوستان کی ریاست راجستھان کے علاقہ مادھو پور ضلع سوائی کے گاؤں بہتیڑ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سرفراز احمد خان، قلمی نام سرفراز بزمی اور تخلص بزمی ہے ۔ ان کے والد صاحب کا نام پٹیل عبدالستار خان ہے ۔ انہوں نے قرآن مجید حفظ کیا ہوا ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم عربی اور فارسی ملازنہ ڈونگر کے مدرسہ باب العلوم سے حاصل کی۔ 1981میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اعلی تعلیم ندوہ اور جامعہ الفلاح، اعظم گڑھ یو پی( اتر پردیش ) میں حاصل کی عالمیت اور فضیلت کی ماسٹر ڈگری بھی حاصل کی جبکہ ایم اے انگلش اجمیر یونیورسٹی سے کیا۔ وہ 1991 میں محکمہ تعلیم میں مدرس مقرر ہوئے۔
سرفراز بزمی صاحب کو 1980 میں شاعری کا شوق پیدا ہوا جبکہ 1985 میں پہلی غزل کہی۔ شاعری میں ان کا استاد کوئی نہیں ہے۔ ان کا علمی اور ادبی مطالعہ وسیع ہے۔ وہ اردو اور ہندی میں شاعری کرتے ہیں تاہم زیادہ تر شاعری اردو میں ہی ہے۔ ان کی پسندیدہ شعری صنف پابند نظم ہے لیکن وہ غزل اور قطعات میں بھی بھرپور طبع آزمائی کرتے ہیں 10 مارچ 1983 میں دوران تعلیم ہی ان کی شادی ہوئی۔ ماشاءاللہ وہ اس وقت 3 بیٹوں اور 4 بیٹیوں کے باپ ہیں اور وہ سب گریجویٹ ہیں۔ ہندوستان میں اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی اور فروغ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اردو کا مولد وطن شمالی ہند ہے مگر وہاں ایک مخصوص ذہنیت اردو کو مختلف حربوں سے ختم کرنے کے در پے ہے مگر جنوبی ہند اردو زبان و ادب کو تحفظ دینے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور ان شاءاللہ اردو ہمیشہ قائم رہے گی اور اس کا مستقبل روشن ہے۔ آن لائن مشاعروں کے متعلق انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کی عالمی وباء کے باعث آن لائن مشاعروں کے انعقاد میں اضافہ ہوا ہے اور مشاعروں کے فروغ میں موجود حالات میں آن لائن کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے تاہم اس کا معیار پست ہوتا جا رہا ہے جس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آن لائن مشاعروں میں چند ایک کہنہ مشق شعراء ضرور موجود ہوں تا کہ وہ نوآمیز افراد کے فکری اور ادبی معیار کو بلند رکھنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ سرفراز بزمی صاحب کا ایک شعری مجموعہ "نوائے صحرا" کے نام سے شائع ہو چکا ہے جبکہ دوسرا شعری مجموعہ زیر طبع ہے۔ علامہ اقبال، جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، اختر شیرانی اور جگر مراد آبادی ان کے پسندیدہ شعراء میں شامل ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...