اتوار۔ پندرہ اگست ۲۰۲۱ء کو مصطفی آباد جھنگ شہر میں مقیم نوجوان چھاپے گر اقبال چل بسا۔ چودہ اگست ۲۰۲۱ء کو اُس نے اپنے باپ اللہ دتہ چھاپہ گر کو عدم کے کوُچ کے لیے رخصت کیا اور پندرہ اگست ۲۰۲۱ء کو اپنی بزم ِوفا سے کُوچ کرنے والے اپنے محسن اور ضعیف باپ کے پاس پہنچ گیا۔اس انگارۂ خاکی کے اختیار کے بارے میں یہ بات واضح ہے یہاں یقین کافیصلے کابھی گماں کے ساتھ انسلاک کر دیا گیا ہے۔ اقبال چھاپے والے نے اپنے ضعیف اور بیمار باپ کی خدمت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ اللہ دتہ چھاپہ گر دو سال تک بستر تک محدود ہو گیااور اس عرصے اُس کا بیٹااقبال چھاپے والا ہی اُس کی تیمارداری کا ذمہ دار تھا۔اقبال چھاپے والا کی اِن خدمات کے بارے میں مرزا یامین ساحر نے کسی شاعر کا یہ شعر پڑھا تو وہاں موجود سب سوگوار بے اختیار رونے لگے ۔
چلاعدم سے جو ہستی کو بول اُٹھی تقدیر
بلا میں پھنسنے کو کچھ اختیار لیتاجا
زندگی، زمانہ اورکائنات کے اسرار و رموز، نشیب و فراز اور گردشِ ایام کے نقوش پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ جو لیس سیزر نے AUC 708میں رومن کیلنڈرمیں ترمیم کر کے جولین کیلنڈرپیش کیاجو یکم جنوری AUC 709سے نافذا لعمل ہوا۔مغربی ممالک میں اس وقت گریگورین کیلنڈر مروّج و مقبول ہے جسے پوپ گریگوری XIIIنے 1582ء میں متعارف کرایا ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یورپ میں اس کیلنڈر نے جولین کیلنڈر کی جگہ لی ۔یہ دونوں کیلنڈرسال کے آٹھویں مہینے کواگست کے نام سے پکارتے ہیں ۔جب بھی ماہِ اگست کا ذکر ہوتا اقبال چھاپے والا آٹھ آٹھ آنسو روتا۔وہ گلو گیر لہجے میں کہتاتھا:
’’ میں نے قرۃ العین حیدر کا ناول ’’ آگ کا دریا‘‘ پڑھا ہے اور تقسیم ہند کے واقعات کے بارے میں بھی سب تلخ حقائق کی سر گزشت اپنے بزرگوں سے سُن رکھی ہے ۔ سال 1947ء میں آزادی کے موقع پر ظالم و سفاک انگریزریڈکلف کی شقاوت آمیز ناانصافیوں اور تعصب کے باعث جو سرحد ی لکیر کھینچی گئی اُس کے نتیجے میں دو لاکھ بے گناہ انسان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ایک سو کروڑ مسلمان بے گھر ہو کر ارضِ پاکستان میں داخل ہوئے ۔اگست 1973ء میں دریائے چناب میں جو قیامت خیز سیلاب آیا اُس نے جھنگ شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ جھنگ شہر اور اِس کے مضافات کے مکانات کھنڈرات میں بدل گئے ۔ اِن قدرتی آفات کے نتیجے میںرُتیں یو ں بے ثمر ہو گئیں کہ آٹھ عشروں میں بھی اُمیدوں کی فصل ثمر بار نہ ہو سکی ۔ میں نے اپنی زندگی میں اگست کے مہینے کے جو دُکھ دیکھے ہیں اُن کے باعث یہ مہینا میرے لیے ہمیشہ سے پریشان کُن رہا ہے ۔ ‘‘
حیف صد حیف کہ اقبال چھاپے والا کے اندیشہ ہائے دُور دراز درست ثابت ہوئے اور وہ کوہِ ندا کی صدا سُن کر پندرہ اگست 2021ء کو ساتواں درکھول کر ہماری بزمِ وفا سے نکل کر وہاں چلا گیا جہاں سے کوئی کبھی واپس نہیں آتا۔دِل کے ارمان جب آنسوؤں میں بہہ جائیںتو دِ ل و جگرکی مرثیہ خوانی کی گھڑی آ پہنچتی ہے۔ یہ بات کسی کے وہم و گما ن میںبھی نہ تھی کہ چودہ اگست 2021ء کو اپنے ضعیف باپ اللہ دتہ چھاپہ گر کو سپر دِ خاک کرنے کے بعد اُس کانوجوان بیٹا اقبال چھاپے والا بھی اپنے دِل میں کوہسارو ںسے دہ چند گرانی لیے داعیٔ اجل کو لبیک کہے گا اور فتح دریا کے شہر ِ خموشاں میں اپنے باپ کے پہلو میں ردائے خاک اوڑھ کر ابدی نیند سو جائے گا۔ممتاز شاعر محمد طارق غازی نے کارِ جہاں کے ہیچ ہونے اور اِس عالمِ ناپائیدار میں انسان کی بے بسی کا ذکر یوں کیا ہے :
قصۂ مختصر ہے یوں عبد کے اختیار کا
اس کے یقین کا فیصلہ میرے گماں کے ساتھ ہے
جھنگ کی جن کچی آبادیوں میںشرح خواندگی کم ہے اُن میں مصطفیٰ آباد بھی شامل ہے ۔جون اور جولائی کے مہینوں میں یہاں کڑاکے کی دُھوپ پڑتی ہے مگر بارش کم کم ہوتی ہے ۔یہاں ایک مفروضہ ہے کہ اگر شدید گرمی کے خشک موسم میں کوئی ایسا ضعیف آدمی تلاش کیا جائے جو گالیاں دینے کا عاد ی ہو۔اُس ضعیف آدمی پر کوئی کچا رنگ گھول کر گرایا جائے تو فوراً آسمان پر گھنگھور گھٹا چھا جاتی ہے اور مو سلا دھار بارش سے جل تھل ایک ہو جاتاہے ۔بیس برس قبل کی بات ہے مصطفیٰ آباد میں بابا نورا ایک ایسا ضعیف شخص تھاجس کاہر بات پر ڈانٹ ڈپٹ کرنا اور گالیاں دینا معمول تھا۔ جو ن کا مہینا تھا سورج سو ا نیزے پر تھاجان دار گرمی سے تڑپ رہے تھے اور میدان و سبزہ زار دُھوپ میں تپ رہے تھے ۔کچھ شریرنو جوانوں نے اقبال چھاپے والے کو جس کی عمر محض آٹھ سال تھی بہلا پھسلا کر اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ گُھلے ہوئے کچے رنگ کاڈبہ بابے نورے پر اُنڈیل کر بھاگ جائے ۔اقبال چھاپے والانوجوانوں کی چکنی چپڑی باتوں سے فریب کھا گیااورسرگودھا روڈ کے مشرقی کنارے درخت کے سائے میںسوئے ہوئے بابے نورے پر رنگ کااُنڈیل کرسر پر پاؤں رکھ کر بھاگ گیا۔بابا نور ہڑ بڑا کر اُٹھااور گالیاں دیتا ہوا اُس لڑکے کے پیچھے بھاگا جس نے اُس پر رنگ انڈیلا تھا۔اقبال چھاپے والا اپنے گھر میں رکھی کلہوٹی کے پیچھے چُھپ گیا ۔گھر والوں نے موقع کی نزاکت کے باعث گھر کے اندر سے کُنڈی لگالی ۔بابا نور گلی میں کھڑا ا غیظ و غضب کے عالم میں مسلسل گالیاں دے رہا تھا۔اس اثنا میں بابا نورا کا بیٹا شاہوایک لٹھ لے کر وہاں آ پہنچا اور لڑکے کو جان سے مارنے کی دھمکی دی ۔شاہو بھی محصور خاندان کے لوگوں کو گالیاں دے رہاتھا۔دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر کالے بادل چھا گئے اور مو سلا دھار بارش شروع ہو گئی ۔بابا نورا اور اُس کا بیٹا شاہو بارش میں بھیگتے ہوئے اپنے گھر چلے گئے ۔ تین گھنٹے تک اِس زور سے مینہ برساکہ گلیاں پانی سے بھر گئیں ۔بابا نورا اور شاہو اب اس دنیا میں نہیں اقبال چھاپے والا جب بھی بابا نورا ،شاہو اور اس واقعہ کو یاد کرتا تو اُس کی آ نکھیں بھیگ بھییگ جاتیںاور وہ گلو گیر لہجے میں کہتا:
وہ صورتیں الٰہی کِس دیس بستیاں ہیں
اَب دیکھنے کو جِن کے آ نکھیں ترستیاں ہیں
قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں حرص و ہوس کے مارے لوگ تو اپنی خست وخجالت اور جہالت کے باعث ذلیل و خوار ہوتے ہیں ۔اس دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی پائے جاتے ہیں جوبے لوث محبت ،ایثار اور وفاکو شعار بناتے ہیں اور زندگی بھر اس عہد کی تکمیل کے لیے سعی کرتے ہیں۔ایسے لوگ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس دنیا میں برادرانِ یوسف ؑکی کمی نہیں ۔ہر مر حلۂ زیست پرآستین کے سانپ اور بروٹس قماش کے محسن کُش در پئے پندار نظر آتے ہیں ۔ بے لوث محبت کو یک طرفہ اور ایک ہاتھ کی تالی قرار دینے والا اقبال چھاپے والاوفا کر کے بھی تنہا رہ گیا۔
اللہ دتہ چھاپہ گر اور اُس کی اہلیہ نے اپنے نوجوان بیٹے اقبال چھاپے والاکے لیے موزوں ترین رشتہ تلاش کیا ۔اقبال چھاپے والا کی شادی اُس کی خالہ کی چندے آفتاب چندے ماہتاب بیٹی سے کی گئی ۔اقبال چھاپے والا کی شادی پر پورے خاندان میں بہت خوشیاں منائی گئیں ۔شادی کے موقع پر گدا حسین سازندہ گلے میں ہار مونیم لٹکائے اپنے طبلہ نواز ،سازندوں اور خواجہ سراساتھیوں کو لے کر پہنچاجنھوں نے میاں والی کے شاعر محمد محمود احمد کایہ گیت گا کر سماں باندھ دیا:
چھیل چھبیلا سجدا اے تیکوں پُھلاں والا چولا
سوسالاں وِچ ہک جمدا اے تیں جیہا سوہنا ڈھولا
میڈا رانجھنا !او میڈا رانجھنا !او میڈا رانجھنا،او میڈا رانجھنا،او میڈا رانجھنا !
پُھلا ں ورگی وِینی میڈی ،وِینی دے وِچ ونگاں
پیار بناون والے توں میں تیڈیاں خیراں منگاں
میڈا رانجھنا !او میڈا رانجھنا !او میڈا رانجھنا،او میڈا رانجھنا،او میڈا رانجھنا !
تھک گیا ہوسیں جنگلاں دے وچ کر کر کے مزدوری
آ تیرے کان کُٹ رکھی ہے سچے گھے دی چُوری
میڈا رانجھنا !او میڈا رانجھنا !او میڈا رانجھنا،او میڈا رانجھنا،او میڈا رانجھنا !
کچے بانس دی مُرلی تیڈی ،مُرلی دے نال گُھنگرو
کئیں پاسے ہُن ونج نانہہ سکدی تھی گیا اے تیڈا جادو
میڈا رانجھنا !او میڈا رانجھنا !او میڈا رانجھنا،او میڈا رانجھنا،او میڈا رانجھنا !
اقبال چھاپے والا کی وفا شعار بیوی کی بیوی ایک سگھڑ اور سلیقہ شعار گھریلو خاتون تھی اوراس نے اپنے سسر ،ساس ،شوہر اور اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر بھر پور توجہ دی ۔اِس ذہین خاتون نے پوری لگن سے گھر کے کام کیے اور گھر کو جنت کا نمونہ بنا دیا۔ عملی زندگی میںاقبال چھاپے والا کا مشاہدہ اور تجربہ بہت وسیع تھا اوراُس نے اپنے علم دوست احباب سے معتبر ربط کے وسیلے سے کئی سبق آموز واقعات سُن رکھے تھے ۔ خاص طور پر مشرقی خواتین کے مسائل کے بارے میں مثبت شعور و آگہی رکھتاتھا۔ وہ اپنے معتمدکو بتاتا کہ اذیت ،عقوبت اور مشقت کی بھیانک رات بالآخر ختم ہو جاتی ہے اس کے بعد مسرت و شادمانی کی نقیب صبح درخشاں طلوع ہوتی ہے۔ اپنے شوہر کی خاطر مشرقی عورت آج بھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتی۔سجاد نے اُسے بتایا کہ اجتماعی لا شعور کی اساس پر فکر و خیال کی انجمن آراستہ کرنے کے سلسلے میں ا ردو ادب میں ممتاز شیریں نے جو طرز ِفغا ںاپنائی وہی بعد میںطرزِ ادا قرار پائی۔ تانیثیت کے مسائل اوراُن کا حل اس کا خاص موضوع رہا ۔ایک موقع پر اقبال کی موجودگی میں سجادحسین نے اپنے ساتھیوں کو بتایا :
’’ ممتاز شیریں نے اپنے ایک افسانے’’ میگھ ملھار ‘‘ میں اجتماعی لا شعور کو رو بہ عمل لانے کی سعی کی ہے ۔ معاشرتی زندگی میں مشرقی خواتین کی اپنے شوہر کے ساتھ قلبی وابستگی کو ممتاز شیریں نے اساطیر اور یونانی دیو مالا کے بر محل استعمال سے انتہائی موثر انداز میں پیش کیا ہے ۔ اپنے شوہر ایڈ میٹس(Admetus)سے والہانہ محبت کرنے والی آل سسٹس ( Alcestis) سلطنت لولکس ( Lolcus ) کے شہنشاہ پیلیاس ( Pelias) کی سب سے حسین دختر تھی ۔ المیہ نگاریوری پائیڈز ( Euripides)کا تعلق یونانی دیومالا سے ہے ۔ اس نے اپنے عہد کے ڈرامہ نگاروں ایس ہیلس اور سوف کیلس ( Aeschylus and Sophocles) کی طرح المیہ ڈرامہ کو نئے آفاق سے آشنا کیا۔ممتاز شیریں نے ایتھنز سے تعلق رکھنے والے کلاسیک ڈرامہ نگار یوری پائیڈزکے موثر اسلوب کو پیشِ نظر رکھا ہے ۔اس دنیا میںمحبت کے دستوربھی نرالے ہوتے ہیں یہاں ایثار و قربانی کی ایسی مثالیں سامنے آتی ہیںکہ عقل محو تماشائے لبِ بام رہ جاتی ہے ۔ایڈمیٹس اپنی زندگی کو درپیش خطرات سے گلو خلاصی کے لیے باری باری اپنے سب عزیزوں،دوستوں اور رفقا سے ان کی زندگی کی قربانی کی التجا کرتا ہے مگر اس کی فغاں پر کوئی کان نہیں دھرتا۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر ایڈمیٹس اپنے دلِ حزیں پہ جبر کر کے اپنی محبوب اہلیہ آلسسٹس سے یہ تقاضا کرتاہے کہ وہ اپنی زندگی اپنے شوہر کی خاطر قربان کر دے ۔آلسسٹس جانتی تھی کہ بے لوث محبت ،خلوص اور درد مندی کارشتہ ایثار کا تقاضا کرتاہے اس لیے وہ خوشی سے اپنے شوہر کی جان بچانے کے لیے اپنی زندگی کی قربانی دینے پر رضا مند ہو جاتی ہے اور آزاد مرضی سے ا پنی زندگی اجل کے دیوتا کے سپرد کر دیتی ہے ۔ آلسسٹس کے جذبۂ ایثار کو دیکھ کر دیوتاؤں ہیڈز (Hades) اورہیرا کلز( Heracles) کو اس عورت ترس آ گیااور انھوں نے نہ صرف اس عورت کی جان بخشی کر دی بل کہ اس کے شوہر کی زندگی کو درپیش خطرات بھی ٹل گئے ۔ ‘‘
زمانہ طالب علمی میں اقبال چھاپے والا اپنے بزرگوں کی عالمانہ گفتگو بڑی توجہ سے سنتا اور سر دُھنتا تھا۔اگر کوئی بات وہ نہ سمجھ سکتا تو فوراً اُس کا مظلب پُوچھ لیتاتھا۔اقبال چھاپے والایہ بات زور دے کر کہتاکہ مشرقی عورت آج بھی آلسسٹس کا انداز اپنا کر اپنی گھر ،شوہر اور اولاد کے لیے جان جوکھوں میں ڈالتی ہے ۔یہاں تک کہ اپنی اور خاندان کی عزت و ناموس کی حفاظت کے لیے اپنی جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔اپنے معمولات کے بارے میں اقبال چھاپے والا یہ کہا کرتاتھا:
’’ انسان کو اپنی تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے وقت یہ یادرکھنا چاہیے کہ اجزا کی نسبت کل کی اہمیت و افادیت کہیں بڑھ کر ہے ۔اس عالمِ آب وگِل میں موجود زندہ اجسام کی زندگی حرکت و حرارت سے عبارت ہے ۔اس وسیع و عریض کائنات میںہر ذی روح کا وجوداس فعالیت کاآئینہ دارہے جسے وہ کثرت سے بروئے کار لاتاہے ۔ کسی بھی کام میں ستارے چُھو لینے کاراز کسی ایک کام کوپایہ تکمیل تک پہنچانانہیں بل کہ ستاروں پر کمند ڈالنے کامطلب یہ ہے کہ انسانیت کی فلاح کی خاطر صبح و مسا متعدد ایسے کام کیے جائیںجن کے اعجاز سے ہوائے جو ر و ستم کے بگو لے تھم جائیں ۔انسانیت کی فلاح وبہبود کے کام اگر عادت ثانیہ بن جائیںتو اس سے انسانی شخصیت کو استحکام اور کردار کو عظمت نصیب ہوتی ہے ۔ ‘‘
زمانہ طالب علمی ہی سے اقبال چھاپے والا کے اہلِ خانہ کا اس بستی میں مقیم ہر شریف گھرانے سے گہرا ربط تھا۔مگر جن لوگوں کے قول و فعل میں تضاد پایا جاتاتھا اُن سے یہ ہمیشہ دُور ہی رہے ۔ اقبال چھاپے والا کی سدا یہی کوشش رہی کہ جو فروش گندم نما ،آستین کے سانپوں ،برادران ِ یوسف اور فصلی بٹیروںسے کوئی ربط نہ رکھا جائے ۔ اپنی اولاد کو وہ ہمیشہ یہی نصیحت کرتاکہ منافقوں کو اپنے دل کی بات بتانے سے گریز کیا جائے ۔سب لوگ اقبال چھاپے والا کی حق گوئی کو قدرکی نگاہ سے دیکھتے تھے اس بات پر متفق تھے خوش حالی ،مسرت اور شادمانی کے مواقع پر دوستوں کی پرکھ ممکن ہی نہیں۔ایک موقع پر اقبال چھاپے والا نے اپنے احباب کو بتایا:
’’ابتلا و آزمائش اور مصائب و آلام کی گھڑ ی میںکسی دوست ،بہی خواہ اور غم خوار کا طرزِ عمل ہی اس کے خلوص ، دردمندی ،ایثار ،وفا اور غم گساری کی سب سے بڑی کسوٹی ہے ۔زندگی تو وہی ہے جسے ہم بسر کررہے ہیں جہاں تک کالا دھن کمانے والے اہلِ ثروت کی نمود و نمائش کی مظہر پر تعیش زندگیاںہیںان سے بے تعلق رہناہی مصلحت ہے کیونکہ اس قسم کا راحت اور آ سودگی سے معمور ماحول ہماری دسترس میں نہیں۔‘‘
اقبال چھاپے والا اپنے دوستوںکویہ بات سمجھا تا رہتاکہ وہ دو عملی ،منافقت ،ہوس اور حرص سے اپنا دامن آ لودہ نہ ہونے دے ۔اس نے اپنے بچوں پر واضح کر دیا:
’’ معاشرتی زندگی میں درد مندوں اور ضعیفوں سے خلوص ،مروّت اور بے لوث محبت کا رشتہ استوار کرنے والے فیض رساں انسان اللہ کریم کی نعمت ہیں ۔سادیت پسندی کے روگ میں مبتلادرندے جب کسی فیض رساں اور خادم خلق انسان کو اذیت و عقوبت میں مبتلارکھنے کی کوشش کرتے ہیں توان کے قبیح کردارکی وجہ سے یہ حساس لوگ دِل برداشتہ ہوکر گوشہ نشین ہو جاتے ہیں ۔ اس طرح فیض کے اسباب پیدا کرنے کے عمل میں رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے ۔ ‘‘
اقبال چھاپے والاکی نو جوان اہلیہ کا انتقال ہوا تو شہر کی خواتین فرط غم سے نڈھال تھیں ۔اقبال چھاپے والا کے گھر کے آ نگن سے قزاقِ اَجل کی غارت گری سے بستی کی حساس خواتین غرقابِ غم اور حواس باختہ سی ہو گئیں ۔اقبال چھاپے والا کی پڑوسن اور معمر شاعرہ اماں فضلاں نے محمد محمود احمد کے یہ اشعار پڑھ کر اپنے جذبات حزیں کا اظہار کیا تو وہا ںموجو دسوگوار خواتین دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں :
نیلم جیسی آنکھیں تیری، ریشم جیسے بال
سب مٹی کا مال ہے سائیں سب مٹی کا مال
سونے کا کٹ مالا تیرا،چاندی کی پازیب
ہلکے زرد ستاروںوالی گہری نیلی شال
سب مٹی کا مال ہے سائیں سب مٹی کا مال
چاندی جیسے مُکھ پرچمکے گرم لہو کی دُھوپ
مخمل جیسی نرم رگوںمیںمستی کا بھونچال
سب مٹی کا مال ہے سائیں سب مٹی کا مال
تُو بھی فانی، میں بھی فانی، باقی رب کی ذات
روشن صبحیں ،کاجل شامیں،ہفتے ،مہینے ،سال
سب مٹی کامال ہے سائیں سب مٹی کا مال
تیرے رُوپ کے چکر کاٹے اک شاعر کی سوچ
تیرے دروازے پر ڈالے اک مجذوب دھمال
سب مٹی کا مال ہے سائیں سب مٹی کا مال
ملت کالونی جھنگ میں مقیم درویش منش شاعر مرزایامین ساحر کے ساتھ اقبال چھاپے والا کے دیرینہ مراسم تھے۔ چودہ اگست 2021ء کو جب وہ اللہ دتہ چھاپہ گر کی وفات کی خبر سُن کر اقبال چھاپے والا سے ملنے آیا تودونوں دوست ایک دوسرے سے مِل کر رونے لگے ۔ مرزا یامین ساحر اور بہت سے دُوسرے لوگوں نے اقبال چھاپے والا کو گلے لگا کر مشیت ِ ایزدی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کا مشورہ دیا۔مصیبت کی اِس گھڑی میں اقبال چھاپے والا بالکل خاموش رہا اور اُس کی نگاہیں آسمان کی وسعتوں کی جانب مرکوز رہیں ۔ اقبال چھاپے والا نے جب اپنے والد کوسپرد ِ خاک کر دیا تو والد کی قبر کے سامنے کھڑے ہو کر ند ا فاضلی کی نظم ’’ والد کی وفات پر ‘‘ کے یہ اشعار پڑھے ۔مرزا یامین ساحر نے اقبال چھاپے والا کو دلاسا دیااور اُس کی ڈھارس بندھائی ۔یہ اشعار سُن کر وہاں موجود سب الم نصیب جگر فگار سوگواروں کی آ نکھیں ساون کے بادلوں کی طر ح برسنے لگیں:
تمھار ی قبر پر
میںفاتحہ پڑھنے نہیں آیا
مجھے معلوم تھا
تم مر نہیں سکتے
تمھاری موت کی سچی خبر جس نے اُڑائی تھی
وہ جُھوٹا تھا
وہ تم کب تھے
کوئی سُوکھا ہوا پتہ ہوا سے ہِل کے ٹُو ٹا تھا
مری آنکھیں
تمھارے منظروں میں قید ہیں اب تک
میں جو بھی دیکھتا ہوں
سوچتا ہوں
وہ۔۔۔۔وہی ہے
جو تمھاری نیک نامی اور بد نامی کی دنیا تھی
کہیں کچھ بھی نہیں بدلا
تمھارے ہاتھ
میری انگلیوں میں سانس لیتے ہیں
میں لکھنے کے لیے
جب بھی قلم کاغذ اُٹھاتا ہوں
تمھیں بیٹھا ہوا میںاپنی ہی کرسی میں پاتا ہوں
بدن میں میرے جتنا بھی لہو ہے
وہ تمھاری
لغزشوں،ناکامیوں کے ساتھ بہتا ہے
مری آواز میں چھپ کر
تمھارا ذہن رہتا ہے
مری بیماریوں میں تم
مری لا چاریوں میں تم
تمھاری قبر پر جس نے تمھارا نام لکھا ہے
وہ جُھوٹا ہے
تمھاری قبر میں مَیں دفن ہوں
تم مجھ میں زندہ ہو
کبھی فُرصت ملے تو فاتحہ پڑھنے چلے آنا
فتح دریا شہر ِخموشاں میں اللہ دتہ چھاپہ گر کی تدفین کے بعدجب سوگوار کئی اندیشے اپنے دِل میں لیے واپس اپنے اپنے گھروں کی جانب روانہ ہوئے تو اقبال چھاپے والا بوجھل قدموں کے ساتھ چل رہاتھا۔شام کے وقت سب لوگ سوچ رہے تھے کہ ضعیف باپ کی وفات کے صدمے نے نوجوان اقبال چھاپے والا کی روح کو زخم زخم اور دِل کو کِرچی کِرچی کر دیاہے ۔اُسی رات گیارہ بجے اقبال چھاپے والا خالقِ حقیقی سے جا مِلا۔ وہ اپنے احباب کو بتایا کرتاتھا:
’’بڑے شہروں کی فضا طوفانی ہے جب کہ جھنگ کی فضا رومانی ہے ۔جھنگ ایک شہر ِ سدا رنگ ہے جہاں کی خاک اِس قدر کیمیاہے کہ سنگلاخ چٹانوں اور جامد و ساکت پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے ۔میں نے اس شہر ِبے مثال میں بہت احتیاط سے قدم رکھایہاں کے باشندوں نے سدا میری راہ میں آنکھیں بچھائیں اور اُن کے حُسنِ سلوک نے مجھے اپنا گرویدہ بنالیا ۔میں نے اپنی قسمت کے ستارے دیکھے تو یہیں مستقل قیام کا فیصلہ کر لیا۔میرا یہ اعزاز و افتخار ہے کہ میںاس شہر میںرہتاہوں جہاں سلطان باہو ،شاہ جیونہ ،شاہ زندہ ، میاں مراد ،میاں مو چڑا ،سلطان ہاتھی وان اور حافظ بر خوردار جیسی روحانی ہستیوں نے تبلیغ اسلام کا سلسلہ جاری رکھا۔جہاں تک ادبیات کا تعلق ہے اس خطے کے جن ممتاز ادیبوں نے جریدۂ عالم پر اپنا دوام ثبت کر دیا ان میں سید جعفر طاہر ،محمد شیر افضل جعفری ،مجیدامجد ، رفعت سلطان ،احمد تنویر ،کبیر انور جعفری ،معین تابش،شفیع ہمدم ،صفدر سلیم سیال،گدا حسین افضل ،سجاد بخاری ،احمد بخش ناصر ،حاجی محمد ریاض ،دیوان احمد الیاس نصیب،عاشق حسین فائق ،شفیع بلوچ،خادم مگھیانوی
،رام ریاض ،مظہر اختر،بیدل پانی پتی،خضر تمیمی،شیخ ظہیر الدین،فیض محمد خان اور امیر اختر بھٹی شامل ہیں ۔ ‘‘
جھنگ کے گلی کوچوں کو اقبال چھاپے والا اوراقِ مصور قرار دیتا تھا جہاں نظر آنے والی ہر شکل حُسنِ فطرت کی شاہکار تصویر کے مانند دِل میں اُتر جاتی ہے ۔یہاں تک کہ مسافرت میں بھی اس شہر سدا رنگ کے تصور میں بھی یہاں کی دل کش تصویریں ہی ہمہ وقت اُس کے پیشِ نظر رہتیں۔ اپنے ہر خواب میں اُسے اپنے اسی مسکن کی تعبیر نظر آتی تھی ۔ کبھی کبھی وہ احباب کی خیر خبر معلوم کرنے کے لیے لانگ جنوبی ،کوٹ خان ،رجانہ ،چُنڈ ،ساجھووال اور شاکر چلا جاتا مگر جلد ہی واپس جھنگ آجاتا۔اس بار جب وہ سفرِ آخرت پر ر وانہ ہونے والا تھا تو احباب نے اُس کی آخری آرام گاہ کے لیے فتح دریا کے شہر خموشاں کی خاک کو ترجیح دی ۔دو ہزار سال قدیم شہر خموشاں فتح دریاکی خاک نے افلاک کی وسعت رکھنے والے ہفت اختر محنت کش کے جسد ِخاکی کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چُھپا لیا۔