آج – ٨ ؍جولائی؍ ١٩١٣
سابق مشرقی پاکستان کے اردو شعرا میں بہت بلند مقام، اردو کے ممتاز شاعروں میں نمایاں اور عظیم شاعر” اقبالؔ عظیم صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام اقبال عظیم اور اقبالؔ تخلص تھا۔ ۸؍ جولائی ۱۹۱۳ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔آبائی وطن قصبہ انبہٹہ، ضلع سہارن پور تھا۔ آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) کا امتحان ۱۹۴۰ء میں پاس کیا۔ ہندی اور بنگلہ زبان کے امتحانات اعلی معیار سے پاس کیے۔ ملازمت کا آغاز بہ حیثیت مدرس کیا۔ بعد ازاں مشرقی پاکستان چلے گئے۔ وہاں۱۹۵۰ء سے ۱۹۷۰ء تک مختلف سرکاری کالجوں میں پروفیسر اور صدر شعبہ رہے۔ ملازمت کے آخری پانچ برسوں میں صوبائی سکریٹریٹ نے ریسرچ آفیسر کی حیثیت سے ان کی خدمات حاصل کرلیں۔ اپریل ۱۹۷۰ء میں بینائی زائل ہونے کے باعث ڈھاکے سے کراچی اپنے اعزہ کے پاس آگئے۔ اقبالؔ عظیم نے شعروسخن میں صفیؔ لکھنوی اور وحشتؔ کلکتوی سے اصلاح لی۔ یہ وقار عظیمؔ کے چھوٹے بھائی تھے، ۲۲؍ستمبر۲۰۰۰ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں: ’’مشرقی بنگال میں اردو‘‘، ’’قاب قوسین‘‘(نعتیہ کلام)، ’’مضراب‘‘، ’’لب کشا‘‘، مضراب و رباب‘‘، ’’چراغِ آخرِ شب‘‘ (غزلوں کا مجموعہ)۔ ناطقؔ لکھنوی کے کلام کا مجموعہ ’’دیوانِ ناطق‘‘ کے نام سے مرتب کیا۔ سابق مشرقی پاکستان کے اردو شعرا میں ان کا بہت بلند مقام ہے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل ( جلد دوم ) ،محمد شمس الحق،صفحہ:47
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
ممتاز و معروف شاعر اقبالؔ عظیم صاحب کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ تحسین…
وہ جو رزاقِ حقیقی ہے اسی سے مانگو
رزق برحق ہے کہیں اور صدا مت دینا
—
آدمی جان کے کھاتا ہے محبت میں فریب
خود فریبی ہی محبت کا صلہ ہو جیسے
—
اب ہم بھی سوچتے ہیں کہ بازار گرم ہے
اپنا ضمیر بیچ کے دنیا خرید لیں
—
اے اہلِ وفا دادِ جفا کیوں نہیں دیتے
سوئے ہوئے زخموں کو جگا کیوں نہیں دیتے
—
بارہا ان سے نہ ملنے کی قسم کھاتا ہوں میں
اور پھر یہ بات قصداً بھول بھی جاتا ہوں میں
—
بے نیازانہ گزر جائے گزرنے والا
میرے پندار کو اب شوق تماشا بھی نہیں
—
ہم بہت دور نکل آئے ہیں چلتے چلتے
اب ٹھہر جائیں کہیں شام کے ڈھلتے ڈھلتے
—
اس جشنِ چراغاں سے تو بہتر تھے اندھیرے
ان جھوٹے چراغوں کو بجھا کیوں نہیں دیتے
—
جب گھر کی آگ بجھی تو کچھ سامان بچا تھا جلنے سے
سو وہ بھی ان کے ہاتھ لگا جو آگ بجھانے آئے تھے
—
جھک کر سلام کرنے میں کیا حرج ہے مگر
سر اتنا مت جھکاؤ کہ دستار گر پڑے
—
جنوں کو ہوش کہاں اہتمام غارت کا
فساد جو بھی جہاں میں ہوا خرد سے ہوا
—
کچھ ایسے زخم بھی در پردہ ہم نے کھائے ہیں
جو ہم نے اپنے رفیقوں سے بھی چھپائے ہیں
—
پرسشِ حال کی فرصت تمہیں ممکن ہے نہ ہو
پرسشِ حال طبیعت کو گوارا بھی نہیں
—
روشنی مجھ سے گریزاں ہے تو شکوہ بھی نہیں
میرے غم خانے میں کچھ ایسا اندھیرا بھی نہیں
—
قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں
اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے
—
یوں سرِ راہ ملاقات ہوئی ہے اکثر
اس نے دیکھا بھی نہیں ہم نے پکارا بھی نہیں
—
سفر پہ نکلے ہیں ہم پورے اہتمام کے ساتھ
ہم اپنے گھر سے کفن ساتھ لے کے آئے ہیں
—
زمانہ دیکھا ہے ہم نے ہماری قدر کرو
ہم اپنی آنکھوں میں دنیا بسائے بیٹھے ہیں
—
مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا سرِ بزم رات یہ کیا ہوا
مری آنکھ کیسے چھلک گئی مجھے رنج ہے یہ برا ہوا
—
کچھ تلخ حقائق نے معمول بدل ڈالے
اپنوں سے کم آمیزی غیروں سے شناسائی
—
اقبالؔ شکر بھیجو کہ تم دیدہ ور نہیں
دیدہ وروں کو آج کوئی پوچھتا بھی ہے
—
فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر ، ہم بھی بے بس نہیں ، بے سہارا نہیں
خود اُنھی کو پُکاریں گے ہم دُور سے ، راستے میں اگر پاؤں تھک جائیں گے
—
مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ قدم لغزیدہ لغزیدہ
اقبالؔ عظیم
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ