اقبال احمد : عصرِ جدید کا ابنِ خلدون
تحقیق ‛ تحریر اور تلخیص: خالد قیوم تنولی
مطبوعہ : سہ ماہی "عطا" ڈیرہ اسماعیل خان/ شمارہ: 1-2/سال 20111ء
—————
اپنے عہد کے نہایت فعال اور متحرک سامراج مخالف مفکر اقبال احمد جن سے میری شناسائی معروف انگریزی اخبار DAWN میں چھپنے والے ان کے کالموں سے ہوئی۔ پہلی گفتگو فون پر ہوئی اور میں نے ان سے اظہارِ عقیدت کے بعد روبرو ملاقات کی درخواست کی۔ جواب میں ان کی ہنسی کی گونج ۔۔۔اور پھر کہا : "تم یہ تو بخوبی جانتے ہوگے کہ میں عقیدت کی بجائے حقیقت پسندی کا قائل ہوں۔"
9 مئی 19999ء کو جب وہ سرطان کے مہلک مرض میں مبتلا بغرض علاج اسلام آباد کے شفا انٹر نیشنل میں داخل تھے تو میں پہلی اور آخری بار پرویز ہود بھائی کی معیت میں ان سے ملا۔ میں نے خود کو متعارف کرنا چاہا تو مسکرائے اور نرمی سے بولے : "جانتاہوں۔ تم خالد ہو ۔ میرے معتقد اور دیرینہ پرستار۔۔۔ "
احساسِ تشکر کے تحت میں نے ان کے ڈرپ لگے ہاتھ کا بوسہ لے لیا۔ یہ ملاقات صرف پچیس منٹ کے دورانیے کو محیط تھی۔
یہ وہ نادر و نایاب شخص تھے جن کی کرشماتی شخصیت اور رفاقت پر دنیا کے ممتاز مفکر اور رہنما فخر کا اظہار کرتے تھے۔
اقبال احمد 19344ء میں بہار (بھارت)کے ایک گاؤں ارکی میں پیدا ہوئے۔ ابھی نو عمر ہی تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔
ان کے والدین کی سیاسی وابستگی کانگریس سے تھی لیکن بڑے بھائیوں کا عشق مسلم لیگ سے۔ ہندوستان منقسم ہوا تو تیرہ برس کا اقبال احمد بھائیوں کے ہمراہ پاکستان آگیا۔ والدہ نہ آئیں۔
لاہور میں مقیم ہوئے اور رکے ہوئے تعلیمی سلسلے کو بحال کیا۔ فارمین کرسچیئن کالج سے انٹر کے بعد سکالرشپ پر امریکہ کی پرنسٹن یونیورسٹی سے گریجویشن کیا اور مزید تعلیم کا سلسلہ ادھورا چھوڑ کر الجزائر کی تحریک آزادی میں جا شامل ہوئے۔ آغازمیں بن بیلا کے قریبی معاون اور انقلابی کونسل کے رکن رہے۔ قومی محاذ آزادی(NLF) کے سربراہ حبیب بورقیہ اور The Wreched Of The Earth کے مصنف فرانزفینن کے ساتھ ملے تو تحریک زوروں پر تھی۔فرانس سے این ایل ایف کے امن مذاکراتی عمل میں ان کا کردار نہایت اہم رہا۔ ویت نام میں استعماری جارحیت کے بدترین مخالفین میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ اس زمانے میں ان کے قلم کی کاٹ عروج پر تھی۔ اس کا ردعمل یقینی تھا۔ امریکی حکومت نے ایک سازش کے تحت ان کو قریبی ساتھیوں سمیت ایک مقدمے میں الجھا لیا۔ الزام کی نوعیت یہ تھی کہ ہنری کسنجر کو اغوا اور قصر ابیض White Hous کو دھماکے سے اڑانے کی کوشش کی گئی ہے تاہم عدالت نے ان سب کو باعزت بری کردیا۔١٩٦٧ء میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران انہوں نے مغربی ذرائع ابلاغ کے منافقانہ کردار پر کڑی تنقید کی۔
وہ بین القوامیت کے جذبے سے سرشار تھے لہذا ویتنام ‛ فلسطین‛ ایران‛ کیوبا اور چلی کے انقلابی رہنماؤں نے ان کی سیاسی بصیرت سے خاطر خواہ استفادہ کیا۔ وجہ یہ تھی کہ تاریخی و جدید سیاسی تحریکوں اور ان کے نتیجے میں تہذیبی‛ تمدنی‛مذہبی‛ معاشی‛ ثقافتی اور ادبی پہلوؤں پر ان کا علم و تجربہ انسائیکلوپیڈیائی طرز کا تھا۔ اوائل اسلام سےیورپ کی نشات ثانیہ اور نو آبادیاتی و سامراجی نظاموں کی نمود سے عالگیریت کے عہد جدید تک کے تاریخی عوامل پر ان کی نظر بہت گہری تھی مگر رفاقت کو غیر مشروط رکھنے کے قائل تھے۔ اصولی اختلاف کی بدولت بن بیلا‛ فیدل کاسترو اور یاسر عرفات کی دوستی کی بھی پرواہ نہ کی۔ وقت نے ثابت کیا کہ ان کا موقف درست تھا۔
کوسوو اور بوسینیا میں مسیحی فاشسٹوں کی مسلم کشی ہو یا انڈیا میں ہندو شدت پسندوں کے ہاتھوں بابری مسجد کا انہدام یا افغانستان میں طالبان کی وجہ سے تاریخی آثار کی تباہی ۔۔۔ ان کے قلم نے بےدریغ تنقید میں کسی مصلحت کو پیش نظر نہ رکھا۔
پاکستان سے ان کی محبت مثالی تھی حالانکہ ہجرت کے وقت ان کی والدہ اس کے حق میں نہ تھیں۔ اپنےایک خط نما کالم میں لکھتے ہیں :
"میری پرورش تحریک پاکستان کے زمانے میں ہوئی اور ہجرت کا فیصلہ اختیاری تھا لہذا قلبی وابستگی نہ رکھنا مشکل ہے۔"
اب آئیے ان کے فکری کام کی طرف۔ دنیا بھر کے اخبارات اور جرائد میں ان کے بے شمار مضامین بکھرے پڑے ہیں۔ متعدد جامعات اور دانش گاہوں میں سینکڑوں خطبات ان کے علاوہ ہیں۔ اپنی زندگی میں ان کی کوئی تصنیف طبع نہ ہو سکی۔ حسن عابدی ‛ زہرہ احمد اور ضیاء میاں نے بعض اخباری کالموں کو اردو ترجمے کے بعد کتابی صورت میں مجتمع کیا ہے تاہم ان کی ذاتی زندگی ‛ علمی و نظریاتی خدمات‛ انقلابی اسفار اور دیگر بہت سے پہلو ہنوز اوٹ میں ہیں۔
19977ء میں ہمپشائر کالج سے سبکدوش ہوئے تو وداعی دو روزہ جشن ان کے اعزاز میں منعقد ہوا۔ کالج کا وسیع جمنیزیم ان کے ہزاروں مداحوں سے کھچا کھچا بھر گیا۔ نوم چومسکی‛ ہاورڈزن اور ایڈورڈ سعید نے یادگار تقاریر کیں۔اس جشن کی صدارت اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے کی۔ دنیا میں ظلم وجبر اور استحصال کے ستائے ہوئے لوگوں کی حمایت میں اقبال احمد کی آواز سب سے پہلے پہنچتی اور بلند بھی ہوا کرتی تھی۔ اس رحم دل انقلابی کے بہت سے خواب تھے۔ وہ ایک ایسی عالمی دانش گاہ کے متمنی تھے جس میں آرٹ‛ سائنس اور سیاست کے ساتھ ساتھ جدید عصری علوم کی ترسیل و ترویج ہو مگر جن قوتوں کی وہ ساری عمر مخالفت کرتے آئے وہی ان کے خواب کی راہ میں آڑے آئیں۔
پاکستان ان کی نظریاتی پناہ گاہ تھا لہذا اپنی قبر کے لیے اسی کی دھرتی کو منتخب کیا۔
ان کی موت کی خبر سن کر عالمی دانش کی آنکھ پُر نم ہوئی یا نہیں مگر 11 مئی 19999ء کی صبح ان کی تیمارداری پر مامور نرسیں ان کے جسد خاکی پر سفید چادر ڈالتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں۔
*****
استفادہ :
1: Barinton Moor J , Social Origin of Dictatorship & Democracy, Boston Press, 1983
2: John Berger "The Peasant Expreience and Modern World" , New Society, May, 1997. pg. 88
3: Frantz Fenon , " Les Damnes De Latere " Paris , Francois Mospero, 1961
4: Alavi, Hamza :"The State In.Post-colonial Societies", 1974.
5: Daily "Dawn" Karachi, 1995.
6: Iqbal Ahmed/Richerd J Barent :"War Game in Afghanistan" , Newyarker , 1998.
7: Nuber Hospian , Interview , Al-Saghir, Berut . Peace & Class, 1980.
8: Devid Barsemine : An interview, Humal , 1997.
9: Bulleton of concerned Asian Scholors , 1972.
10: اقبال احمد کے منتخب مضامین / تالیف : زہرہ احمد ۔ افتخار احمد اور ضیا میاں / ترجمہ : حسن عابدی / پبلشر مشعل ۔ لاہور۔ 2004ء
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“