انقلاب لانا بہت آسان ہے ۔
میرے کل کہ بلاگ نے مایوسی پھیلا دی ۔ بہت ساری ای میل اور پیغامات آئے ۔ دیکھیں میرا کل کا بلاگ بہت سارے مایوسی والے بلاگز کی طرح حکومتی اداروں پر تنقید تھا ان کو جگانا تھا اور بتانا تھا کہ دنیا کہاں جا رہی ہے اور آپ کن تماشوں میں مصروف ہیں ۔
میرا اپنا یہ نظریہ ہے کہ ہمیں درست سمت کا یا تو علم ہی نہیں ، یا جانا نہیں چاہتے ، یا مافیا اور منافع خوروں نے ہمیں اپنا غلام بنا لیا ہے جسے عاصمہ شیرازی دولے شاہ کا چُوہا کہتی ہے ۔
کل ہم امریکہ میں کچھ فارمز دیکھنے گئے ۔ راستے میں ڈاکٹر فیصل سے گفتگو ہو رہی تھی ۔ وہ پہلے بھی امریکہ آۓ ہیں ۔ انہوں نے کہا آج سے پچاس سال پہلے امریکہ باہر کہ ملکوں سے دودھ لیتا تھا آج بے تحاشہ دودھ ضائع کرتا ہے ۔ کوئ لینے والا نہیں ۔ میں نے فورا ڈاکٹر فیصل کو کہا پاکستان میں ایسا ممکن کیوں نہیں؟ اس نے کہا بہت آسانی سے ممکن ہے ۔ ہمیں اسی طرح پچاس سال پیچھے جانا پڑے گا کہ تب سے اب تک امریکہ کیسے ادھر پہنچا ۔ اور وہ سب کچھ کرنا پڑے گا جو امریکہ نے کیا ۔ میں نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ انہوں نے گنوانا شروع کیا ۔
نمبر ایک ، بریڈز یا نسلیں جانوروں کی بڑھانی ہوں گی ۔ پاکستان میں صرف دو تین بریڈز منگوائ جاتی ہیں ۔ امریکہ میں سینکڑوں نسلوں کی گائے ہیں ۔ برائلر بھی باہر سے آئ تھی۔ سعودیہ جیسے گرم ملکوں میں کئ نسلیں ہیں ۔ موسم کہ ساتھ adapt کروانا بلکل مشکل نہیں ۔
دوسرا انہوں نے فرمایا کہ herd کی زہنیت لانی پڑے گی ۔ ریوڑ والی ۔ ایک دو گائے والوں کو اکٹھا کرنا پڑے گا ۔ بڑے گروہ شراکت داری پر بنانے پڑیں گے تا کہ یہ سارا معاملہ معاشی طور پر viable ہو ۔ ایک دو جانور والا بیچارہ تو چارہ کی رقم نہیں نکال سکتا ۔
تیسرا feed خوراک ، ٹھیک کرنی پڑے گی ۔ ہمارے پاکستان میں اسٹوریج کا نظام ہی نہیں ۔ مکئ خراب ہو جاتی ہے اور بنولہ moisture کی وجہ سے toxic ہو جاتا ہے ۔ امریکہ میں اس سے جلد از جلد moisture نکالا جاتا ہے تاکہ toxic نہ ہو ۔
چوتھا ، سارا نظام میکانائزڈ ہو ۔ ڈاکٹر فیصل نے پاکستان کہ بہت سارے فارمز پر کام کیا ہے ۔ جہانگیر ترین کہ فارم کا تزکرہ ہوا ، جو میکانائزڈ ہے ۔ دودھ دھونے کہ لیے مشینیں اس لیے نہیں استمعال ہوتیں کہ دودھ دھونے میں ، دودھ دھونے والا ڈنڈی نہیں مار سکتا ۔ ہر جگہ فراڈ ، لالچ ، جس وجہ سے پوری دنیا کا نظام آٹو پر جا رہا ہے ۔
پانچواں اور آخری ، ہیومن ریسورس ہے ۔ بہت سارے ویٹنری کہ گریجوایٹ فارغ ہیں یا قبضہ مافیا کہ ساتھ لوگوں کہ گھروں پر قبضہ کر کہ بیٹھے ہیں ۔
hands on training کہ لیے ان کو بڑے بڑے فارمز کہ ساتھ اٹیچ کیا جائے اور وہ ان چار اوپر والی چیزوں یعنی نسل، گروہ ، خوراک اور میکائنائزیشن کی کمپلائینس کر وا سکیں ۔
کتنا آسان ، کتنا زیادہ ممکن ، کمال ہے ۔ شوباز نے تو ایک تماشا رچائے رکھا۔ ڈیری ڈیولپمنٹ کمپنی بنا کر ساتھ ٹیلی نور کو ملا لیا اور دبا کہ لُوٹا ۔
خان صاحب آپ کو کوئ پاکستانی ہزار ڈالر نہیں دے گا جب تک آپ گڈ گورننس نہیں کریں گے ۔ مجھ سے پوچھیں غریب پاکستانی کیسے یہاں خون پسینہ ایک کر کہ ایک ایک ڈالر کما رہے ہیں ۔ یہی جہانزیب خاں پنجاب پلاننگ بورڈ کا چیرمین تھا اسی نے بُلٹ پروف گاڑیاں خریدنے کہ لیے یہ کمپنیاں بنائیں ۔ اس سے پوچھیں ڈیری ڈیولپمنٹ میں کیا کیا ؟ آپ نے اسے چیرمین ایف بی آر لگا دیا اور اوپر سے کہ دیا اور کوئ قابل بندہ ملا ہی نہیں ۔ لگائیں ڈاکٹر اکرام الحق کو اس کی پاکستانی معاشیات اور ٹیکس نظام پر ریسرچ زرا پڑھیں ۔ میری طرح نوکری سے استعفی دیا ۔ ڈیم سے زیادہ تو ہم چھوٹی جھیلیں بنا لیں دریا کہ ارد گرد اور پہاڑی علاقوں میں مسئلہ حل ہو جائے گا ۔ آبادی اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے ، اس کا آپ نے سوچا ہی نہیں ۔ وہاں آپ کا اپنا من گھڑت نظریہ اسلام آڑے آ جاتا ہے جو قادیانی کو لانے میں نہیں آتا ۔
بات نکلی ہے ، پیسہ اکٹھا کرنے کی تو کسی دوست نے پاکستان سے بتایا کہ شاہ محمود قریشی کی ٹیم ایک ارب مانگ رہی ہے بڑے ملک میں سفیر کا اور پچاس کروڑ چھوٹے ملک کہ لیے ۔ میں نے کہا اسی سے ڈیم بن جائے گا ۔ چیف جسٹس بھی یہی کر رہا ہے ۔ سب کو سزاؤں کہ ساتھ ڈیم فنڈ میں پیسہ جمع کروانے کا ۔ جب ان افسروں کی سِرے سے Accountability ہی نہیں ۔ انہوں نے تو پیسہ بنانا ہے موج میلہ کرنا ہے، چار پیسہ اکٹھے کر نے ہیں تو پیسہ لیں ان سے ۔ جہانزیب کی بجائے ٹیکس کولیکشن امریکہ کی ایک کمپنی کو دے دیتے دس گنا زیادہ پیسہ اکٹھا کر دیتی ۔ معاملات بہت آسان ہیں آپ خان صاحب ان کو پیچیدہ کر رہے ہیں ۔ ایک دن اخبار میں اشتہار آتا ہے دوسرے دن تردید ۔ تین ہفتے آپ کو آئے ہو گئے ہیں ، ٹرمپ ۲۰ جنوری ۲۰۱۷ کو صدر بنا تھا اور ۲۱ کو ایگزیکٹو آرڈر کہ زریعے سات ملکوں کہ باشندوں پر امریکہ آنے کی پابندی لگا دی ۔ آج تک واپس نہیں لی ۔ کل ایک رجعت پسند کو سپریم کورٹ کی سیٹ کہ لیے بھی اس نے جتوایا دیا ۔ آپ بنائیں ٹاسک فورسیں ، ایڈوائزری کونسلیں ، ایسے تو ریاستیں چل گئیں پھر ۔
ڈاکٹر فیصل کی کل Trinidad کی فلائیٹ ہے اور وہ درمیان میں امریکہ آئے گا کچھ پاکستان میں فارمز کہ لیے جانور لینے ۔ آپ نے پہلی تقریر میں sprinkler technology کا تزکرہ کیا ، جناب اب
raised bed irrigation کا وقت ہے ۔ آصف شریف نامی شخص پاکستان میں میاں عامر کہ لیے وہی کام کر رہا ہے قصور کہ علاقے میں ۔ چاول بھی لگائیں بغیر پانی فصل میں اکٹھا کیے ۔ آصف میرا دوست بھی ہے امریکہ کا پڑھا ہوا ہے اور تحریک انصاف کا ادنی سا کارکن بھی ۔ Cornell میں لیکچر دینے آتا ہے ۔ میں نے شہباز شریف کی ٹیم سے ملاقات کروائ ۔ آصف نے presentation دی ۔ بات آ کر ختم ہوئ “سانوں کی ملے گا “ خان صاحب اس وقت آپ کہ اردگرد طھی سارے اس سوچ کہ مالک ہیں ، سارے آپ کو کچھ دینے کہ لیے تیار ہیں ملک کو نہیں ۔ ہم تو باہر بیٹھے فکر مند ہی ہو سکتے ہیں اور دعا ہی کر سکتے ہیں ۔
پاکستان پائیندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔