نو جنوری 2007 کو ایک نئی پراڈکٹ کا اعلان ہوا۔ یہ تاریخ کی سب سے منافع بخش پراڈکٹ آئی فون تھی۔ اس نے سمارٹ فون کو مصنوعات میں باقاعدہ ایک الگ کیٹگری بنا دیا۔ لیکن جب آپ اس کو گہرائی میں دیکھتے ہیں تو پھر اس کی داستان زیادہ دلچسپ ہے۔ سٹیو جوبز یا ان کے پارٹنر سٹیو ووزنیاک اور بعد میں آنے والے ٹم کک یا پھر اس کے ڈیزائنر جونی آئیو کو اس کا کریڈٹ دیا جاتا ہے لیکن اس کے پیچھے بہت سے دوسرے کردار ہیں۔
آئی فون کو آئی فون کیا چیز بناتی ہے؟ ہاں، اس کا ڈیزائن، تفصیل پر توجہ وغیرہ اپنی جگہ لیکن اس سب کے پیچھے کچھ اہم اشیا ہیں جو اس کو اور تمام سمارٹ فون کو ممکن کرتی ہیں۔
اکانومسٹ ماریانہ مزاکاٹو نے بارہ اہم ٹیکنالوجی کی فہرست بنائی ہے جو سمارٹ فون کے پیچھے ہیں۔ چھوٹا مائیکروپروسسر، میموری چپ، سولڈ سٹیٹ ہارڈ ڈرائیو، ایل سی ڈی ڈسپلے،لیتھیم بیٹری۔ یہ پانچ ٹیکنالوجیز ہارڈوئیر سے تعلق رکھتی ہیں۔ پھر سافٹ وئیر اور نیٹ ورک ہے۔ چھٹی ٹیکنالوجی فاسٹ فورئیر ٹرانسفورم کے الگورتھم ہیں۔ یہ وہ ریاضی ہے جو آواز، ریڈیو ویوز اور روشنی کا ڈیجیٹل سگنل میں ترجمہ ممکن کرتی ہے جس سے کمپیوٹر کام کر سکے۔ ساتواں انٹرنیٹ ہے۔ اس کے بغیر سمارٹ فون سمارٹ نہیں ہو سکتا۔ آٹھواں HTTP اور HTML ہے جس سے مشکل انٹرنیٹ آسان ورلڈ وائیڈ ویب میں بدل جاتا ہے۔ نواں، موبائل نیٹ ورک ہیں۔ ان کے بغیر سمارٹ فون سمارٹ تو کجا، فون ہی نہیں بنتا۔ دسواں، جی پی ایس۔ گیارہواں، ٹچ سکرین اور بارہواں مصنوعی ذہین ایجنٹ جو آئی فون کے لئے سِری ہے۔
تمام ٹیکنولوجیز آئی فون یا سمارٹ فون کے درکار ہیں۔ لیکن جب ماریانہ مزوکاٹو نے ان کا تجزیہ کر کے ان کی تاریخ دیکھی تو انہیں ایک بڑی چونکا دینے والی چیز ملی۔ آئی فون کی ان تمام ٹیکنالوجیز کے پیچھے حکومتی فنڈنگ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ورلڈ وائیڈ ویب کے پیچھے ٹم برنرز لی ہیں۔ وہ سرن میں کام کرنے والے سافٹ وئیر انجینر تھے جو جینیوا میں پارٹیکل فزکس کی اس لیبارٹری میں کام کر رہے تھے۔ اس کی فنڈنگ یورپی حکومت کی تھی۔ انٹرنیٹ کی ابتدا ARPANET سے ہوئی۔ یہ کمپیوٹر نیٹ ورک تھا جس کو امریکی محکمہ دفاع نے 1960 کی دہائی میں فنڈ کیا تھا۔ جی پی ایس تو مکمل طور پر عسکری ٹیکنالوجی تھی جو سرد جنگ میں بنائی گئی اور سول مقاصد کے لئے اس کو 1980 کی دہائی میں کھولا گیا۔
فاسٹ فورئیر ٹرانسفورم امریکی ریاضی دان جون ٹوکے نے بنایا تھا۔ وہ 1963 میں سائنٹیفک ایڈوائزری کمیٹی میں تھے۔ اور یہ پتا لگانے کی کوشش کر رہے تھے کہ سوویت نیوکلئیر ٹیسٹ کا پتا کیسے لگایا جا سکتا ہے۔
ٹچ سکرین کے موجد ایک انجئینر ای اے جانسن تھے۔ یہ برطانوی ریڈار اسٹیبلشمنٹ کے لئے کام کر رہے تھے۔ اس کو مزید ڈویلپ سرن میں کیا گیا۔ ملٹی ٹچ ٹیکنالوجی کو یونیورسٹی آف ڈیلاوئیر کے محققین نے کمرشلائز کیا اور یہ ایپل کو فروخت ہوئی۔ یونیورسٹی کو اس کام کے لئے فنڈنگ امریکی نیشنل سائنس فاوٗنڈیشن اور سی آئی اے نے کی تھی۔
آئی فون سے سات سال پہلے ڈارپا نے سٹینفورڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو آفس اسسٹنٹ بنانے کا کام سونپا تھا۔ اس پراجیکٹ میں بیس یونیورسٹیوں نے حصہ لیا تھا۔ اس نے آواز کی مدد سے لئے گئے احکام پر عملدرآمد ممکن بنایا تھا۔ سات سال بعد اس کو کمرشلائز کیا گیا۔ 2010 میں اس کمپنی کو ایپل نے خرید لیا۔
ہارڈ ڈرائیو، لیتھیم آئیون بیٹری، ایل سی ڈی اور سیمی کنڈکٹر کی بھی اسی طرح کی کہانی ہے۔ ہر ایک میں سائنسی ذہانت اور پرائیویٹ entrepreneurship کا ملاپ نظر آتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی مختلف حکومتی ایجنسیوں کی طرف سے پھینکا گیا فنڈ بھی۔
ظاہر ہے کہ آئی فون حکومت نے نہیں بنایا۔ سرن لیب میں فیس بک یا گوگل نہیں بنی۔ ان سب کی تخلیق میں اور کمرشل کرنے میں پرائیویٹ اداروں نے ہی کام کیا ہے۔ لیکن حکومت اور ملٹری کی فنڈنگ کے بغیر وہ ٹیکنولوجی میسر نہ ہوتی جس پر یہ کمپنیاں کھڑی ہو سکتیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سٹیو جوبز ایک جینئیس تھے۔ ان کا ایک اور پراجیکٹ پکسار تھا۔ جس نے فلموں کی دنیا کو تبدیل کر دیا۔ ان کی ایک شاہکار فلم کھلونوں کی کہانی (Toy Story) تھی جس نے ڈیجیٹل اینی میشن کو نیا ہی رخ دیا۔
ٹچ سکرین اور انٹرنیٹ اور فاسٹ فورئیر ٹرانسفورم کے بغیر بھی شاید جوبز کوئی زبردست تخلیق کر لیتے۔ لیکن وہ آئی فون کی طرح زلزلہ برپا کر دینے والی ٹیکنالوجی نہ ہوتی۔ شاید یہ ان کی فلم کے کھلونا کرداروں، Woody اور Buzz کی طرح کوئی بہت پیارا سا کھلونا ہوتا۔