عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ )
تحریر: یون باربو (رومانیہ)
مترجم: محمد سلیم الرحمن (لاہور)
یہ ان کی چھٹیوں کا آخری دن تھا۔ ان دونوں کی آپس میں کچھ چخ چخ ہوگئی تھی اور وہ سمجھ رہے تھے کہ اب انھیں ایک دوسرے سے محبت نہیں رہی۔ ریت انھیں سرد اور سمندر اجنبی لگنا چاہیئے تھا، مگر انھوں نے ایسی کوئی بات محسوس نہ کی۔ اگست کے آخر کا وہ دن سمندر کنارے کی سیدھی کھڑی چٹان کے پیچھے کہیں دم توڑ رہا تھا۔ کبھی کبھار سمندری بگلے نندا سے انداز میں پَر مارتے پاس سے گذر جاتے۔ ٹھنڈ بڑھ چلی تھی اور شام کی الکساتی ہوا جاگ رہی تھی۔ گلتی سڑتی پن جھاڑیوں کی بُو پھیلی ہوئی تھی، اور چپٹا سورج، دھند میں لپٹا ہوا، کسی مذبوح مویشی کی طرح قرمزی رنگ کا، یوں دکھائی دے رہا تھا جیسے اڑوس پڑوس کے ماہی گیری کے اڈوں کی چھت پر گر پڑا ہو۔ پتھر کی بنی ہوئی جیٹی سے دھند بھونپوؤں کی آواز آرہی تھی۔ وہ خواہ مخواہ ہُو ہُو کر رہے تھے کیوں کہ کوئی جہاز آتا دکھائی نہ دے رہا تھا اور آسمان گہرا اور صاف تھا۔
"ہم سمندر میں اترنے لگے ہیں؟" عورت نے مرد کی طرف دیکھے بغیر پوچھا۔
"ہاں"، اس نے بے پروائی سے جواب دیا۔
اس برس وہ آخری بار سمندر میں اترنے کو تھے۔
وہ اٹھی اور پیدل چلتی ہوئی سمندر میں جا اتری ننھی ننھی لہریں، جنھیں ہوا نے بس ذرا سا اُبھارا ہی تھا، ان کے پیروں کو تھپتھپا رہی تھیں۔ ان دونوں کے لمبے سائے پانی پر پھیل گئے۔ وہ آگے پیچھے چلے جا رہے تھے۔ مرد نے ربڑ کے بنے ہوئے فلیپر پہن لیے تھے۔ وہ ہمیشہ فلیپر پہن کر تیرا کرتا تھا۔ وہ عورت کے گرد چکر پہ چکر لگا کر اسے آگے بڑھتے دیکھتا رہا۔ ابھی صرف چند برس پہلے ہی کی تو بات تھی کہ عورت میں ڈباؤ پانی میں تیرنے کا حوصلہ پیدا ہوا تھا۔ وہ سمندر سے ڈرتی تھی، لیکن یہ وقت اتنا سہانا تھا کہ کوئی اندیشہ باقی نہ رہا تھا۔ آج وہ ایک دوسرے کی طرف اس طرح نہیں دیکھ رہے تھے جس طرح کل تک دیکھتے رہے تھے۔ وہ کل کی طرح بلند آواز سے بول بول کر ایک دوسرے کا حوصلہ بھی نہیں بڑھا رہے تھے۔ مرد منھ پھلائے، فلیپروں کی مدد سے جلدی جلدی ہاتھ پیر مارتا سمندر میں بڑھتا جارہا تھا۔
پانی مخمل کی طرح ملائم، لبھاتا ہوا اور پراسرار تھا۔ گدلی ریتیلی تہہ تک ہر چیز صاف نظر آرہی تھی۔ چٹان چھوٹی ہوتی گئی۔ تارکول کی بو ابھی تک باقی تھی اور ماہی گیری کے اڈوں کے جال پیچھے رہ گئے تھے۔ مرد، پہلے کی طرح بے پروا، آگے بڑھے جانے پر تلا ہوا، عورت کے گرد اپنے دائروں کے گھیر کو چوڑا کرتا گیا۔ وہ چاق و چوبند محسوس کررہا تھا، اسے سکون مل رہا تھا۔ کئی بار وہ غوطہ مار کر تہہ تک گیا اور مچھلیوں کو ڈرا آیا جو ایسی لگتی تھیں جیسے ڈھیروں نیلے نیلے چاقو میں پھینک دیے گئے ہیں۔ وہ کچھ دیر سیدھا لیٹا پانی پر تیرا کیا بے رنگ آسمان کو تکتا رہا۔ ایک پرندہ قریب سے گذرا اور اس کی ٹھنڈی برف جیسی نیلی آنکھوں نے اسے جس انداز سے دیکھا اس سے خصومت ٹپکتی تھی۔ ہوا تیز ہوچکی تھی کہ اس کا ہر شام یہی معمول تھا۔ مرد نے مڑ کر پیچھے نظر ڈالی۔ عورت آہستہ آرام طلب انداز میں، مستانہ وار، ٹھیک اس کے سامنے تیر رہی تھی۔ ایک لمحے کے لیے مرد کے جی میں آیا کہ اس کا نام لے کر پکارے اور ہنسے: "بس، بہت ہوگئی یہ لغویت۔ ہم بیکار میں ایک دوسرے سے الجھ پڑے!" لیکن اس نے اپنا ارادہ بدل لیا اور پانی پر اس طرح لیٹ گیا جیسے وہ کوئی تکیہ ہو۔ سمندر کا سفید جھاگ کئی بار اس کی کھلی آنکھوں پر سے گذرا۔ سورج ماہی گیری کے اڈوں کے پیچھے ڈوب چکا تھا۔ ریت بھی نیلا ہوگیا تھا جیسے راکھ ہو۔ چونے دار پتھروں والے کنارے پر بہت اوپر کی طرف دو پیلے کیکر اس برس پہلی بار اپنی پتیاں جھاڑ رہے تھے۔ ہوا نرم اور شفاف تھی۔ وہ موت کے بارے میں محبت کے بارے میں سرگوشیاں کررہی تھی۔ کسی تندہ تیز شراب کے مانند تھی۔
تیرتے تیرتے وہ ساحل سے دور ہٹتے جارہے تھے۔ انھیں مطلق تھکن محسوس نہ ہوئی۔ سمندر میں دور نکل جانے پر ایسا لگا جیسے وقت زیادہ دھیرے دھیرے بیت رہا ہو۔ لائٹ ہاؤس اور جیٹی کے پتھر نظر سے اوجھل ہوچکے تھے۔ یہاں سکوت گونجتا معلوم ہوتا تھا۔ کوئی بات سوچنا، کسی چیز کی آرزو کرنا ناممکن تھا۔ عورت کو عنقریب طاری ہونے والے خوف کے اولین آثار کا احساس ہوا۔ مرد اسے دکھائی تو دے رہا تھا مگر بہت فاصلے پر معلوم ہوتا تھا۔ "اگر میرے بازو اَم گئے تو؟" وہ گھبرا کر حیران سی ہوئی۔" وہ ام کیوں جائیں، وہ بھی آج کے دن؟ تم تو پہلے بھی سمندر میں اتنی دور تک آچکی ہو۔" وہ اب اپنی بات کا خود بھی جواب نہیں دے رہی تھی۔ اسے مرد پر تاؤ آرہا تھا کہ وہ اتنا ہٹیلا کیوں ہے، اور کچھ دیر اس کی طرف دیکھا تک نہیں۔
ہوا اور بپھر گئی تھی۔ مغرب میں آسمان سرخ ہوچکا تھا۔ وہاں، چٹانوں کے اوپر، ایسا لگتا تھا ہر چیز کو آگ لگی ہوئی ہے۔ سمندر پر تنے آسمان میں ابھی ہاتھی دانت کے رنگ کی چند ایک بدلیاں باقی تھیں، جیسے کسی لحیم شحیم مہافیل کی پسلیاں۔ پانی ٹھنڈا تھا اور دھات تھا اور دھات کی طرح سخت معلوم ہورہا تھا۔ ایک زیرِ آپ رہ قریب ہی چل رہی تھی۔
"ہماری شاید ڈولفنوں سے مڈھ بھیڑ ہوجائے۔" مرد نے سوچا۔ "پھر وہ ڈر جائے گی اور مدد کے لیے مجھے پکارے گی۔" لیکن کوئی ڈولفن ان کو نہ ملی۔ مچھلیوں کا ایک غول کا غول مرد کے پاس سے گذرا. وہ ایسا دکھائی دے رہا تھا جیسے موجوں کی سفید کلغیوں تلے رو پہلا سمندری گارا بہا جارہا ہو۔ مچھلیاں، کہ ہزاروں تھیں، عجیب انداز سے سائیں سائیں کرتی، لمبی لمبی، پھرتیلی جبشیوں کے ساتھ آگے بڑھتی گئیں۔
بیچ اب صرف ایک پتلی، پیلی دھجی نظر آرہی تھی۔ پانی بھی اب دیکھنے میں سیبز نہیں تھا: ڈھلے لوہے جیسا دکھائی دے رہا تھا: تکیلف دہ اور بوجھل بن گیا تھا۔ "کیا ہم بہت دور نہیں نکل آئے؟" مرد نے حیران ہوکر سوچا اور پانی سے اچھل کر باہر آنے کے بعد غوطہ لگایا۔ لہریں اب قدرے بڑی ہوگئی تھیں۔ اور اس کی نظر عورت پر جاپڑی۔ وہ خاصی قریب معلوم ہورہی تھی۔ اس کا دل چاہا کہ بازو سر سے اوپر لے جاکر عورت کو اشارہ کرے لیکن ایک بار باہر آنے کے بعد لگایا۔ لہریں اب قدرے بڑی ہوگئی تھیں۔ اور اس کی نظر عورت پر جاپڑی۔ وہ خاصی قریب معلوم ہورہی تھیں۔ اس کا دل چاہا کہ بازو سر سے اوپر لے جاکر عورت کو اشارہ کرے لیکن ایک بار پھر اس ارادہ بدل لیا۔ اس نے عورت کے گرد اور بھی بڑا چکر کاٹا۔ ربڑ کے فلیپروں کے سبب اس کے لیے تیراکی آسان اور کہیں زیادہ پرلطف ہوگئی تھی۔ وہ بڑی پھرتی سے لہروں کو چیرتا آگے بڑھتا گیا، اور اردگرد دیکھنا چھوڑدیا۔ کھلے سمندر کا پانی ساحل کے قریب کے پانی سے مختلف ہوتا ہے۔ وہ دفعتاً اپنا سارا رنگ کھوبیٹھتا ہے۔ بے کراں نظر آتا ہے۔ اور اس میں کوئی بو نہیں ہوتی۔ وہ اس طرح جی اٹھتا ہے جیسے کوئی زندہ چیز ہو۔ گرم محسوس ہوتا ہے اور بولنے لگتا ہے۔
لہریں بڑی ہوتی جارہی تھیں اور چاروں طرف سے امڈتی آتی تھیں۔ وہ مکار تھیں۔ صرف سمندر ہی اتنا مکار ہوسکتا ہے۔ جھاگ مرد کے ماتھے پر، بالوں پر، پھیل پھیل گیا جھاگ اس کے نتھنوں اور منھ میں چلا گیا۔ بعض اوقات پانی آکر یوں لگتا جیسے باڑھ دار تلوار ہو۔ پانی نے اسے تکلیف پہنچائی اور وہ جلن محسوس کرنے لگا۔
عورت کو یوں لگا جیسے وہ برابر ڈوبتی ہی چلی جارہی ہو۔ لیکن یہ کیفیت اسے ہمیشہ بھلی لگتی تھی۔ اس کا جی یونہی ذرا سا متلایا تو وہ مرد کی تلاش میں نظر دوڑانے پر مجبور ہوگئی۔ اب وہ اسے دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ سطحِ آب سے اوپر اٹھ آئی مگر اسے نہ دیکھ پائی۔ اسے یہ تو کبھی پتا نہ چلا تھا کہ وہ ہے کہاں کیوں کہ وہ سارے وقت اس کا طواف کرتا رہا تھا۔ وہ فکر مند نہیں ہوئی۔ وہ یقیناً کہیں آس پاس ہی ہوگا۔ ذرا دیر میں وہ اس کے سامنے سے گزرے گا۔ وہ تیرتی ہوئی آگے بڑھتی گئی اور خوش تھی کہ اسے تھکن محسوس نہیں ہورہی۔ ایک وقت تھا جب وہ کھلے سمندر سے ڈرتی تھی لیکن جب ایک بار اس ڈر پر فتح پالی جائے تو کھلا سمندر دوست بن جاتا ہے اور اس پر پیار آنے لگتا ہے۔
آسمان نے سمندر کا رنگ چرالیا تھا۔ وہ سبزی مائل اور گہرا دکھائی دے رہا تھا۔ آسمان تلے پھوکی لچھیوں جیسی بدلیاں اڑی جارہی تھیں اور ساحل نظر سے اوجھل ہوچکا تھا۔ وہ آسمان اور پانی کے بیچوں بیچ تھے۔ اس طرح سیدھے پڑے پڑے تعجب اس پہ آتا ہے کہ آدمی اس بے قرار سطح پر سے کہیں اور جاکر گرتا ہی نہیں۔ ساحل کے قریب کی لہروں سے کچے تربوزوں کی سی باس آتی تھی۔ لیکن یہاں یہ لہریں ذائقے اور گرماہٹ دونوں سے محروم ہوچکی تھیں۔
مرد نے پانی سے اٹھ کر سمندر پر نظر ڈالی۔ پانی میں کوئی بھی نہیں تھا۔
اس نے دوبارہ غوطہ مارا۔ کانوں پر گہرے پانی کا سُن کردینے والا دباؤ محسوس کیا۔ وہ تڑپ کر پانی سے باہر آیا اور دوبارہ پانی میں جاگرنے سے پہلے پل بھر کے لیے چاروں طرف دیکھا۔ وہاں سمندر میں کوئی بھی نہیں تھا۔
وہ پکارنے لگی۔
مرد نے ایک بار غوطہ لگایا، پھر سُونے سمندر پر نگاہ ڈالی اور پکارنے لگا۔
سمندر یوں لگتا تھا جیسے ابل رہا ہو۔ یہاں اگست کے اواخر کی سہانی روشنی میں سمندر اکیلا اور بلوان تھا اور ٹھس آواز میں بڑ بڑا رہا تھا۔ خاموشی کافور ہوچکی تھی۔ سمندر گرجا۔ مرد نے دائرے کو چھوٹا کرتے ہوئے تیز تیز تیرنا شروع کردیا۔ "وہ یقیناً یہیں کہیں ہوگی، یہ طے ہے۔" زور مارنے کی وجہ سے اس کی بانہیں دُکھنے لگیں۔ اس نے آواز دی۔ کوئی جواب نہیں۔
عورت نے ایک بار پھر اوپر اٹھ کر سمندر پر نگاہ ڈالی۔ وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ اس نے زور سے آواز دی۔ ایک سمندری بگلا اسے سرد مہر، نیلی، خشم آلود، آنکھوں سے دیکھتا ہوا گذرا۔ وہ اکیلی تھی۔ وہ چلائی۔ کوئی جواب نہیں۔ "میں کہاں چلی جارہی ہوں؟" وہ اچانک سہم کر حیران ہوئی۔ "مجھے ساحل کا رخ کرنا چاہیے۔"
اور وہ ساحل کی طرف مڑ گئی۔ لیکن خوف زدہ تھی۔ "فرض کرو وہ ڈوب گیا ہے؟"
"وہ ڈوب نہیں سکتا! وہ بہت اچھا تیراک ہے!"
"کہیں وہ؟"
"نہیں، یہ ہوہی نہیں سکتا!"
اس نے پھر سمندر سے ابھر کر آواز دی۔ کوئی جواب نہیں۔
مرد نے غوطہ مارا اور خود کو پانی پر چت ہوجانے دیا۔ اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ سکوت میں ڈوبا سمندر سیاہ اور سفاک معلوم ہورہا تھا یک بیک ہوا تھم گئی اور اردو گرد موجیں، کسی اترے لبادے کی طرح، بے جان ہوکر، ڈھیر ہوگئیں۔ اس نے آواز دی۔ کوئی جواب نہیں۔
لائٹ ہاؤس اور کنارہ اب نظر نہیں آرہے تھے۔ "مجھے واپس جانا چاہیے۔" اس نے خود سے کہا۔
"اور جو ڈوب گئی ہو؟"
"اب وہ پانی سے ڈر نہ گئی ہو؟"
"اب اسے پانی سے ڈر کہاں لگتا ہے۔"
مرد نے دوبارہ ابھر کر آواز دی۔ کوئی جواب نہیں
پھر وہ رونے اور زور زور سے جیچخنے لگا، جیسے کسی سے باتیں کررہا ہو۔
"تم نے اسے اکیلی کیوں چھوڑ دیا؟ تم نے اسے اکیلی کیوں چھوڑ دیا؟"
اس نے چاروں طرف دیکھا۔ سمندر میں کوئی بھی نہیں تھا۔ سمندر اب پرسکون تھا۔ وہ اسفالٹ جیسا تھا اور بے اعتنائی سے غوں غاں کررہا تھا۔
"اگر اسے میری مدد کی ضرورت پڑی اور میں اس کے پاس نہ ہوا تو؟ میں کس منھ سے واپس جاسکتا ہوں؟"
اسے یوں لگا جیسے عورت کی آواز سنائی دی اور وہ دوبارہ پانی سے ابھرا آیا۔ اسے کوئی دکھائی نہ دیا۔
عورت روتی ہوئی، گرتی پڑتی، ساحل کی طرف بڑھتی رہی۔ اس نے پانی سے سر باہر نکال کر، گلے کا پورا زور لگا کر، آواز دی، مگر کسی نے اسے جواب نہ دیا۔ "اگر وہ ڈوب گیا ہے تو میں لوٹ آؤں گی،" اس نے فیصلہ کیا۔
"شاید وہ مجھے ڈرانا چاہتا تھا۔۔۔ فرض کرو وہ ساحل پر مجھے نہیں ملتا؟" خوف نے اس کا گلا جکڑ لیا اور اسے کہیں جلدی تھکا مارا۔
مرد نے فیصلہ کیا کہ اگر وہ ساحل پر نہ ملتی تو وہ لوٹ آئے گا۔
اور وہ رات ہونے تک روتے ہوئے اور ایک دوسرے کو آوازیں دیتے ہوئے تیرتے رہے۔ پھر، تھکن سے چُور، وہ بیچ پر ایک دوسرے سے آملے، جہاں اب اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔
Written by:
Ion Barbu (18 March 1895 –11 August 1961) was a Romanian mathematician and poet.