عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ کہ جہاں کہانی میں مافوق الفطرت عناصر نظر آجائیں، وہ طلسمی حقیقت نگاری ہوتی ہے۔۔ یوں تو انتظار حسین کے ہاں جس کثرت سے ماروائے حقیقت اشیا، واقعات اور عوامل پائے جاتے ہیں، اس لحاظ سے تو ان کے نصف سے زیادہ افسانے حقیقت نگار افسانے ہی کہلائیں گئے اور ایک دفتر اس موضوع پر الگ سے مرتب کرنا پڑے گا لیکن طلسمی حقیقت نگاری محض ماروائے حقیقت عناصر کے استعمال کا نام نہیں ہے اور نہ ہی دو چار مافوق الفطرت واقعات پیش آنے سے کوئی کہانی طلسمی حقیقت نگاری قرار پاتی ہے۔۔ اس لئے ہمیں پہلے یہ دیکھنا پڑے گا کہ طلسمی حقیقت نگاری کی نوعیت کیا ہے اور کون سی چیزیں ایسی ہیں جو طلسمی حقیقت نگاری کے مشابہہ ہیں لیکن درحقیقت طلسمی حقیقت نگاری نہیں ہوتیں۔۔۔ سب سے پہلے ہم طلسمی حقیقت نگاری کی تعریف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔
یہ بات واضح ہے کہ طلسمی حقیقت نگاری میں جادو اور حقیقت کا امتزاج ہوتا ہے مگر اسی وضاحت نے ہمارے ہاں اس تصور کی حقیقت کو مسخ کیا ہے۔۔ اردو دنیا میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جہاں کسی کہانی میں جادوئی عناصر آگئے، جن ، بھوت، دور دراز انوکھی سرزمینں، مافوق الفطرت کردار، اور ناقابل فہم واقعات آگئے تو یہ طلسمی حقیقت نگاری کی تکنیک کہلائے گی اور اسی بنیاد ؟ پر، طلسم ہوش ربا، بوستان خیال، الف لیلہ و لیلہ، آرائش محفل، بیتال پچیسی، باغ و بہار، اور فسانہ عجائب، جیسی حقیقت سے کوسوں دور رہنے والی داستانوں کو بھی طلسمی حقیقت نگاری کے شہکار قرار دیا جاتا ہے اور کئی ناقدین تو برصغیر پاک و ہند کی کم مائیگی کا احساس کم کرنے کے لئے یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ طلسمی حقیقت نگاری تو ہماری داستانوں میں بکھری اور مزید برآں طلسمی حقیقت نگاری ہمارے ہاں لاطینی امریکہ سے بھی پہلے موجود تھی وغیرہ وغیرہ۔۔۔
طلسمی حقیقت نگاری کا نام ہی بتاتا ہے کہ یہ حقیقت نگاری کی ایک قسم ہے اور اس کی بنیاد ہی اٹھارویں ، انیسویں صدی کی حقیقت نگاری ہی ہے جہاں ماحول، معاشرہ اور انسان کی حقیقت سے قریب ترین تصویر کشی کی جاتی تھی۔۔ کردار، واقعات، ماحول، مناظر جس طرح ہوتے ہیں، اسی طرح پیش کئے جاتے ہیں تاکہ قاری کو کوئی چیز حقیقت سے بعید نظر نہ آئے۔۔ یوں اگر طلسمی حقیقت نگاری کی حتمی تعریف کرنے کی کوشش کی جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ :
طلسمی حقیقت نگاری بیانیہ کی ایک ایسی تکنیک ہے، جس کے ذریعے مختلف مافوق الفطرت، ماروائے عقل، ناقابلِ یقین واقعات، کو حقیقت کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔۔۔ یہ ملاپ فینٹسی کی طرح نہیں ہوتا بلکہ یہاں یہ تمام چیزیں جانی پہچانی اور مانی ہوئی دنیا کا حصہ بن کر آتی ہیں، ان کی پیش کش کا مقصد تحیر، خوف، سنسنی، دلچسپی، یا دہشت پیدا کرنا نہیں ہوتا بلکہ یہ اسی طرح افسانوی عمل کا ناگزیر حصہ ہوتی ہیں، جس طرح باقی تمام حقیقت پسندانہ مظاہر افسانے، ناول میں شامل ہوتے ہیں۔۔۔ اس تکنیک میں یہ تمام واقعات افسانے، ناول کے اندر سبھی کرداروں کے لئے ایک روز مرہ حقیقت کی مانند قابل قبول ہوتے ہیں اور کسی طرف سے ان کے وقوع پر کوئی حیرت آمیز ردعمل ظاہر نہیں ہوتا۔۔۔ افسانے ، ناول میں تمام ذی ہوش لوگ ان کو برتتے ہیں اور انہیں معمول کا حصہ مانتے ہیں۔۔ بیانیے کے اندر واقعات کی سائنس توضیح یا عقلی تشریح کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی اور پورے متن میں یہ واقعات اسی طرح ماروائے عقل رہتے ہیں اور اس کے باوصف مصنف ، تمام کرداروں اور قاری سب کے لئے قابلِ قبول ہوتے ہیں۔۔۔!!
•••••
حوالہ : ادبیات، خصوصی شمارہ انتظار حسین نمبر
انتخاب و ٹائپنگ : احمد بلال