آٹھ فروری دو ہزار چوبیس کو اگلے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی ملک بھر میں سیاسی سرگرمیاں تیز ہونا شروع ہو چکی ہیں۔ پاکستان میں اگلے دو تین مہینوں میں سرد موسم کے دوران آئیندہ انتخابات کے سلسلے میں سیاسی موسم انتہائی گرم رہنے کی توقع ہے۔ چیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری مٹھی میں ایک بڑے جلسہ عام سے پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم کا آغاز کر چکے ہیں جبکہ اس وقت خیبرپختونخواہ میں بلاول بھٹو زرداری کا دورہ جاری ہے جس کے دوران وہ مختلف شہروں میں بڑے بڑے جلسوں سے خطاب بھی کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف اگلے انتخابات کے لئے نہایت کمزور وکٹ پر کھیل رہی ہے کیونکہ عمران خان نااہل ہونے کے باعث انتخاب لڑنے کے قابل نہیں ہیں اور انتخابات سے قبل عمران خان کا جیل سے باہر آنا بھی ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ تحریک انصاف کی دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت بھی یا تو جیلوں میں بند ہے یا نو مئی کے واقعات کے باعث انڈر گراونڈ ہو چکی ہے۔ یہی حال تحریک انصاف کے متوقع امیدواروں کا ہے۔ تحریک انصاف کی تنظیم بھی بری طرح بکھر چکی ہے۔ ان تمام حالات کے باعث بہت حد تک امکان ہے کہ عمران خان آخری وقت پر انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ ن لیگ اس وقت پورے ملک میں انتخابات لڑنے کے لئے اتحادیوں کی تلاش کے مشن پر ہے۔ اس سلسلے میں مقتدرہ کی حمایت اور اشارے پر اپنی سیاسی سمت کا فیصلہ کرنے والی جماعتوں کے ساتھ انتخابی اتحاد کے لئے ن لیگ رابطے کر رہی ہے اور بہت سی جماعتوں سے ملاقاتیں اور اتحاد کے فیصلے ہو بھی چکے ہیں۔
انتخابی اتحادوں کے لئے سب سے زیادہ سرگرمی اس وقت ن لیگ کی طرف سے دکھائی جا رہی ہے۔ ن لیگ پنجاب میں استحکام پاکستان پارٹی کے ساتھ مفاہمتی انداز میں چل رہی ہے اور استحکام پاکستان پارٹی کے ساتھ ن لیگ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا اصولی فیصلہ کر چکی ہے۔ سندھ میں ن لیگ، ایم کیو ایم، فنکشنل لیگ، جے یو آئی اور قوم پرست جماعتیں پیپلزپارٹی کے خلاف اتحاد بنا کر میدان میں اتر سکتی ہیں۔ یہ اتحاد پیپلزپارٹی کو سندھ میں کوئی نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں تو نہیں ہو گا البتہ ایک آدھ سیٹ ادھر اُدھر ہو سکتی ہے۔ ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد سے ن لیگ کو کراچی میں کچھ فائدہ ضرور ہو سکتا ہے اور ن لیگ کراچی سے شائد ایک آدھ سیٹ نکالنے میں کامیاب ہو جائے۔ دوسری طرف ن لیگ کے پاس انتخابات میں ایم کیو ایم کو دینے کے لئے کچھ زیادہ نہیں ہے البتہ ایم کیو ایم انتخابات کے بعد ن لیگ کی وفاقی حکومت بننے کی صورت میں گورنر سندھ اور دو تین تگڑی وزارتوں کی طلب گار ہو سکتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے خلاف مجوزہ اتحاد کے باوجود پیپلزپارٹی کا سندھ میں دور دور تک کوئی مقابلہ نظر نہیں آ رہا اور پیپلزپارٹی اس وقت دو ہزار اٹھارہ کے مقابلے میں زیادہ سیٹیں جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔
بلوچستان میں ن لیگ، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)، جے یو آئی اور قوم پرست انتخابی اتحاد میں شامل ہو سکتے ہیں لیکن یہاں باپ پارٹی اور جے یو آئی جیسے اتحادی ن لیگ سے وزارت اعلی کا تقاضا کریں گے۔ باپ پارٹی کا ن لیگ کے ساتھ اتحاد اور ن لیگ کا باپ پارٹی کے بارے ماضی کا موقف دیکھا جائے تو اسے حالات کا جبر ہی کہا جا سکتا ہے کہ مریم نواز جو پیپلزپارٹی کو سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے کے لئے باپ پارٹی کے چار ووٹ لینے پر طعنے دیا کرتی تھیں اور پھر اسے ہی بنیاد بنا کر پیپلزپارٹی کو پی ڈی ایم سے نکال دیا گیا تھا، اب اسی باپ پارٹی سے انتخابی اتحاد کے لئے اپنے والد نواز شریف، چچا شہباز شریف اور اپنی پارٹی کی صف اول کی قیادت کے ہمراہ کوئٹہ پہنچ گئیں۔ باپ پارٹی کے ایک گروپ نے جام کمال کی قیادت میں ن لیگ میں شمولیت بھی اختیار کی ہے لیکن اس گروپ میں جام کمال اور ایک آدھ اور نام کے علاوہ کوئی بڑی اور قابل ذکر شخصیت موجود نہیں ہے۔ زمینی حقائق کے مطابق پیپلزپارٹی بلوچستان میں اپنے مضبوط امیدواروں اور کئی اضلاع میں بلدیاتی اداروں کی سربراہی کے باعث اچھی پوزیشن میں نظر آ رہی ہے۔
خیبرپختونخواہ کی پوزیشن تو ابھی واضح نہیں لیکن مقتدرہ کے ن لیگ کی جانب واضح جھکاؤ کے باعث جے یو آئی اور پرویز خٹک کی پی ٹی آئی پارلیمینٹیرینز کا قدرتی اتحاد ن لیگ کے ساتھ ہی متوقع ہے۔ پیپلزپارٹی اور اے این پی ایک دوسرے کے ساتھ بہت ساری باتوں پر متفق ہونے کے باوجود شائد آپس میں کسی سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر متفق نہ ہو سکیں کیونکہ دونوں جماعتیں بہت سارے علاقوں میں ایک دوسرے کے خلاف مضبوط ووٹ بینک رکھتی ہیں لیکن دونوں جماعتیں اگر کسی سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر متفق ہونے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو دونوں جماعتوں کی کامیابی کا امکان کافی بڑھ جائے گا۔ خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کا بڑا ووٹ بینک موجود ہے لیکن تحریک انصاف کی موجودہ حالت کے باعث ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ تحریک انصاف کس شکل میں انتخابات میں موجود ہو گی۔ آئیندہ انتخابات میں سب سے بڑا سوالیہ نشان یہ ہو گا کہ تحریک انصاف کی انتخابات میں شمولیت کس لیول کی ہو گی یا اگر تحریک انصاف لیول پلئینگ فیلڈ نہ ملنے کی بنا پر انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کرتی ہے تو تحریک انصاف کے ووٹر کا فیصلہ کیا ہو گا؟
پنجاب میں قومی اسمبلی کی زیادہ سیٹیں ہونے کے باعث ہمیشہ کی طرح انتخابات کا بڑا میدان پنجاب میں ہی لگے گا۔ جنوبی پنجاب میں تینوں بڑی جماعتوں میں برابر کا مقابلہ ہے۔ کچھ اضلاع میں پیپلزپارٹی مضبوط پوزیشن میں ہے تو بعض اضلاع میں ن لیگ اور تحریک انصاف اچھی پوزیشن میں ہیں۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے آئیندہ انتخابات میں پنجاب میں سرپرائز دئیے جانے کا دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے جو جنوبی پنجاب کی حد تک تو شاید سچ ثابت ہو لیکن سینٹرل پنجاب میں فی الحال پیپلزپارٹی کی کوئی خاص سرگرمی نظر نہیں آ رہی جو پیپلزپارٹی کے اس دعویٰ کو سچ ثابت کر سکے۔ ن لیگ کا زیادہ تر انحصار سینٹرل پنجاب کی سو سیٹوں پر ہے۔ سینٹرل پنجاب کی یہی سو سیٹیں اگلے نتخابات کے بعد بننے والی حکومت کا فیصلہ کریں گی۔ اگر پیپلزپارٹی سینٹرل پنجاب میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر پیپلزپارٹی کا راستہ روکنا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ سندھ کی پچاس کے لگ بھگ سیٹوں پر پیپلزپارٹی کی واضح برتری کے باعث پنجاب سے ملنے والی پچیس سے تیس سیٹوں کی کمک کے باعث پیپلزپارٹی سنگل لارجسٹ پارٹی بن سکتی ہے۔ سینٹرل پنجاب میں تحریک انصاف کا بھی بہت بڑا ووٹ بینک موجود ہے جو تحریک انصاف کے امکانی بائیکاٹ یا ناموافق انتخابی میدان کے باعث انتخابات میں ٹوکن شمولیت کی صورت میں تحریک انصاف کے آزاد حیثیت میں میدان میں اترنے والے امیدواروں یا بعض جگہوں پر پیپلزپارٹی کے امیدواروں کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کر کے سینٹرل پنجاب میں ن لیگ کے لئے بہت زیادہ مسائل پیدا کر سکتا ہے۔
ایک طرف اگر ن لیگ چاروں صوبوں میں اتحادی تلاش کر رہی ہے اور انتخابی اتحاد بنا کر انتخابات لڑنا چاہتی ہے تو دوسری طرف پیپلزپارٹی اس وقت انتخابات میں سولو فلائیٹ کرتی نظر آرہی ہے۔ انتخابی اتحادوں کی یہ صورتحال انیس سو اٹھاسی کےانتخابات کی یاد دلاتی ہے جب پیپلزپارٹی کا مقابلہ کرنے کے لئے مقتدرہ کی حمایت سے آئی جے آئی نامی اتحاد کو پیپلزپارٹی کےمقابلے میں اتارا گیا۔ اس وقت بھی ایسی ہی صورتحال ہے جب چاروں صوبوں میں پیپلزپارٹی تن تنہا ن لیگ اور اس کے اتحادیوں کا مقابلہ کرے گی۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہو گا کہ ن لیگ اگرچہ ہر صوبے میں انتخابی اتحاد بنانے کی کوشش تو کر رہی ہے لیکن زیادہ امکان یہی ہے کہ یہ سب جماعتیں کسی انتخابی اتحاد کی بجائے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے اپنے انتخابی نشان پر انتخاب لڑیں گی۔ ایسی صورت میں یہ جماعتیں انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کے لئے تشکیل دئیے جانے والے حکومتی اتحاد میں شامل ہونے کے لئے آزاد ہوں گی اور فلور کراسنگ کے قانون کا ان پر اطلاق نہیں ہو گا۔
ن لیگ اور اس کے قائد نواز شریف اس وقت ڈیل اور لاڈلہ پن کے تاثر کی وجہ سے کافی پریشانی کا شکار نظر آتے ہیں اور ذرائع کے مطابق نواز شریف انتخابات سے پہلے ڈیل اور لاڈلہ پن کے تاثر سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن چاروں صوبوں میں ن لیگ کے مجوزہ اتحادی سارے وہ لوگ اور جماعتیں ہیں جن کے مقتدرہ سے رابطے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اس لئے نواز شریف کےلئے ڈیل اور لاڈلہ پن کے تاثر سے چھٹکارا حاصل کرنا آسان نہیں ہو گا۔
تحریک انصاف کے لئے موجود زمینی حقائق کے باعث تحریک انصاف کی جانب سے آئیندہ انتخابات کے بائیکاٹ کے اعلان کا قوی امکان موجود ہے کیونکہ تحریک انصاف کی تنظیم مکمل طور پر منتشر ہو چکی ہے۔ جمہوری طور پر افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ اس وقت تحریک انصاف کے لئے لیول پلئینگ فیلڈ بالکل بھی نہیں ہے۔ اس وقت تحریک انصاف کے لئے کسی بھی قسم کی کوئی سیاسی سرگرمی کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ چیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری بار بار اس جانب توجہ دلا رہے ہیں کہ سب سیاسی جماعتوں کے لئے لیول پلئینگ فیلڈ مہیا کی جانی بہت ضروری ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا موقف ہے کہ نو مئی کے ذمہ داران کو ضرور کیفر کردارتک پہنچایا جائے لیکن بطور سیاسی جماعت تحریک انصاف کے انتخابات میں حصہ لینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئیے۔ عمران خان کی افتاد طبع اور عمران خان کے ماضی کے اقدامات جن میں دو ہزار آٹھ کے انتخابات کا بائیکاٹ، قومی اسمبلی سے استعفے، پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی اسمبلیوں کے قبل از وقت توڑے جانے جیسے اقدامات اس بات کو بہت زیادہ تقویت دیتے ہیں کہ عمران خان آئیندہ انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کی جانب سے انتخابات کے بائیکاٹ کی صورت میں سب سے زیادہ فائدہ ن لیگ کو ہونے کی توقع ہے۔ بائیکاٹ کی صورت میں تحریک انصاف کے کچھ متوقع امیدوار استحکام پاکستان پارٹی کی جانب جا سکتے ہیں لیکن اس صورت میں ان کو تحریک انصاف کا ووٹ ملنے کا بہت کم امکان ہے البتہ بائیکاٹ کی صورت میں اگر تحریک انصاف کے کچھ امیدوار پیپلزپارٹی میں شمولیت کا فیصلہ کرتے ہیں تو تحریک انصاف کا ووٹر ن لیگ کی مخالفت میں اپنا ووٹ ان امیدواروں کے پلڑے میں ڈال سکتا ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ تحریک انصاف کے لئے اس وقت زمینی حقائق کیسے ہیں اور تحریک انصاف کے لئے آئیندہ انتخابات میں شرکت کے لیے کیا مسائل ہیں اگر تحریک انصاف آئیندہ انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کرتی ہے تو اگلے پانچ سال کے لئے تمام اسمبلیوں میں نمائیندگی نہ ہونے کے باعث تحریک انصاف کے لئے اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو ن لیگ اور نوازشریف کی مجوزہ ڈیل کا ایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف کو اس حد تک دیوار سے لگا دیا جائے کہ تحریک انصاف انتخابات کا بائیکاٹ کرنے پر مجبور ہو جائے تاکہ ن لیگ کے لئے سینٹرل پنجاب میں میدان صاف ہو جائے اور اس کا براہ راست فائدہ ن لیگ کو پہنچایا جا سکے۔ دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو تحریک انصاف کی انتخابی میدان سے عدم موجودگی کی صورت میں تحریک انصاف کے خاموش ووٹر کے لئے پیپلزپارٹی ایک قابل قبول جماعت ہو سکتی ہے کیونکہ نواز شریف کے وزیراعظم بننے کی صورت میں تحریک انصاف کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنائے جانے کا خدشہ موجود ہے جبکہ پیپلزپارٹی سیاسی انتقام پر یقین نہیں رکھتی اس لئے تحریک انصاف کے خاموش ووٹر کے لئے پیپلزپارٹی کسی حد تک ایک متبادل جماعت ہو سکتی ہے لیکن تحریک انصاف کا خاموش ووٹر کیا فیصلہ کرتا ہے اس کا پتہ آٹھ فروری کو الیکشن والے دن ہی چلے گا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...