انتظار صاحب کی باتیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندوستان سے چلتے ہوئے دو کتابیں اپنے ساتھہ لیں ،
’’ آبِ حیات‘‘ اور انجیل کا اردو ترجمہ۔
۔۔۔۔
جس طریقے سے پاکستان آیا، اس وقت ایسا لگتا تھا جیسے تاریخ ہمیں دھکا دے رہی ہے اور اسکی رو میں ہم بہتے چلے جارہے ہیں۔
۔۔۔۔۔
الاٹمنٹ نہ کرانےکی بات ہوئی تو میں نے کہا ، میں ہندوستان میں نیم کا پیڑ اور تاج محل چھوڑ کر آیا ہوں ، ان کا یہاں بدل نہیں تو میں الاٹمنٹ کیسے کراتا
۔۔۔۔
ناصر کاظمی نے کہا کراچی میں مہاجر میرا وہی حال کریں گے جو میں اپنی بیوی کا کرتا ہوں ، میں نے دل میں سوچا بات تو ٹھیک ہے۔
۔۔۔۔۔
میں نے پہلے طے نہیں کیا تھا کہ مجھے واقعی افسانہ ہی لکھنا ہے۔ اس زمانے میں مجھے شاعری میں بہت زیادہ دلچسپی تھی۔لیکن غزل کی نسبت نئی شاعری زیادہ پسند تھی۔ بی اے کے زمانے میں نظم لکھہ کر ساقی کو بھجوائی ۔ عسکری صاحب کا دوسطری خط آیا کہ آپ کی یہ نظم شائع نہیں کر سکتے۔ بعد میں کبھی عسکری صاحب کو یاد نہیں دلایا کہ میں نے انہیں نظم بھیجی تھی۔
۔۔۔۔
افسانہ پڑھا تو مظفر علی سید نے کہا میں نے سرشار سے زبان مستعار لی ہے۔۔اس زمانے میں سرشار کا کوئی نام نہیں لیتا تھا، تو مظفر سے سرشار کے بہانے دوستی ہوگئی۔
۔۔۔۔
صحافی کالونی میں مجھے دس مرلے کا پلاٹ الاٹ ہوا۔ بیوی کے نام مکان موجود تھا ، اس لئے میں پلاٹ سے دستبردار ہوگیا۔ خاتون کولیگ کو پانچ مرلے کا پلاٹ الاٹ ہوا تھا، کہنے لگیں اپنا دس مرلے کا پلاٹ مجھے دیدیں۔ میں نے لکھ دیا۔ دفتر کے ایک عزیز نے بیوی سے ذکر کردیا ۔ بیوی کو شک ہواکہ یہ کیا چکر ہے۔ اس پر میں نے کہا جس کے حق میں دستبردار ہوا ہوں وہ سید زادی ہے۔اس پر وہ مطمئن ہوئیں۔
۔۔۔۔
اشفاق احمد کو پہلی داد منٹو نے دی۔ بعد میں وہ اس کا ذکر نہیں کرتا تھا۔ ناشکرا تھا، اسے تو فخر کرنا چاہئیے تھا کہ منٹو نے اسے سراہا۔
۔۔۔۔
منٹو کو تقسیم کے بعد زیادہ شہرت ملی۔ 47 سے پہلے پوری فضا پر کرشن چندر چھایا ہوا تھا۔ اتنی مقبولیت شاید ہی کسی اور ادیب کو ملی ہو۔افسانہ اس(کرشن) کا 47 کے بعد ختم ہو گیا، مقبولیت جاری رہی۔
۔۔۔۔۔
پہلی مرتبہ جس فلمی ہیروین کی تصاویر دیکھیں ، وہ رینوکا دیوی تھی، تو ہم اس پر فوراََ عاشق ہوگئے۔۔ اس وقت میں انٹر میڈیٹ میں تھا۔
۔۔۔۔
میرٹھہ میں عسکری صاحب کے ساتھی ’ آٹھہ دن‘ دیکھی، جس میں منٹو صاحب نے بھی چھوٹا سا کردار کیا تھا۔ جب وہ سکرین پر آئے تو مجھے عسکری صاحب نے بتایا کہ یہ منٹو ہیں۔
۔۔۔۔
برصغیر کی تاریخ میں جو شخصیت آئیڈیل ہوسکتی ہے وہ امیر خسرو کی شخصیت ہے۔دوسری شخصیت جو مجھے متا ثر کرتی ہے وہ نظیر اکبر آبادی کی ہے۔
مولانا روم اور امیر خسرو نے اسلام کی جو تعبیر کی، اس کا میں بہت قائل ہوں تو پھر مُلا کے اسلام کو کیسے قبول کروں؟
۔۔۔۔۔۔
سیاسی شخصیات میں جمال عبدالناصر کا بہت قائل ہوں۔ اس کے سوا کسی سیاسی شخصیت نے اپیل نہیں کی۔
۔۔۔۔۔۔
ہمارے محقق ذہنی طور معذور ہیں کہ وہ ’’آبِ حیات‘‘ کی معنویت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔اس کتاب نے ادبی تاریخ کوزندہ کرکے دکھایا ہے۔اس اعتبار سے میں اسے ناول کہتا ہوں۔اس میں پورا عہد جیتا جاگتا نظر آتا ہے۔شاعر چلتے پھرتے نظر آتے ہیں،لڑتے بھڑتے دکھائی دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔
حلقۂ اربابِ ذوق میں منیر نیازی سے وہ نظم سنی جس کا عنوان ہے ۔۔۔ جن گھروں سے ہم نے ہجرت کی۔۔ مجھے یاد ہے کہ نظم پڑھتے پڑھتے منیر نیازی رو پڑا تھا۔
۔۔۔۔۔۔
میری دوستی زیادہ تر شاعروں سے رہی۔ کسی افسانہ نگار سے دوستی نہیں ہوئی۔ میرا یہ مسٔلہ رہا ہے کہ اس حقیقت سے پرے جو حقیقت ہے وہ کیا ہے؟ شاعری میں منیر نیازی کے ہاں یہ دیکھا تو مجھے لگا کہ جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ کہہ رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
کالم میری پیشہ ورانہ تحریریں ہیں۔ جو ان تحریروں کو ادب سمجھہ کر پڑھے گا وہ اپنے فعل کا خود ذمہ دار ہوگا۔ میں تو کالم کو ادب پارہ قرار دینے کی سوچ سے متفق نہیں۔
۔۔۔۔۔۔
مشرق میں پچیس سال کالم اخباری کاغذ پر بال پوائینٹ سے لکھا، اس کے برعکس فکشن سفید کاغذ اور روشنائی والے قلم سے لکھا۔ ایک نشست میں کبھی افسانہ نہیں لکھا۔ کئی نشستوں میں لکھا جاتا۔ ری رائٹ بہت کم کیا۔
۔۔۔۔۔۔
ہندوستان میں کھجوراہو ایسی جگہ ہے، جسے خواہش کے باوجود نہیں دیکھ سکا۔تمنا ہی رہی۔
۔۔۔۔۔
سب سے بڑا پچھتاوا یہ ہے کہ بڑی خشک زندگی گزری ہماری۔لڑکیوں سے دوستی وغیرہ ، اٹھنا بیٹھنا نہیں ہوا۔ دوست بھی بس ایسے ہی تھے۔ ناصر، مشتاق، مظفر ، لڑکیاں ان کی زندگی میں بھی آئی نہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“