گرم انڈے ، گرم انڈے … چائے گرم ، گرم چائے … حلوہ پوڑی ( حلوہ پوری ) کے ناشتے " آوازوں کا ایک ہجوم تھا …… بھانت بھانت کی آواز لگاتے خوانچہ فروش ، چائے کے سٹال والے …… کندھے پر سرخی مائل نارنجی صافہ ڈالے …… اپنی روزی بڑھانے کے چکر میں گھن چکر بنے قُلی ……سب کے سب جیسے یک زبان ہو کر ریلوے اسٹیشن پر ہر آنے جانے والے کا استقبال کرتے دیکھائی دیتے …… ابھی جاڑے کا آغاز ہی تھا …… مگر سہ پہر ہی سے شام نے گہری مٹیالی سرمئی چادر اُڑھ لی تھی …… ایسے میں دن کے اُجالے سے اپنا رزق وصولتے ، تھکے ماندہ طیور ، گٹکری بھرتے اپنے آشیانوں کو لوٹ رہے تھے _خاکی پتلون کوٹ میں ملبوس، سفری بیگ ہاتھ میں تھامے جیسے ہی ایک مسافر اسٹیشن کا پھاٹک پار کر کے پلیٹ فارم کے چبوترے پر چڑھا دو تین قلُی اس کی جانب بڑھے _ اُس بابو سے بھاؤ تاؤ کرتے ہر کوئی جیسے اُس کا سفری بیگ پکڑنے میں سبقت لے جانا چاہتا تھا …… کہ کسی بھی طرح ایک اور وسیلہِ روزی ہاتھ سے جانے نا پائے …… مگر اس کی طرف سے ٹکا سا جواب ملنے پر سب اپنے صافے جھاڑتے کسی دوسرے مسافر کی اُور بڑھ گئے _ ابھی گاڑی کے آنے میں کچھ وقت تھا …… یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ مسافر کسی دوسرے گاؤں سے آیا تھا …… جبھی وقت سے پہلے یہاں موجود تھا _یہاں بس ایک ہی لائن ہی بچھی تھی …… اکا دکا ٹرینیں ہی اس رستے سے دن بھر گزرتیں …… مسافر اگلی گاڑی آنے تک انتظار کی سولی پر لٹکتا یا پھر واپس گھر کو لوٹ جاتا وہ دوسرے قصبے سے لاری میں بیٹھ کر یہاں تک پہنچا تھا_ اُس کی مطلوبہ ٹرین آنے میں ابھی کافی وقت تھا……… پانی کی ہودی کے دائیں جانب پرانے ،گھنے برگد کے درخت کے سائے تلے ایک بینچ بچھی تھی …… برگد کا درخت کسی سادھو کی طرح اپنی جُٹ دار ،الجھی زلفیں بکھیرے ، سر نیہوڑائے گیان دیان میں بیٹھا لگتا …… کبھی کبھی کوئی کوئل کُوکتی اور پھر گہری چپ سادھ لیتی …وہ اِسی برگد کےپیڑ کے سائے تلے بچھی بینچ پر بیٹھ گیا_شام گہری ہوتے ہی اسٹیشن پر چہل پہل برائے نام رہ گئی تھی …… وقت تھا کہ بیت ہی نہیں رہا تھا … تھک کر اس کی آوارہ نظریں کبھی ریلوئے لائن پر جا بھٹکتی تو کبھی اسٹیشن پر بنے گودام ، انتظار گاہ اور اسٹیشن ماسڑ کے کمرے کا طواف کرنے لگتی …… یوں ہی بھٹکتی نظر اسٹیشن کا پھاٹک پار کر کے اندر داخل ہوتی ایک چھریرے بدن کی تیس بتیس سالہ خاتون پر پڑی …… جو سفری بیگ ہاتھ میں تھامے ساتھ ساتھ کسی مچھلی کی طرح سر سے پھِسلتے ڈوپٹے کو درست کرتی، خنکی کے باعث دوپٹے کے ساتھ عنابی رنگ کی ہلکی گرم شام بھی اُوڑھ رکھی تھی … اسٹیشن کے چبوترے پر لمحہ بھر کو رُکی ، شاید بیٹھنے کیلئے جگہ تلاش کرتی تھی…… فقط دو بینچیں ہی اس پلیٹ فارم کی زینت تھیں جس میں ایک پر میلے چِکٹ کپڑوں میں ملبوس ایک مدقوق افیمچی اپنی رات کی نیند پوری کر رہا تھا جبکہ دوسرے بینچ کے ایک کونے پر وہ براجمان تھا …… آخر کار فیصلہ دوسری بینچ کے حق میں دیتی……وہ اپنے سفری بیگ کو حدِ فاضل بناتی اُس سے فاصلہ رکھ کر بیٹھ گئی _ابھی کچھ سمے ہی بیتے تھے کہ اسٹیشن ماسڑ افراتفری میں اپنے کمرے سے برآمد ہوا …… بغیر کسی مسافر کو دیکھے ، ریلوئے گارڈ سے مخاطب ہوا…" پچھلے اسٹیشن پر دو ٹرینوں کا تصادم ہو گیا ہے کئی بوگیاں پٹری سے اتر گئیں ہیں …… ساری آمدورفت معطل کر دی گئی ہے جب تک ریلوئے ٹریک کو بحال نہیں کر دیا جاتا ٹرینوں کی آمدورفت نہیں ہو گی "بینچ پر بیٹھے دونوں مسافروں کی توجہ گارڈ اور اسٹیشن ماسٹر کی گفتگو کی طرف تھی …… وہ تشویش میں مبتلا ہو کر اُٹھ کھڑا ہوا اور ان دونوں کے پاس پہنچا کہ صورتحال کی سنگینی کا پتہ چل سکے _ ☆☆☆☆☆
" سب خیریت تو ہے اسٹیشن ماسٹر صاحب؟ ……کدھر حادثہ ہوا ہے ؟ "
" بس جناب کیا بتاؤں …… آپ کا نام ؟ "
" جی باسط … باسط نام ہے میرا "
" بس باسط صاحب … پچھلے اسٹیشن پر دو ٹرینوں کے مابین تصادم کی وجہ سے ریلوئے ٹریک بند کر دیا گیا ہے ……جب تک لائن بحال نہیں کر دی جاتی … گاڑیوں کی آمدورفت معطل رہے گی "
" تو اس میں کتنا وقت لگے گا ؟ "
" کچھ کہا نہیں جا سکتا …… ایک دن تو لگ ہی جائے گا راستہ بحال کرنے میں …… یا زیادہ سے زیادہ کل صبح تک ہی ٹرین یہاں پہنچے پائے گی …… آپ ایسا کریں گھر واپس چلے جائیں ، کل آ جائیے گا "
" ارے جناب اس وقت تو کوئی لاری بھی نہیں ملے گی …… یہی پر بیٹھ کر انتظار کرنا پڑے گا "
" اوہ …… یہ تو واقعی مسئلے والی بات ہے …… خیر آپ انتظار گاہ میں بیٹھ کر رات گزار لیں … کل تک ان شاء اللّٰہ راستہ بحال ہو جائے گا "
وہ خاتون بھی اٹھ کر پاس چلی آئیں
" اسٹیشن ماسڑ صاحب آپ کے پاس فون کی سہولت دستیاب ہے تو میں اپنے گھر والوں کو مطلع کر سکتی ہوں؟"
" جی … جی بالکل ، آپ آئیے میرے ساتھ "
ان دونوں کے جاتے ہی وہ واپس بینچ پر جا کر بیٹھ گیا … واپس جانا اس کے لیے کسی طور ممکن نا تھا …… چند لمحے بعد پھر اٹھ کھڑا ہوا اور ٹہل لگاتے پلیٹ فارم کا طول و عرض مانپنے لگا …… یہ سوچ ہی کوفت کا باعث تھی کہ سر پر کھڑی رات اور یہ وقت کیونکر بیتے گا …… ایک قصبے کے چھوٹے سے اسٹیشن پر دلچسپی کا باعث کیا شئے ہو سکتی تھی …… آوارہ نظریں چاروں طرف بھٹکتی …… پھر ناکام ہو کر واپس پلٹ آتیں …… آخر دفعہ پلٹتے ہوئے وہ تصویر کائنات کے اُس رنگین پہلو میں الجھ گئیں جو بینچ کے کونے میں سِمٹ کے بیٹھا تھا …… راج ہنس جیسی گردن میں موتیوں کا کنٹھا …… ہر بار سانس لینے پر ہنسلی کی ہڈی کے ساتھ محوِرقص ہوتا …… چہرہ شناسا لگتا تھا یا صورتحال کا تقاضا ،کہ گھوم پھیر کر نگاہ ادھر ہی بھٹکتی تھی _
"محترمہ گاڑی آنے کا کوئی امکان موجود نہیں ، کل تک ہی پہنچ پائے ……اگر برا نا مانیں تو گھر کو واپس لوٹ جائیں "
" گھر کو ہی جا رہی تھی میں …… اس قصبے کے کالج میں لیکچرار ہوں اور چھٹیوں کے باعث ہوسٹل بھی بند ہو گیا ہے …… اب یہیں انتظار گاہ میں رات کاٹنی پڑے گی "
اسٹیشن ماسڑ کے کمرے سے ریلوئے گارڈ نمودار ہوا …… دونوں کے پاس ذرا دیر کو رُکا
" بی بی ! ……… روبینہ آپ ہی کا نام ہے ؟ "
" جی "
" آپ کیلئے کسی قدّسیہ خاتون کا فون ہے …… جا کر سن لیں "
وہ معذرت کرتی اس کے ہمراہ چل دی ……… اور اُس کے جانے کے بعد دو ناموں کی بازگشت اُس کے ذہن کے گنبد میں گونج پیدا کرتی …… پھر سر ٹکراتی پلٹ جاتی …… ماضی کے کواڑوں سے کوئی یاد چوری چھپے جھانکتی ،اُس سے آنکھ مچولی کھیلنے لگی_
" دیکھ باسط پتّر آپا قدسیہ بینا کیلئے بڑی پریشان ہیں …… زندگی کا کیا بھروسہ آج ہے تو کل نہیں ……… بڑی گُن والی ہے بینا ،سگھڑ اور شاید کچھ جماعتیں بھی پاس کر رکھیں ہیں…… تو کہے تو بات کرتی ہوں…… ایک بار تو اسے دیکھ لے "
" اماں میں نے کڑھائی والے غلاف اور اچار ، چٹنیوں کیلئے شادی نہیں کرنی ……… ان کیلئے بازار بھرے پڑے ہیں…… صرف چار جماعتیں پاس کر کے میرے ساتھ چلتی جچ نہیں سکتی وہ …… تو بس آسیہ کے متعلق سوچ "
" ہولی ( آہستہ ) بول پتّر …… بیاہ والا گھر ہے ، کوئی سن نا لے "
" سنتا ہے تو سن لے …… مجھے بس آسیہ سے ہی بیاہ کرنا ہے "
ماضی کے کواڑ سے اِک اور پردہ سرکا تھا …… یا بہت کچھ سطح آب پر آگیا ……
" دیکھ پتر تیرے کیمپ کے نزدیکی قصبے میں قدسیہ کی بیٹی رہتی ……… واپسی پر اس یتیم بچی کا حال پوچھتا آئیو "
پانی کی لہر واپس پلٹتے بہت کچھ ساحل پہ چھوڑ گئی تھی
وہ واپس آ کر سفری بیگ اُٹھاتی انتظار گاہ کی طرف بڑھنے ہی لگی تھی کہ اس نے اپنے گمان کی تصدیق کرنا چاہی ……… گمان حقیقت بن کر سامنے آ موجود ہوا _
پہچان کا مرحلہ طے پا گیا تو نئے مراحل شروع ہو گئے _
" کیا پڑھاتی ہو تم "
" انگریزی ادب " ……… جواب آیا
" اور آپ ؟ "
" ڈاکٹر ہوں …… نزدیکی قصبے کے رفاہی کیمپ میں کام تھا "
ا وقت گزاری کیلئے اُس نے بینا کے ہاتھ میں دھری کتاب اُٹھا کر سر ورق دیکھا
" کیٹس "
" ہاں قنطویت کا شاعر " جواب ملا
" مجھے شیلے پسند ہے رجائیت پسندی ہے اس کی شاعری میں "
" گوئٹے کے متعلق کیا خیال ہے "
" ہاں آفاقیت کا درس دیتا ہے جبھی اقبال اس کے متاثرین میں سے تھے "
بات کیٹس شیلے سے نکلتی شیکسپئر دانتے تک پہنچی …… پھر بات سے بات نکلتی گئی …… اور ہر بات کے ساتھ اُسں کی ذات کے گرد تار عنکبوت بُنتا چلا گیا ……… چکر در چکر …… صبح صادق تک پچھتاوے کا جال تکمیل پا چکا تھا_وہ تھا بھی متلون مزاج ……… کسی ایک چیز پر ٹک ہی نہیں سکتا تھا ……… آسیہ پر بھی نہیں …… تخلیق کے عمل سے گزرتی بیوی اس کیلئے بے کشش تھی …… یا شاید اس سے بھی پہلے نشہ ہرن ہو چکا تھا …… اُس سے وجود کے ٹانکے تو مل جاتے تھے پر ذہنی اور قلبی نہیں …… ایسے میں ذات کی تکیمل ہو تو کیونکر ہو ……… پچھلے چند گھنٹوں میں ادھوری ذات تکمیل پاتی معلوم ہوئی تھی پتہ نہیں یہ خالی خولی اُس کی سوچ تھی …… یا خود کو دیا جانے والا بہلاوا _
دور چبوترے کے پار سیدھی مستقیم پٹڑی ، کانٹے کے بعد دوراہے میں تقسیم ہو جاتی تھی ……
ایک کمینی سی سوچ ذہن میں کلبلائی
" مجبور ہے جبھی نوکری کر رہی ہے ……… عمر بھی الگ اُس گزرتی جا رہی ……… کب تک اپنا بوجھ اُٹھائے گی …… معاشرے میں جینے کیلئے سہارا تو چاہیے ہی ہو گا ……… مرد کا کیا ہے چار شادیاں کر سکتا ……… اُس سے متاثر بھی لگتی تھی …… کل نا سہی آج ہی سہی …… عورت ذات ہے کیونکر انکار کر پائے گی
دلی خواہش نوکِ زبان تک آ پہنچی
"بہت خوب …… تو دریافت کا پرندے نئےجزیروں کی تلاش میں اُڑان بھرنا چاہتا ہے …… کل کے صاحبِ اختیار نے بہتر کا فیصلہ کیا تھا اب آج کا صاحبِ اختیار بہترین کا فیصلہ کرے گا "
اُس نے بٹوہ کھولا اور ایک فوٹو گراف اندر برآمد کی اور اُس کے ہاتھ میں تھما دی
" امّاں نے رشتے کیلئے بلوایا تھا …… اِنہیں میں اچار چٹنی سمیت قبول ہوں …… آج بہترین کا فیصلہ کرنا ہے …… ایک برّتے ہوئے مرد کا نہیں …… اگر انتخاب نا بھی ہوتا تو " دوسری عورت" کا تمغہ گلے میں لٹکانا مجھے منظور نہیں "
انتظار گاہ کی چوکھٹ میں کھڑے گارڈ نے پکارا
" بی بی …… ٹرین آنے والی ہے "
انجن کی دھمک نزدیک آتی سنائی دی تھی ……… ساری خاموشی اس ارتعاش سے منتشر ہو کر رہے گئی تھی …… دھم دھم کرتا انجن زن سے سامنے سے گزرتا جھٹکے سے رکا تھا ……
وہ انتظار گاہ سے نکلتے ہوئے بولی
" کچھ مرد اس ریل گاڑی کی طرح ہوتے ہیں ……… ہر بڑے اسٹیشن پر تھکان اتارتے تازہ دم ہونےکر آگلی منزل کی طرف بڑھ جاتے ہیں …… کسی پر بھی مستقل نا ٹھہرتے "
پیچھے وہ رہ گیا تھا اُس انتظار گاہ میں اپنی گاڑی کا منتظر ……
بوگی کی کھڑکی سے ہاتھ ہلاتے وہ اسے دیکھ کر مسکرائی تھی یا اس سوچ سے کہ ……
"جب عورت ذات کی نفی کی جائے یا اسے سرے سے رد کر دیا جائے …… ہر بار دھتکارے جانے پر ایک ایک سوئی عورت ذات کے پتّلے میں پیوست ہو کر اُسے سحر زدہ کر دیتی …… سحرِ بد "
مگر وہ منحرف ٹھہری تھی اِس عورت ذات کو سحر سے آزاد کروا کے ، کسی اور کی ذات میں سوئیاں گاڑھ آئی تھی_
( ختم شد )
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1750363671896999/
“