افسانہ
عنوان ۔۔۔ انتظار
پریشاں ہونے کے باوجود میرا وجود پریشانی کے لق دق صحرامیں چلنے کے لیےمجبور تھا۔ پانی کی امید مجھے صحرا میں بھٹکنے کے لیے مجبور کر رہی تھی لیکن ہر منزل پر سراب ہی سراب دکھائی دیتاتھا۔ میں افراط اذیت سے گھرا افتاں و خیزاں کی حالت میں قدم بڑھائے جا رہا تھا۔ زمین کا سینہ چیر کر اُف ہو جانے کو دل چاہ رہا تھا۔ اب تک استقلال کا دامن ہاتھ سے چھوٹا نہیں تھا لیکن اب پائے ثبات میں لغزش آرہی تھی، انتظار کے راستوں پر چلتے
چلتے پاؤں چھلنی ہوگئے تھے ،مصیبتوں کے گرداب میں گرفتار ہو کر دنیا کی ہر شے سے دل اوب چکا تھا،پریشانیوں کے انبار سے زنبیل بھر گئی تھی، ذہن منتظر ہوتے ہوتے منتشر، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت منجمد اور طبیعت منقبص ہو گئی تھی۔کل تک میری کلاس میں جن کی زبان تک نہ کھلتی تھی آج ان کی زبان خنجر کی طرح چل رہی تھی۔ میں عالم ازخود رفتگی میں اسکول سے گھر کی طرف جا رہا تھا، اسی دوران پیچھے سے آواز آئی ’’ دیکھووہ جارہا ہے بن پگاری فل ادھیکاری ‘‘ اور قہقہے کانوں میں پڑتے ہی ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے پشت پر خنجر سے وار کیا ہو، پلٹ کر دیکھا تو ہوش و حواس معطل ہو گئے، کر ب و ایذا سے دل تڑپ اٹھا جیسے جسم کا سارا خون سوکھ گیاہو ۔ خاموش مجسمے کی طرح مسلسل ایک منٹ انھیں ہی دیکھتا رہا۔ وہ ایک منٹ ایسا لگا جیسے صدیاں بیت گئی ہو ں۔ میں وہاں سے جلد نکل جانا چاہتا تھا لیکن قدموں میں آگے بڑھنے کی طاقت ہی نہ رہی۔ طبیعت گھبراگئی اور سانسیں بے ترتیب ہو نے لگی۔۔۔۔۔یہ تو مجھے امید نہ تھی۔۔۔۔ وہ میرے ہی اسٹوڈنٹ تھے۔
اپنی بے ترتیب سانسوں کو سنبھالتے ہوئے گھر پہنچا تو بیوی نے روز کی طرح دماغ چاٹنا شروع کر دیا ’’آپ یہ نوکری چھوڑ کیوں نہیں دیتے، کوئی دوسرا کام تلاش کر لیجیے ،آخر کب تک ہم تنگ دستی کی زندگی جیتے رہیں گے‘‘ میں پہلے ہی پریشان تھا، اپنے دکھ میں مبتلا کہ جو طالب علم تھے میرے طاعن بن گئے تھے ،اس بات کا مجھے بے حد افسوس تھا اور ساتھ بیوی بھی میری جا ن کھانے بیٹھ گئی ۔میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا ’’کیسے چھوڑ دوں، میرے دوست نے ایک اسکول پر آٹھ سال تک مفت میں کام کیااور لوگوں کے کہنے پر کہ اس اسکول کا کوئی مستقبل نہیں ، نوکری چھوڑ دی۔ نوکری چھوڑنے کے ایک سال بعد ہی اس اسکول کو گرانٹ مل گئی اور وہ بے چارہ پشیمانی میں پڑ گیا۔ حیرت و افسوس کا سحر اس پر حاوی ہو گیا اور اس کی تمام حسر تیں دل ہی دل میں دبی رہ گئیں۔ جب لوگ اس پر ہنسنے لگے تو اس نے مجھ سے کہاتھا ’’وقت کا رونا بے وقت کی ہنسی سے اچھا ہوتا ہے۔۔۔۔وقت از دست رفتہ و تیر ازکمان جستہ باز نیا ید۔‘‘ کہیں میرے ساتھ بھی ایسا نہ ہو جائے کہ میں نوکری چھوڑ دو ں اور اسکول کو گرانٹ مل جائے۔ اگر ایسا ہوا تو میری بارہ سالوں کی محنت بیکار چلی جائے گی، لوگ مجھ پر ہنسیں گے، مجھے بے وقوف کہیں گے، اور کوئی کاروبار شروع کرو ں بھی تو کیسے نہ زربل ہے نہ زوربل ۔‘‘
بیوی کو سمجھانے کی تمام کوششیں ناکام رہی ۔۔۔۔نہ وہ خاموش ہوئی اور نہ میری اذیت کم ہوئی۔ حرف شکایت اس کی زبان پر سر چڑھ کر بولتے تھے۔’’ اس نوکری کے لیے میں نے تو پہلے ہی منع کر دیاتھا لیکن میرے ابا نے مجھ سے کہا تھا کہ ایک دو سال میں تنخواہ شروع ہو جائے گی ، کچھ روپیوں کی ضرورت ہو تو مجھ سے مانگ لینا، اب وہ بھی تھک گئے ہیں آخر کب تک ہمارا خرچ
برداشت کریں گے اور گرانٹ کب ملے گی کوئی میعادطے شدہ نہیں ۔‘‘ قینچی کی طرح چلتی ہوئی اس کی زبان کو خاموش کرانے کے لیے میں نے کہا کہ تھوڑا اور صبرکرو اور خدا پر بھروسہ رکھو۔ اس کو سب کی فکر ہے اور مجھے بھی اس کی ذات سے پوری امید ہے۔ اس کی مرضی کے بغیر تو ایک پتہ بھی نہیں ہلتا اور کچھ ہی دنوں کی توبات ہے۔ ساری تیاریاں ہو چکی ہیں بس اب آخری انسپکشن باقی ہے۔ گرانٹ کے لیے درخواست فارم ہم جمع کر چکے ہیں۔ اب امید ہے کہ بہت جلد ہی گرانٹ مل ہی جائے گی۔
ایک پھٹی ہوئی کتاب کے اوراق کی طرح بکھرکرمیں ریزہ ریزہ اور خستہ حال ہو کر تتر بتر ہو گیا تھا۔ صبر کر رہا تھااور سوچتا تھا بیوی بھی صبر سے کام لے۔ ہمیشہ ایک بے چینی ،اور کئی سوالات ذہن میں ایک ساتھ امڈتے چلے آتے تھے۔ اور میں خیالات میں غرق ہو جاتاتھا ’’ حکومت مہاراشٹر نے ایک نیا قانون جاری کرکے ریاست کے تیرہ سو اسکولوں کو بند کرنے کا حکم دیا ہے اور وجہ بتائی کہ ان اسکولوں میں بچوں کی تعداد بہت کم ہے۔لیکن میں حکومت سے یہ پوچھتا ہوں کہ جس اسکول میں میں پڑھاتا ہوں وہاں بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور میں بارہ سال سے مفت میں پڑھارہا ہوں تو ہماری اسکول کو اب تک گرانٹ کیوں نہیں ملی ؟‘‘
یہی سب سوچتے ہوئے میں نے نہایت ہی رنج و غم کے ساتھ بیوی کو یہ خبر سنائی ۔اور سوچ رہا تھا کہ وہ اس خبر پر افسوس ظاہر کرے گی لیکن اس نے کہا’’چلو اچھا ہوا، ورنہ ان اسکولوں میں تعلیم حاصل کر نے والے سیکڑوں بچے تمہاری طرح بے روزگار ہو جاتے۔ میں تو کہتی ہوں یہ تعلیم حاصل کرنا
جوا کھیلنے کے برابرہیں، جس میں انسانی زندگی داؤ پر لگی ہوتی ہے۔ آخر تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی نوکریاں کہاں ملتی ہے؟ اور پھر کوئی چھوٹا موٹا کام کرنے میں ان تعلیم یافتہ لوگوں کو شرم آتی ہے۔ بڑے بڑے اور امیر لوگوں کو دیکھئے انھوں نے کہاں اتنی تعلیم حاصل کی ہے۔ بارہویں پاس ملک کی شکشا منتری ہے، ایک منسٹر نے جعلی ڈگریاں خریدی ہیں اور چائے والا پردھان منتری ہے، ایسی کئی مثالوں سے سماج بھرا پڑا ہیں۔ ان لوگوں کو دیکھو ،نہ تعلیم میں اپنا سر کھپایا، نہ بھری جوانی میں سر کے بال سفید کیے، بڑی خوش ہوئی، حکومت نے بہت اچھا فیصلہ لیا جو تیرہ سو اسکولوں کو بند کر دیا۔‘‘ میں اسے سمجھا رہا تھا ’’ تم ایسا کیوں سوچتی ہو ‘‘ لیکن میں محسوس کر رہا تھا، وہ تو میرے ہی دل کی بات تھی جو میں بھی کہنا چاہتا تھا لیکن الفاظ کا جامہ پہنانے سے قاصر تھا۔
ہر کلاس میں کچھ شرارتی لڑکے ہوتے ہیں، میری بھی کلاس میں ایک تھا۔ لاکھ سمجھانے کے باوجود بھی وہ شرارت کرتا تھا۔
اس ایک کی وجہ سے پوری کلاس بار بار ڈسٹرب ہو جاتی تھی۔ ایک معمولی سی سزا دینے کے دوسرے دن اس کا باپ جو ایک سیاسی اثر ورسوخ رکھنے والی شخصیت تھا، اسکول میں آدھمکا اور مجھے سبھی کے سامنے سخت لہجے میں دھمکی دی۔ ہیڈ ماسٹر صاحب بھی مجھ پر ہی ناراض ہوئے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب لوگ
ٹیچر کو دیوتا کی طرح مانتے تھے اور پورے گاؤں میں کوئی بھی کام اس کے مشورے کے بغیر نہیں ہوتا تھا لیکن زمانہ بدل گیا ہے اور بچے بھی بدل گئے ہیں۔ گزرے واقعے کے دوسرے ہی روز ہیڈ ماسٹر نے فوری میٹنگ طلب کی اور ٹیچرز اسٹاف سے کہا ’’یہ مت بھولیے کہ ہم ایک نا ن گرانٹ اسکول کے کرمچاری ہیں۔ اور حکومت کے قانون کے مطابق ہم کسی بھی بچے کو سزا نہیں دے سکتے۔ مارنا تو دور کی بات ہے زبان سے ڈانٹ بھی نہیں سکتے۔ غیر تعلیمی کاموں کا بوجھ کیا کم ہے !!! اوپر سے ہر ایرا غیرا ہم پر دھونس جماتا ہے۔ اور حکومت بھی ہم کو چور سمجھتی ہے۔مالی پریشا نیوں کی وجہ سے ہم لوگ پہلے ہی منتشر المزاجی کا شکار ہیں۔ اس لیے میں امید کرتا ہوں کہ آئند ہ سے سبھی اساتذہ ان تمام باتوں کا دھیان رکھیں گے۔‘‘ مٹینگ ختم ہو چکی تھی، سب اپنے اپنے گھر جا چکے تھے لیکن میں بد حواسی میں کھویا وہیں بیٹھا ہوا تھا۔اور مستقبل میں ہونے والے نقصان کو دیکھ رہا تھا۔کرتا بھی کیا، بے بس تھا سرکاری فرمان کے آگے۔ ہاتھ لگانے تک کا حق چھین لیا تھا کمھار سے۔۔ ۔ ۔ پھر کہتے ہیں کہ ہمیں برتن صاف ستھرے مضبوط اور اچھے چاہییں۔
انہی دنوں اسکول کے چیئرمین نے ایک فرمان جاری کیاجس میں یہ حکم دیا گیا تھا کہ بہت جلد اسکول کا انسپکشن ہونے والا ہے، آنے والی افسران کی ٹیم کی اچھے سے خاطر کرنی ہیں، تاکہ وہ اسکول کو اچھے ریمارکس دیں اورہمیں جلد گرانٹ ملے۔ اس کے لئے ایک ایک ٹیچر کو پچاس پچاس ہزار روپے کا انتظام کرنا ہوگا۔ اور سبھی ٹیچرز فکر کی گہرائیوں میں ڈوب گئے۔ رقم کا انتظام کرنے کے لیے ہاتھ پاؤ ں مارنے لگے تھے۔کسی نے بیوی کے زیورات فروخت کر دیے تو کسی نے قرض لے لیا، کسی نے ز مین بیچی تو کسی نے اپنا گھر گروی رکھ دیا۔ میں نے بھی بیوی کے گہنے بیچ دیے۔ رات دن ایک کر کے، بھاگتے دوڑتے گڑگڑاتے لڑکھڑاتے۔ دل میں امیدکا دیا جلائے کہ جلد تنخواہ شروع ہو پیسوں کا انتظام کیا۔
پھر ایک دن افسر ان کی ایک ٹیم اسکول کے انسپکشن کے لیے آئی، ہم نے بیش بہا تیاریاں کررکھی تھیں، نہایت ہی شائستگی سے افسر ان کی خوب سے خوب تر خاطر مدارت اور آؤبھگت کی گئی۔میں خوشی خوشی گھر آیا اور بتایا کہ انسپکشن بہت اچھا ہوا ہے۔ ہماری اسکول کو بہت اچھے پوائنٹس ملے ہیں۔ اب بہت جلد گرانٹ مل جائے گی۔ میرا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔ خوشی کی پھلجھڑیاں چاروں طرف پھوٹتی نظر آ رہی تھیں۔لیکن چشم انتظار کو سکون پذیری حاصل نہ ہوسکی۔
جیب خرچ کے پیسے تک کی پریشانی ، بیوی اور بچی کی کوئی خواہش وقت پر پوری نہ ہو سکی۔ جب میری بیٹی دوسرے ٹیچرز سے میرا مقابلہ کرتی تو میں صرف یہ کہہ دیتا کہ بیٹا وہ گرانٹیڈ اسکول کے ٹیچرزہیں۔
گھر کے سبھی افراد بار بار کثرت سے اصرار کرتے تھے ’’یہ نوکری چھوڑ دو ‘‘ ۔۔۔۔لیکن پھر وہی بات ذہن میں گردش کرتی ہوئی چلی آتی تھی، کہیں میرے ساتھ بھی وہی نہ ہو جو میرے دوست کے ساتھ ہوا تھا۔ پھر وقت اپنی رفتار سے چلتا رہا۔ کئی بار تنہائی میں نے بھی سوچاتھا کہ نوکری چھوڑ دو ں پھر خیال آتا نوکری چھوڑ دی تو گاؤں میں سوائے مزدوری کے کوئی دوسرا کام نہیں
ملتا اور پاس اتنا پیسہ بھی نہیں ہے کہ میں خود کا کوئی کاروبار شروع کر سکوں، محنت مزدوری اب مجھ سے ہوگی نہیں، انتی طاقت اب رہی نہیں ۔۔۔۔اورلوگ کیا کہیں گے۔‘‘
نان گرانٹ اسکول پر بارہ سال سے مفت میں کام کرتے کرتے تھک چکا تھا۔ پل پل لڑائی اپنے آپ سے مجھے ہر وقت کشمکش میں مبتلا رکھتی تھی۔ شب تنہائی میں ہیبت ناک خیالات میرے حوصلوں کو پست کر دیتے تھے۔ آنکھوں سے نیند غائب ہوتی گئی۔ رات بھر بے چینی اور ہر وقت اپنے اندر ایک خالی پن کا احساس، کبھی کبھی جی میں آتا کہ تمام غموں سے آزاد ہو جاؤں اور سوچ و فکر کو دور دریا میں پھینک آؤں۔ دھیرے دھیرے بالوں میں سفیدی اترتی گئی،آنکھوں پر نمبر کی عینک لگ گئی،آنکھوں پر لگی عینک تو لوگوں نے دیکھی لیکن اس کے پیچھے چشم پر آب کسی کو نظر نہ آئی۔ اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ گھونٹ کر سال در سال گزرتے گئے۔۔۔۔وقت پر لگا کر اڑتا رہا اور میں نان گرانٹ پر ہی ریٹائر ہوگیا۔*