انتشار اور شاہ ظل نور کی کہانی
انتشار بھائی سے برسوں کا یارانہ ہے۔آجکل وہ بہت پریشان رہتے ہیں ۔ان سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے تو وہ ہمیشہ ایک ہی بات کا رونا روتے رہتے ہیں ،یار میں موٹا ہورہا ہوں ۔مجھے اسمارٹ اور خوبصورت ہونا ہے ۔میں انہیں ہمیشہ کہتا ہوں کہ بھائی کم کھایا کریں اور واک کو زندگی کا لازمی حصہ بنالیں ۔اس طرح آپ اسمارٹ اور خوبصورت ہو جاؤگے ۔وہ ہمیشہ یہی کہتے ہیں ،یار روٹین نہیں بن رہی ،کوشش تو کرتا ہوں کہ کم کھاؤں اور ڈیلی واک کروں ،لیکن یہ ہو نہیں پاتا ۔انتشار بھائی کی عمر 29 سال ہے اور وہ ماشااللہ 50 سال کے نظرآتے ہیں ۔آج ان سے ملنے جوہر ٹاؤن چلا گیا ،کہنے لگے دوست ماہر نفسیات کے پاس جانا ہے ۔آجکل پریشان اور اکھڑااکھڑا سا رہتا ہوں ،یہ کیفیت برقرار رہی تو جلد گھر والے مینٹل ہسپتال جمع کرادیں گے ۔میں نے کہا ،چلو بھائی ،آپ کے ماہر نفسیات کے ہاں چلتے ہیں ۔دیکھتے ہیں وہ آپ کو کس طرح کے مشوروں سے نوازتے ہیں ۔ہم ماہر نفسیات کے پاس چلے گئے ۔ماہر نفسیات دیکھنے میں بہت اسمارٹ اور خوبصورت دیکھائی دیا ۔مجھے محسوس ہوا اس کی عمر 25 سال ہوگی ۔انتشار بھائی کا جب سیشن ختم ہوا ،تو میں نے ماہر نفسیات سے پوچھا ،سر آپ چھوٹی سی عمر میں کیسے ماہر نفسیات بن گئے ہیں؟مسکراتے ہوئے بولے ،بھائی میری عمر 50 سال ہے ۔غیر شادی شدہ ہوں اور خالص سبزی خور ہوں ،شاید اسی وجہ سے آپ کو 25 سال کا لگ رہا ہوں۔ماہر نفسیات صاحب بہت نفیس اور پڑھے لکھے دیکھائی دیئے اسی وجہ سے ان کے ساتھ دلچسپ گفتگو طوالت اختیار کرتی گئی ۔ماہر نفسیات کا نام شاہ ظل نور تھا ۔کچھ دیر گفتگو کے بعد اچھی علیک سلیک ہو گئی تو کہنے لگے، آپ مجھے میرے نام سے پکار سکتے ہیں ۔یہ بار بار ماہر نفسیات کہنے کے تکلف سے اب ہم دونوں کو نجات حاصل کر لینی چاہیئے ۔ان کی بات معقول تھی ،میں نے کہا شاہ ظل بھائی ، انسان اور خوراک کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ کہنے لگے انسان ویسا ہی ہوتا ہے، جیسی وہ خوراک کھاتا ہے۔ہم تمام انسان ویسے ہی دیکھائی دیتے ہیں جس طرح کی خوراک کھاتے ہیں ،انسان کی زندگی اور موت کا دارومدار خوراک پر ہوتا ہے ۔اس لئے خوراک انسان کی زندگی میں اہم ہوتی ہے۔وہ جو سبزیاں اور فروٹ کھاتے ہیں اور گوشت خوری نہیں کرتے ،وہ پرامن اور خوشگوار کیفیت میں رہتے ہیں ، زندگی کو خوب انجوائے کرتے ہیں ۔ان میں تشدد پسندی والا عنصر نہیں ہوتا ۔شاہ ظل نور نے بتایا ،کچھ روز پہلے وہ تاریخ کی ایک کتاب پڑھ رہے تھے جس میں یہ لکھا تھا کہ بھارت میں کچھ ایسے قبائل بھی ہیں، جو صدیوں سے گوشت خوری نہیں کررہے ،وہ صرف سبزیاں اور فروٹ کھاتے ہیں ۔کتاب کے مطابق ان انسانوں نے کبھی جنگ و جدل نہیں کی اور نہ ہی کبھی ایک دوسرے پر تشدد کیا ،وہ صرف خوشگوار زندگی کو انجوائے کرتے ہیں ۔شاہ ظل نور کا کہنا تھا کہ جنگ و جدل بھی وہ قومیں کرتی ہیں جو گوشت خوری ہوتی ہیں ، ۔گوشت خور انسانوں میں حساسیت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اس کے علاوہ یہ انسان محبت کی زبان سے بھی کم ہی واقف ہوتے ہیں ،یہ لوگ سخت دل ہوتے ہیں ۔کچھ گوشت خور انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جو محبت کے نام پر بھی انسان کا قتل کردیتے ہیں ۔گوشت خور انسان امن کے نام پر جنگیں کرتے ہیں ۔آزادی اور جمہوریت کے نام پر بھی ایسے لوگ قتل کرسکتے ہیں ۔شاہ ظل بھائی کا کہنا تھا کہ افریقہ میں کچھ ایسے قبائل ہیں جہاں غیر ملکی سیاحوں کا جانا ممنوع ہے ،جو غیر ملکی سیاح وہاں چلا جاتا ہے وہ ان کی خوراک بن جاتا ہے ،ان قبائل کو آدم خور قبائل کہا جاتا ہے ۔گوشت خوری انسان کو آدم خور بنا دیتی ہے ۔آدم خور وہ ہوتا ہے جس میں دل نہیں ہوتا ،وہ پتھر بن جاتا ہے ۔میں نے پوچھا جانوروں کو قتل کرنے والے انسانوں کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ کہنے لگے بھائی جو ہرن کا قتل کرتا ہے ،وہ بھی حساسیت اور محبت سے محروم انسان ہے ۔ہرن بھی تو کائنات کی خوبصورتی اور زندگی ہے ۔اس کے بھی تو بچے ہوتے ہیں ۔اس کی بھی تو ایسی ہی زندگی ہے جیسے انسان کی ہوتی ہے ۔صرف گوشت کے زائقے کا مزہ لینے کے لئے ہرن کو قتل کردینا کہاں کا انصاف ہے ؟ ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی ہے ،اس زمین سے ہر قسم کی خوراک اگانا آسان ہو گیا ہے ۔لیکن یہ انسان جانوروں کو قتل کررہے ہیں ۔میں نے کہا پھر کیسے انسان زندگی کے عادت و اطوار تبدیل کرے ؟شاہ ظل نے کہا بھائی تبدیلی تو انتہائی سادہ فارمولا ہے ۔گوشت خوری کم کرو یا پھرختم کرو ۔میں بھی تو 30 سال سے گوشت خوری نہیں کررہا ،کوئی فرق نہیں پڑا ۔گوشت کو دیکھ کر الجھن ہوتی ہے ۔یہ تمام انسانیت حساس اور محبت کرنے والی ہو سکتی ہے ۔جو لوگ تباہی کرکے زندہ رہتے ہیں وہ پھر تباہی سے ہی مرتے ہیں ۔بھائی ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اس کائنات کا وجود ہم سب کی وجہ سے ہے ۔یہ درخت ،جانور ،پرندے ہمارے بہن بھائی ہیں ،ہم سب فیملی ہیں ۔یہ سادہ فارمولا ہے جسے سمجھنا چاہیئے ۔میں نے پوچھا شاہ ظل بھائی کیا کھانا نوش کرنا بھی ایک آرٹ ہے؟شاہ ظل بھائی بولے ،کھانا کھانا دنیا کا سب سے خوبصورت آرٹ ہے ۔ادب اور تہذیب سے کھانا انجوائے کرنا چاہیئے ۔کھانا کھانے کا یہ مطلب نہیں کہ پیٹ کو بھرا جائے ۔کھانے کے زائقے کا مزہ لو ،اسے خوبصورت انداز میں کھاؤ۔اچھے طریقے سے خوراک کو چبانا چاہیئے ۔خوراک کو ہضم کرنا بھی ایک الہامی آرٹ ہے ۔کہتے ہیں جب کھانا کھایا جائے تو پھر سارا فوکس اس وقت کھانے پر ہونا چاہیئے ۔کیونکہ اچھے انداز میں خوراک کھانا بھی عبادت ہے ۔اتنا کھاؤ جتنا جسم کی ضروت ہے ۔جسم کی بھی زبان ہوتی ہے ،اس زبان کو بھی سمجھنا چاہیئے ۔اسی طرح انسانی جسم کے ہاضمے کے نظام کی بھی ایک زبان ہوتی ہے ،اس زبان کو بھی سمجھنا چاہیئے ۔یہی کھانے کا بہترین آرٹ ہے ۔ جانور بھی خوراک کھاتے ہیں اور انسان بھی ۔ان دونوں میں فرق کیا ہے ؟صرف جمالیاتی خوبصورتی کا فرق ہے ۔انسان کو کھانا جمالیات اسٹائل سے کھانا چاہیئے ۔خوبصورت طریقے سے کھائے اور دوست و احباب کے ساتھ مل کر کھائے ۔اس انداز میں کھانا کھایا جائے کہ سارا دن پھر خوراک یاد نہ آئے ،جب بھوک لگے تو پھر خوراک یاد آنی چاہیئے ۔یہی کھانا کھانے کا حسن ہے ۔آخر میں شرارت کرتے ہوئے میں نے شاہ ظل نور سے سوال کیا ،سر یہ بتائیں محبت اور خوراک کا آپس میں کیا تعلق ہے؟مسکراتے ہوئے فرمانے لگے ،اجمل شبیر بھائی محبت اور خوراک کا آپس میں گہرا تعلق ہے ۔وہ جو محبت کرتے ہیں اور جن سے محبت کی جاتی ہے ،وہ کم کھاتے ہیں ۔نفسیات دانوں کی ایک جدید تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ وہ جو بہت زیادہ کھاتے ہیں وہ نہ ہی محبت کرت ہیں اور نہ ہی کوئی ان سے محبت کرتا ہے ۔غیر شادی شدہ لڑکیاں شادی سے پہلے اسمارٹ اور خوبصورت ہوتی ہیں ۔جب شادی ہوجاتی ہے تو موٹی اوربدصورت ہو جاتی ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جب شادی ہو گئی تو محبت کی خواہش غائب ہو گئی اور زندگی روٹین میں آگئی روٹین لائف اسٹائل کی وجہ سے یہ شادی شدہ خواتین موٹی ہوجاتی ہیں ۔پھر کھانا ہی ان شادی شدہ لڑکیوں کی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے ۔نفسیات دانوں کے مطابق جس خاتون سے محبت کی جاتی ہے ،وہ کچھ نہ کچھ سیکھتی ہے ،وہ خوبصورت رہتی ہے ،موٹی نہیں ہوتی ،زیادہ کھانا بھی اسے پسند نہیں ہوتا اور محبت کو انجوائے کرتی ہے ،لیکن جب اسی سے شادی ہو گئی تو پھر کہاں کی محبت ،سب ہوا ہوجاتا ہے اور محبت مرجاتی ہے۔اس لئے گھروں میں خواتین موٹاپے کا شکار ہوجاتی ہیں ۔میں نے پوچھا شاہ ظل بھائی ،آپ انسان کی خوارک کے بارے میں کیا کہیں گے ؟کہنے لگے بھائی انسان دنیا میں وہ واحد مخلوق ہے جس کی خوراک کی پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی ۔ہر جانور کی ایک خوراک ہوتی ہے اور اسی کو وہ انجوائے کرتا ہے ۔اور وہ خوراک اس کی جسمانی ضرورت کے مطابق ہوتی ہے اور فطری ہوتی ہے ۔ہر جانور ،چرند پرند فطرت کے اصولوں کے مطابق کھانا انجوائے کرتا ہے ۔لیکن انسان تو ہر جگہ منہ مارتا نظر آتا ہے ۔کتنا کھانا ہے ؟کیا کھانا ہے؟کب کھانا ہے؟اس حوالے سے انسان بھرپور جہالت دکھاتا ہے ۔اس کی خوراک کھانے کا انداز غیر فطری اور غیر یقینی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ موٹا ہوجاتا ہے ،وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے ۔اسے ہارٹ اٹیک ہوجاتا ہے ،بلڈ پریشر اور شوگر ہوجاتی ہے ،ایسا کچھ جانوروں کے ساتھ نہیں ہوتا ۔کیونکہ وہ فطری اصولوں کی پیروی کرتے ہیں ۔انسان کو معلوم ہونا چاہیئے کہ وہ کیمیائی عناصر کا مجموعہ ہے ۔اس کے پورے جسم کا عمل کیمیائی ہے ۔اس لئے انسان کو کھانا کھانے کا شعور ہونا چاہیئے ۔کیا کھانا ہے ،کتنا کھانا ہے اور جسم کی کیا ضرورت ہے؟اس بارے میں انسان کو آگاہ رہنا چاہیئے ۔اسی طرح سے ہی وہ محبت ،آزادی اور خوبصورتی کو انجوائے کرسکتا ہے ۔شاہ ظل بھائی نے انتشار بھائی کو چھیڑتے ہوئے کہا ،اگر ایسا انسان نہیں کرے گا تو پھر یہ ساری دنیا ہی بھائی انتشار جیسی ہوجائے گی اور پھر ہر طرف انتشار ہی انتشار ہوگا ۔اس بات پر انتشار بھائی سمیت ہم سب نے قہقہہ لگایا ۔یہی پر گفتگو کا اختتام ہوا ۔میں نے اور انتشار بھائی نے شاہ ظل نور سے اجازت چاہی اور گھر کو روانہ ہوگئے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔