سوال: آپ اعوان خاندان کے چشم و چراغ ہیں ۔ مختصر تعارف کرائیں ۔
جواب : الحمدللہ میرا تعلق اعوان گھرانے سے ہے ۔ میرے دادا مرحوم نمبردار فرمان علی اعوان علاقے کی معزز ترین شخصیت تھے اور سات دیہات کے نمبردار تھے ۔ علاقے کے زیادہ تر فیصلے آپ ہی کرتے تھے اور کبھی کسی کی جرأت نہ ہوتی تھی جو آپ کا فیصلہ نہ مانے ۔ میرے والد عبدالغنی اعوان بھی اہلِ علاقہ کے اکثر و بیشتر معاملات جرگے میں حل کر دیتے ہیں ۔ مظفرآباد میں آپ کو بھی نمبردار کِہ کر پکارا جاتا ہے ہرچند اب نمبر داری والا نظام ختم ہو چکا ہے ۔ میری پیدائش (دستیاب ریکارڈ کے مطابق) 16 مارچ 1982ء کو جمعرات کے روز سویرے چار بجے لوئر چھتر مظفرآباد میں ہوئی ہے محلے کے ایک بزرگ محمد مسکین بابا نے میرے بڑے بھائی شہزاد سے قافیہ ملا کر فرہاد نام تجویز کیا ۔ مجھ سے بڑے ایک بھائی شہزاد احمد اعوان ہیں ، چھوٹی بہن مہوش غنی اور سب سے چھوٹا بھائی حماد احمد اعوان ہیں ۔ تقریباً چالیس واسطوں سے شجرہ نسب شیرِخدا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ علیہ سے ملتا ہے جو کچھ یوں ہے ۔ فرہاد احمد فگارؔ بن عبدالغنی اعوان بن نمبردار فرمان علی بن قمر علی بن احمد علی بن مہر دین بن محمد ولی بن سلطان محمد خان بن بسی محمد خان بن لعل خان بن کمال خان بن معراج خان بن جنگ خان بن راج خان بن داری خان بن بیر خان بن فتح محمد خان بن طوطہ خان بن طیب خان بن میر حیدر خان بن شاہ نواز بن شاہ نواب بن خلیل(کھیلا) بن بخاری شاہ بن امیر حیدر خان بن شاہ محمود بن شاہ عزت بن شاہ خلیل (کھلی) بن کرم علی بن مزمل علی کلگان بن سالار قطب حیدر شاہ غازی (قطب شاہ ثانی) بن عطا اللّٰہ غازی بن طاہر غازی بن طیب غازی بن شاہ محمد غازی بن شاہ علی غازی بن محمد آصف غازی بن عون قطب شاہ غازی بن علی عبدالمنان بن حضرت محمد الاکبر محمد حنفیہ بن حضرت علی ؓبن حضرت عبدالمطلب ۔
سوال : آپ کا ادب کی طرف کب اور کیسے رجوع ہوا ؟
جواب : ادب شاید میری گھٹی میں پڑا تھا ۔ بات دراصل یہ ہے کہ میٹرک کے بعد مجھے شوق ہوا انجینئرنگ کرنے کا اور والد محترم نے میرے شوق کا احترام کرتے ہوئے مجھے پشاور کے سرکاری ٹیکنیکل کالج میں داخلہ بھی دلوا دیا ۔ وہاں کچھ دوست شعر سناتے رہتے یوں میرا بھی ادب کی طرف کسی قدر رجحان ہوا ۔ مطالعے کا شوق بچپن سے ہی تھا ۔ دادا مرحوم میرے لیے ٹارذن ، عمرو عیار اور دیگر بچوں کی کہانیاں لاتے یوں میں وہ کہانیاں نہ صرف خود پڑھتا بل کہ دوستوں کو بھی مطالعے کے لیے دیتا ۔ سن 2001ء میں پشاور چھوڑ دیا اور انجینئرنگ کو خیر باد کِہ کر مظفرآباد واپس آ گیا ۔ میرے بہنوئی واجد یونس اعوان کو شاعری کا شوق تھا اور وہ قافیہ پیمائی کرتے رہتے یوں ان کو دیکھ کر مجھے بھی شعر کہنے کا شوق ہوا ۔ المختصر میں باضابطہ شاعر تو نہ بن سکا البتہ قلم و قرطاس سے تعلق استوار ہو گیا ۔
سوال : اپنی ادبی خدمات سے قارئین کو متعارف کرایے گا ۔
جواب : میں سمجھتا ہوں میں ابھی طفلِ مکتب ہوں ادبی خدمات زیادہ تو نہیں تاہم میں اردو زبان سے محبت کرتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں زبان و ادب کی خدمت کر سکوں ۔ میں نے باضابطہ طور پر2010ء میں شعر کہنا شروع کیا ۔ تک بندی تو پہلے سے کرتا تھا مگر شعری رموز سے ناآشنا تھا اس لیے کالم نگاری بھی شروع کی ۔ مظفرآباد کے ایک روزنامہ اخبار ”صبحِ نو” سے منسلک ہوا ۔ کالم نگاری کے بعد ادبی شخصیات کے انٹرویوز مقامی ہفت روزہ کے لیے کرتا رہا ۔ پہلی کتاب ”احمد عطا اللّٰہ کی غزل گوئی” جنوری2020ء میں منظرِ عام پر آئی۔ ایک کتاب ”آزاد کشمیر میں اردو شاعری” تدوین کر کے شائع کروائی ۔ ملکی اور غیر ملکی اخبارات میں زبان و ادب پر کالم شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ میری ادارت میں آزاد کشمیر کے ضلع نیلم سے
پہلی مرتبہ کالج میگزین ”بِساط“جاری ہوا ۔ ”بساط” ضلع نیلم سے شائع ہونے والا اولیں اور تاحال آخریں کالج میگزین ہے ۔ اب تک اس کے دو شمارے شائع ہو چکے ہیں جب کہ تیسرا زیرِ ترتیب ہے ۔ آزاد کشمیر ٹیکسٹ بک بورڈ سے شائع ہونے والی جماعت یاذدہم کی اردو درسی کتاب کا مدیر بھی ہوں ۔ اس کے علاوہ جماعت اول تا پنچم شائع ہونے والی اردو درسی کتب کی نظر ثانی کمیٹی کا حصہ ہوں ۔
سوال : آپ کا زیادہ تر رجحان نثر کی طرف ہے یا نظم کی طرف ۔؟
جواب : میں شعر سے زیادہ نثر پر کام کرتا ہوں اور نثر میں تحقیق زیادہ پسند ہے ۔ میری شائع ہونے والی اور آمدہ تصانیف سبھی تحقیقی ہیں ۔ علاوہ ازیں میرے مضامین اور کالم بھی زیادہ تر تحقیقی یا سوانحی ہوتے ہیں ۔
سوال : علامہ اقبال سے جو دوسرے شعرا کے اشعار منسوب ہیں آپ نے اس پر کالم لکھے ہیں ۔ تھوڑا قارئین کو آگاہ کریں ۔ ؟
جواب : اقبال ہمارے ایسے شاعر ہیں جن سے ہرخاص و عام خوب واقف ہے یہی وجہ ہے جو بھی شعر ملتا ہے وہ اقبال کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں ۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا کردار خاصا اہم رہا کہ جنھوں نے اقبال کے نام کئی دیگر شعرا کے اشعار تو لگائے ساتھ کئی خارج الوزن چیزیں بھی اقبال کے کھاتے میں ڈال دیں ۔ میں نے اس حوالے سے اکثر اشعار کی تحقیق کی اور اصل شاعر اور درست صورت میں قارئین کے سامنے لائے۔ مثلاً
اللّٰہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
یہ سرفراز خان بزمیؔ کا کلام ہے جو اقبالؔ کے نام سے غلط مشہور ہے ۔
کیا ہنسی آتی ہے مجھ کو حضرت انسان پر
فعلِ بد تو ان سے ہو لعنت کریں شیطان پر
یہ انشاء اللّٰہ خان انشاء ؔکا شعر ہے جو تحریف کر کے اقبال کے نام سے مشہور ہے ۔
اسی طرح:
لکھنا نہیں آتا تو میری جان پڑھا کر
ہو جائے گی مشکل تری آسان پڑھا کر
ڈاکٹر آصف پراچہ کا کلام ہے جن کا تعلق سرگودھا سے ہے ۔ اسی طرح بہت سے اشعار کو ان اصل شاعر کے نام کے ساتھ عوام تک پہنچایا میں نے ۔
سوالں: کہا جاتا ہے کہ شاعر یا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا آپ کیا کہیں گے ؟
رانا سعید دوشیؔ صاحب کے مطابق:
مرحلہ بیچ کا نہیں ہوتا
عشق ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
اسی طرح اکثر دوستوں کا خیال ہے کہ شاعر عشق کی طرح یا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات خاصی حد تک درست ہے ۔ شاعری میں کچھ چیزیں انسان سیکھ سکتا ہے جیسے رموز یا الفاظی مگر شاعری میں ایک اہم اور بنیادی چیز خیال ہے جو سیکھے سے نہیں سیکھا جا سکتا ۔ آج کل کے دور میں شاعر کم اور متشاعر زیادہ ملتے ہیں ۔ میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں سات سات مجموعے چھپ چکے لیکن شعر ایک بھی نہ نکال سکے ۔ لہذا یہ بات سچ ہے کہ شاعر بنایا نہیں بنایا جا سکتا ۔ ڈاکٹر افتخارؔ مغل کہتے تھے کہ ”اگر شاعر بنایا جا سکتا تو میں اپنے بیٹے کو بناتا۔”
سوال : آپ نے ادب میں کون سا منفرد کام کیا ؟
جواب : دعا کریں کچھ ایسا ہو جائے جو انفرادیت کا حامل ہو ۔ میں نے جو بھی کام کیا وہ اپنی تسلی و تشفی کے لیے کیامیرا خیال ہے کہ اس سوال کا جواب قاری دے تو زیادہ مناسب ہے کہ اس کو کون سا کام منفرد لگا ۔ ویسے آزاد کشمیر میں لسانیات پر کام کرنے والا میں ہی ہوں جو پی ایچ ڈی کی سند کے لیے اردو املا و تلفظ پر مقالہ لکھ رہا ہے ۔
سوال : آپ کشمیر کے ادب پر تھوڑی روشنی ڈالیں ۔
عبداللّٰہ حسین مرحوم سے ایک نشست میں بات ہوئی کہ ادب میں نثر کی نسبت شاعری زیادہ ہے تو ان کا کہنا تھا کہ نثر اور ناول لکھنے میں وقت اور محنت زیادہ لگتے ہیں جب کہ شعر میں وقت انتہائی کم لگتا ہے ۔ یہی وجہ ہے لوگ ناول نگاری میں طبع آزمائی کم کرتے ہیں ۔ یہ بات سچ ہے ہمارے آزاد کشمیر میں بھی نثر کے مقابل شعر پر زیادہ توجہ دی گئی ۔ شعر کہنے والوں میں ڈاکٹر افتخار مغل ، ڈاکٹر صابر آفاقی ، عبدالعلیم صدیقی(کلام اقبال فارسی، کلام مولانا روم اور کلام شیخ سعدی کا منظوم ترجمہ کرنے والے)، نذیر انجمں، احمد شمیم ، الطاف قریشی ، یامین ، زاہد کلیم ،احمد عطااللّٰہ ڈاکٹر آمنہ بہار، واحد اعجاز میر ، ڈاکٹر ماجد محمود ، اعجاز نعمانی ، رفیق بھٹی ، سید شہباز گردیزیں، آصف اسحاق اور مخلص وجدانی، سعید ارشد سمیت کئی نام ہیں جنھوں نے آزادکشمیر کے شعری ادب میں اپنا حصہ ڈالا ۔
سوال : چند نمائندہ اور منتخب اشعار سے نوازیے ۔
جواب : میں کل وقتی شاعر نہیں بس کبھی کبھار کوئی شعر ہو جائے تو کہہ لیتا ہوں ۔ الحمدللّٰہ میرے بعض شعروں کو خاص پذیرائی ملی جن میں سے کچھ اشعار سنا دیتا ہوں۔
شمعِ اسلام جس سے فروزاں ہوئی
وہ لہو مصطفیٰ (ص) کے گھرانے کا ہے
جا چکے توڑ کے جو رابطے مجھ سے سارے
میں نے ان سے بھی تعلق کو بنا کے رکھا
عشق میں ہیں صعوبتیں ایسی
مجھ کو ہر پل نڈھال رکھتی ہیں
مزدوروں کے نام پہ اب کے بھی
کچھ لوگوں نے صرف سیاست کی
وہ جو مزدور بناتے ہیں محل اوروں کے
ان کا اپنا کوئی گھر بار نہیں دیکھا ہے
ایک مفلس کا جھونپڑا جس سے
آرہی ہے صدا سکوں کی مجھے
میری نسبت ہے علیؓ سے ، ہے نسب میراوہی
سب صحابہؓ میرے دل میں اور محمد ہیں نبی
گہری،شدید گہری ہیں شب کی اداسیاں
ایسے میں تیری یاد نہ آئے تو کیا بنے
سوال : ماشاء اللّٰہ آپ جوان ہیں اور آپ کا ادبی جذبہ بھی جوان ہے ۔ اس ادبی میدان میں آپ کس حدتک جانا چاہتے ہیں ۔؟
جواب : میں پی ایچ ڈی کی تکمیل کے بعد ایک خالص ادبی مجلہ شائع کرنا چاہتا ہوں ۔ علاوہ ازیں میری خواہش ہے کہ ادب میں جہاں تک ممکن ہو کام کیا جائے تا کہ آنے والی نسلوں کے لیے کچھ تو ہو ۔ اردو زبان سے ہمارے طلبہ کی غیر سنجیدگی دیکھ کر افسوس ہوتا ہے میں اپنی اس زبان کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں ۔ یہ زبان ایسی ہے جو صرف محبت والوں کی زبان ہے اسے زندہ رہنا ہے ۔ بہ قول شاعر
اتری ہے مرے واسطے یہ آسماں سے
ساری زبانیں چھوٹی ہیں اردو زباں سے