۲۰۱۷ میں نیویارک سے ، ایک معاشیات میں پی ایچ ڈی اور گوگل کے ڈیٹا analyst سیٹھ اسٹیفنز نے ایک کتاب every body lies کے عنوان سے لکھی ۔ یہ کتاب نہ صرف نیویارک ٹائمز بیسٹ سیلر بنی بلکہ انٹرنیٹ کنزیومرز کی دنیا میں بائیبل کا درجہ رکھتی ہے ۔ سیٹھ کے الفاظ میں مستقبل کا کارل مارکس یا سگمنڈ فرائیڈ یقیناً کوئ ڈیٹا سائینٹسٹ ہو گا ۔ ساری ریسرچ ، دراصل سارا ہی nurture والے impact کا بیانیہ ہے ہے ڈیٹا کی بنیاد پر ۔ سیٹھ اسی کتاب میں کہتا ہے کے بہت ساری ریسرچ اس طرف بھی اشارہ کرتی ہے کے عادات بھی بہت سارے انداز میں اثر ڈالتی ہیں
habits are contagious
سیٹھ نے نیویارک سٹی کی مثال دی جہاں غریب بھی زیادہ لمبے عمر گزارتا ہے کیونکہ وہ لمبی عمر کے امیر وہاں دیکھتا ہے اور اس سے ہمت پکڑتا ہے ۔
اس سارے کھیل میں میرے نزدیک ، کوئ بھی ایک پہلو یا زاویہ حتمی نہیں ہوتا ۔ انسانی زندگی اور اس کے معاملات بہت complex ہیں ۔ ان کو ایک ہی lens سے پرکھا یا دیکھا نہیں جا سکتا ۔ ہم روحانی لوگ تو اسے مزید یہ گردان کر بھی مزید complicate کر دیتے ہیں کے پر شخص یہاں منفرد یا یونیک ہے ۔ اسے اپنے انفرادی پن کو جاننے کے لیے روحانیت کی ضرورت ہے نہ کے الٹے سیدھے ڈیٹا کی ۔ ہمیں سب کچھ روح کی روشنی کے تابع لانا ہو گا ۔ اس دنیا میں کنٹرول اور طاقت کی خاطر جی بلکل آپ کو ڈیٹا کی ضرورت ہے ، ہیومن سائیکولوجی کو سمجھنے یا manipulate کرنے کے لیے ڈیٹا کی ضرورت ہے ۔ یہ درست ہے اوباما اپنا ۲۰۱۲ کا الیکشن اور ٹرمپ ۲۰۱۶ کا مناسب ڈیٹا کی مناسب access کی وجہ سے جیتا اور یہ بات بھی سو فیصد درست ہے کے فیس بُک کا بزنس ماڈل سارے کا سارا ہی ڈیٹا کے زور پر پھل پھول رہا ہے ۔
معاشیات اور سیاسیات میں تو ڈیٹا ضروری تھا ہی لیکن معاشرتی تعلقات اور انسانی نفسیات میں بھی ڈیٹا بہت زبردست رول پلے کر رہا ہے ۔ صدر ٹرمپ نے تو سارا انحصار ہی اپنی سماجی رابطوں کے لنک ٹوئیٹر پر رکھا ہوا ہے ۔ اس پر سیٹھ نے بہت اچھا لفظ استمعال کیا کے اس کے زریعہ it was easy to game the system ۔ سارا معاملہ ہی کنٹرول کا یا سسٹم کو گیم کرنے کا ہے ۔ سیٹھ نے اس میں گھوڑوں کے لیے pedigree کی بھی مثال دی جو اس کے نزدیک اب اتنی موثر نہیں رہی اور اب الٹرا ساؤنڈ کے زریعے گھوڑے کے دل اور تلی کے سائز کا پتہ لگایا جاتا ہے ۔ اگر کسی گھوڑے کے دل کا بائیاں وینٹریکل بڑا ہے یا اس کی تلی بڑی ہے تو وہ دوڑ میں بہت اچھا ہوتا ہے لہٰزا اب پڈگری کے ساتھ ان چیزوں کو بھی دیکھا جاتا ہے ۔ خاندان یا pedigree کو تو سیٹھ نے یہ مثال دے کر بھی رد کیا کے یہ تو انسانوں ہر بھی فیل ہو گئ ، مشہور کھلاڑی مائکل جارڈن کے دونوں بیٹے کالج لیول تک بمشکل کھیل سکے ۔
بہرکیف بہت سارے عناصر ہیں جو ان چیزوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں ان سب کا احاطہ کسی ایک عنصر سے بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے ۔ یہی تو قدرت کا رنگ ہے، قدرت کی طاقت اور کمال ۔ آپ بقول سیٹھ crowd source تو کر سکتے ہیں مختلف معلومات کو کسی بھی اخبار یا رسالہ کے لیے لیکن ان کو آپ حتمی نہیں کہ سکتے دوسروں کے بارے میں ۔ آپ زیادہ سے زیادہ ان کی بنیاد پر کوئ stereotype تو شاید create کر پائیں لیکن حقیقت سے بہت دور ۔ سیٹھ جو گوگل کے لیے کام بھی کرتا ہے کہتا ہے کے اس کے نزدیک گوگل اس وجہ سے مقبول نہیں ہوا کے اس کے پاس باقی سرچ انجن سے زیادہ ڈیٹا تھا یا ہے ، بلکہ وہ بہتر اور مناسب ڈیٹا کی بنیاد ہر جیتا ، اصل میں ، وہ ساری معلومات جو لوگوں کو چاہیے ۔
سیٹھ کی کتاب میں دو تین مثالیں مجھے بہت دلچسپ لگیں جیسے ایک میں اس نے کہا کے قرض لینے والے فارم یا درخواست میں درخواست دہندہ کے کونسے ایسے الفاظ عموماً نادہندہ بننے والے ہوتے ہیں ؛
God, Promise,Will Pay, Thank You
اور ڈیٹا یہ بھی بتانے میں مدد فراہم کرتا ہے کے امریکی موسمی طوفان سے پہلے وال مارٹ پر strawberry pop tarts
بہت زیادہ بکتے ہیں ۔ ہر کوئ اپنے مقصد کے لیے ڈیٹا اکٹھا کر سکتا ہے اور اس سے کھلواڑ بھی جتنی چاہے تو کر لے کوئ آخیر نہیں ۔ ریاستیں اس سے بہت فائیدہ بھی اُٹھا سکتی ہیں اگر حکمرانوں کی نیت قومی خدمت ہو اور بہت نقصان بھی اگر فتنہ ، فساد اور تباہی ان کے اہداف ہوں ۔
یہ سارا انٹرنیٹ کا ڈیٹا میرے نزدیک ایک سمندر کی طرح ہے ۔ آپ اس سے فائیدہ بھی اُٹھا سکتے ہیں اور اس میں ڈوب کر مر بھی سکتے ہیں ۔ اس کا بہاؤ اب روکنا ناممکن ہے ۔ میں اپنا موبائیل فون صرف چھ سے آٹھ گھنٹہ تک آن رکھتا ہوں وہ بھی جس دن بلاگ نہ لکھنا ہو مکمل بند ۔ اسی کتاب میں سیٹھ اسٹیفن نے کہا ہے کے ابھی تو یہ tip of the tip of the iceberg
ہے یا کہ لیں a scratch on the scratch of the surface
آپ کی مرضی ہے کتنا آگے جانا ہے یہ تو نہیں رُکنے والا ۔ آپ کی مرضی ، آپ اپنی gut feelings سے فیصلہ کرتے ہیں ، اپنی روح کو منور کر کے جینا ہے یا دادی اماں کہتی تھی کے اگر کالی بلی سامنے سے گزر گئ تو اس دن کچھ نہیں کرنا یا پھر یہ لامحدود انٹرنیٹ ڈیٹا ۔ چوائس آپ کے پاس ہے ، جسے کلنٹ واٹس نے کہا تھا کے اپنی شناخت کو کبھی ہیک نہ ہونے دینا ۔
میں کراچی میں سمندر پر جس اپارٹمنٹ میں شفٹ ہوا اس کی سمندر کو facing ساری کھڑکیاں میرے سے پہلے مکین نے بند کروا دیں تھیں کیونکہ اس خاتون کا اکلوتا بیٹا اس سمندر میں ڈوب کر انتقال کر گیا تھا ۔ وہ ہر روز صبح شام سمندر کو کوستی تھی ، جب کھڑکیاں بند کرنے سے بھی چین نہ آیا تو لاہور منتقل ہو گئ ۔ سمندر وہیں رہے گا ، کائنات کی ہر چیز ، اس انٹرنیٹ ڈیٹا سے لے کر پرند چرند درخت سب یہیں now میں رہیں گے ہمیشہ ہمیشہ ۔ اگر رہے گی نہیں تو یہ روح جس نے بہرکیف ایک نہ ایک دن اس جسم کو چھوڑ جانا ہے ۔ اس کی فکر کریں ۔ اس کے ساتھ وابستگی والی زندگیاں گزاریں ۔
بہت خوش رہیں ۔ اللہ تعالی آپ سب کا حامی و ناصر ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...