اگر ہم اپنے اطراف نظر دوڑائیں تو ہمیں بعض لوگ بہت زیادہ فعال اور سرگرم نظر آتے ہیں۔ اپنی زندگی کے علاوہ وہ اپنے اطراف کے لوگوں کی زندگی پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں ہوتے۔ یہ کتاب انتہائ اثر انداز ہونے والے افراد کی اُن سات عادات کے بارے میں ہے جن کی وجہ سے وہ لوگوں میں ممتاز ہوتے ہیں۔ اس کتاب میں کامیابی کو صرف نوکری کرتے ہوئے حاصل ہونے والی کامیابی نہیں قرار دیا گیا ہے بلکہ زندگی میں تقریباً ہر میدان کامیابی حاصل کرنے کے بارے میں بات کی گئ ہے۔ اس کتاب کی قبولیتِ عام کو اس طرح جانچا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب امریکہ میں سب سے پہلے 1989 میں شایع ہوئ تھی لیکن اب تک اس کے ایڈیشن شایع ہورہے ہیں اور اس کتاب کی کل ڈھائ کروڑ کاپیاں بک چکیں ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہاں دو ملکوں پاکستان اور امریکہ کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا لیکن ترجیحات کا فرق ضرور نظر آجاتا ہے۔
اس تحریر کا مقصد کتاب کا اقتباس پیش کرنا ہے اگر پسند آئے تو ضرور حاصل کرنے کی کوشش کریں
اگر آپ یہ سات عادات اپنا لیتے ہیں تو یہ عادات مندرجہ ذیل عمومی مشکلات سے نمٹنے میں آپ کی مدد کریں گی
۔ خوف
۔ فوری نتیجہ کی ضرورت
۔ دوسروں کی شکایت کرنا اور اپنے آپ کو مظلوم سمجھنا
۔ مایوسی اور نا اُمیدی
۔ زندگی میں توازن کا نہ ہونا ۔ وقت کا انتظام اور کارکردگی
۔ خود غرضی ۔ میرے لئے اس میں کیا ہے، یا میں کیوں کامیابی حاصل نہیں کرسکا
۔ سمجھنے کی ضرورت۔ اثر لینا یا دوسروں پر آثر انداز ہونا
۔ تنازعہ اور اختلاف
۔ذاتی ارتکاز۔ ۔۔ منبع اور معنی کا ادراک کرنا
کتاب کے پہلے حصے کا نام " Paradigms And Principles" ہے یعنی " مثالیں اور اصول"۔ اس میں کتاب میں بیان کی گئی سات عادات کا اجمالی جائزہ لیا گیا ہے۔
کتاب کئے دوسرے حصے کا نام " Personal Victory " یعنی " ذاتی فتح" ہے، اس میں تین عادات کو بیان کیا گیا ہے
۔۔۔ ہر وقت فعال رہنا
۔۔۔ منزل کو سامنے رکھتے ہوئے ابتدا کرنا
۔۔۔ چیزوں کو ترتیب سے رکھنا
کتاب کے تیسرے حصے کو "Public Victory " یعنی "عوامی فتح" کا نام دیا گیا ہے، جس میں مزید تین عادات کو بیان کیا گیا ہے
۔۔۔Think Win/Win یعنی اپنی اور دوسروں کی فتح کا ساتھ ساتھ سوچنا
۔۔۔ Seek first to understand, then to be understood یعنی قبل اس کے کہ آپ کو سمجھا جائے، دوسروں کو سمجھنے کی کوشش کرنا
۔۔۔Synergize یعنی ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر، کھلے دل سے اس طرح سے کام کرنا کہ پرانے مسئلوں کا نیا حل تلاش کیا جائے
اس کے بعد کتاب کے آخری حصے "Renewal" میں ساتویں عادت کو بیان کیا گیا ہے جسے " Sharpen the saw" کا نام دیا گیا ہے۔ مختصراً یہ کہ انسان اپنی صحت کا خیال رکھے، اپنی روحانی، ذہنی، اور سماجی ہم آہنگی کی طرف توجہ دے۔
اس کتاب پر مزید لکھنے سے پہلے ایک بات لکھنی ضروری ہے اور وہ یہ مغرب ( بشمول امریکہ، کینیڈا، یورپ) میں پہلے تو ایک انتہائ مضبوط کلیسا کا نظام تھا جو بادشاہ اور جاگیرداروں کے ساتھ مل کر لوگوں پر پنجے گاڑے ہوئے تھا اور منطق اور دلیل پر مبنی کسی بات کی کوئ سنوائ نہیں تھی۔ پھر ان طاقتوں کے خلاف تحریک چلی اور بادشاہت، جاگیرداری اور مذہبی پنڈتوں کو معاشرت سے اگر نکال کر پھینکا نہیں گیا تو اُن کے کردار کو ممکن حد تک محدود کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پھر صنعتی انقلاب کی شروعات ہوئیں۔ سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظام کی کشمکش شروع ہوئ۔ ان سب باتوں کے درمیان انسان کو بحیثیت انسان بہت غور سے دیکھا گیا اور انسان کی نفسیات پر بہت تحقیق ہوئ۔
اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ ایک طرف تو مغرب نے مزہب کو زندگی سے نکال کر باہر پھینکا، لیکن صنعتی انقلاب کے بعد ایجادات کا جو سلسلہ پیدا ہوا تو انسان نے مادّی کامیابی تو بہت حاصل کی لیکن اپنا روحانی سکون کھو بیٹھا۔ اب مذہب کی طرف واپس لوٹنا ایک مشکل کام تھا کیونکہ یہ مزہب ہی تھا جو انسان کی سائنسی ترقی میں رکاوٹ بن کر کھڑا تھا۔ اخلاقیات کا جنازہ اس طرح سے نکل گیا تھا کہ لوگ صرف سامنے سامنے ہی اچھا نظر آنے کی کوشش کرتے تھے۔ ایسے میں انسانی نفسیات پر تحقیق ہوئ اور بہت ہوئ۔ انسان کی مختلف عادات پر غور کرکے یہ نتیجہ اخز کرنے کی کوشش کی گئ کہ اُن کا انسان کی زندگی پر کیا اثر ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جب مغرب میں ایجادات کا سلسلہ چلا تو اُس کے اوپر بھی لوگ چونکنا شروع ہوگئے اور اس بات کا پتہ چلانے کی کوشش کی گئ کہ یہ ایجادات کیا اتفاقیہ ہو رہی ہیں یا ان کے پیچھے کچھ ضابطے کار فرما ہیں۔ جلد ہی تحقیق کاروں نے یہ پتہ چلا لیا کہ یہ تو ہے کہ کچھ لوگوں میں سوچنے کی صلاحیت باقی لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے لیکن اگر دنیا کے سارے لوگوں کے ذہن کو تربیت دی جائے تو ایجاد کوئ بھی کرسکتا ہے۔ اب جو بھی انسان زندگی میں آگے بڑھنا چاہتا ہے وہ کیا کرے کہ وہ آگے بڑھ سکے۔ زیرِ نظر کتاب ان کتابوں میں سے ایک کتاب ہے جن کی توجہ انسانی رویوں پر ہے۔ اس کتاب کو شایع ہوئے پچیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اور کتاب کے سرِورق پر یہ لکھا ہوا ہے کہ اب تک اس کتاب کی ڈھائ کروڑ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ مغرب میں جس طرح کتب بینی کا رحجان ہے اُس میں یہ دعویٰ غلط نہیں لگتا۔
پچھلی صدی کو اگر ہم ایجادات کی صدی کہیں تو غلط نہ ہوگا، لیکن ان ایجادات کی غالب اکثریت مغرب میں وقوع پزیر ہوئیں ہیں، کیا یہ محض اتفاق ہے؟؟؟ ایسا مشرق میں کیوں نہیں ہوا اور رفتار میں مغرب خرگوش کی طرح اور مشرق کچھوے کی طرح کیوں ہے۔ اس کی ایک وجہ مغرب میں انسانوں کی تربیت پر وسائل مختص کرنا ہے۔ مغرب میں انسان اپنی ذاتی زندگی میں کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن اجتماعی زندگی میں اُسے معاشرے کا کار آمد فرد بننا ہے۔ لیکن یہ بات اَگے چل کر مغرب پر بھی آشکار ہوگئ کہ ایک انسان کے لئے کہ وہ معاشرے کا اچھا فرد بنے ضروری ہے کہ وہ اندر سے تضادات کا شکار نہ ہو، اس لئے انسان کی ذاتی زندگی میں مداخلت کئے بغیر اس بات کی کوششیں کی گئ ہیں کہ انسان کو اُس کے اندرونی تضادات سے چھٹکارا حاصل کرنے کے قابل بنایا جائے۔ یہ کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کتاب ہے۔
سات عادات۔ ایک جائزہ
ہماری شخصیت وہی ہے جو ہم بار بار عمل کرتے ہیں
کمال، پھر ایک عمل نہیں ہوتا، بلکہ عادت ہوتی ہے
(ادسطو)
ہمارا کردار ہماری عادات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ آپ ایک سوچ کا بیج بوئیں گے تو عمل کی فصل اُگے گی، اگر ایک عمل کا بیج بوئیں گے تو عادات کی فصل اُگے گی، اگر عادات کا بیج بوئیں گے تو کردار کی فصل کاٹیں گی، اگر کردار کا بیج بوئیں گے تو تقدیر کی فصل بوئیں گی (رالف والڈو ایمرسن)
عادات ہماری زندگی کا طاقتور عنصر ہوتی ہیں۔ کیونکہ وہ متواتر ہوتی ہیں، اکثر بے ساختگی کے ساتھ، یہ مستقل، روزانہ، ہمارا کردار ظاہر کرتی ہیں اور ہماری افادیت یا عدم افادیت ظاہر کرتی ہیں۔
جیسے کہ Horace Mann، ایک عظیم معلّم، نے ایک دفعہ کہا تھا، " عادات اُون کے دھاگوں کی طرح ہوتی ہیں جن کو ہم روز بنتے ہیں اور جلد ہی وہ توڑی نہیں جا سکتیں"۔ میں ذاتی طور پر اس عبارت کے آخری حصّے سے اتِفاق نہیں کرتا۔ میں جانتا ہوں کہ عادات سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ عادات کو اپنایا بھی جاسکتا ہے اور اُن سے چھٹکارا بھی حاصل کیا سکتا ہے۔ لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ یہ جلدی میں ممکن نہیں ہے۔ یہ ایک پورا عمل ہے اور اس میں بھرپور وابستگی درکار ہے۔
ہم میں سے جس نے بھی اپالو ۱۱ کا چاند کی طرف سفر دیکھا تھا وہ پہلے انسان کو چاند پر چہل قدمی کرتے، زمین پر واپس آتا دیکھ کر حیران و ششدر رہ گیا تھا۔ اعلیٰ ترین الفاظ، جیسے "بہترین" اور " ناقابلِ یقین" بھی اُن واقعات سے بھرپور ایام کو بیان کرنے کے لئے ناکافی ہیں۔ لیکن وہاں تک پہنچنے کے لئے، اُن خلا نوردوں کو کششِ ثقل کی زبردست طاقت کو زیر کرنا پڑا تھا۔ پرواز کے ابتدائ چند لمحات، اور بلندی پر پہنچنے کے لئے طاقت کا زیادہ استعمال کرنا پڑا تھا، نسبتاً اگلے چند دنوں میں جبکہ آدھے ملین میل کا سفر طے کیا گیا۔
عادات، کی بھی، انتہائ زبردست کششِ ثقل ہوتی ہے—-اس سے بھی زیادہ جن کا اکثر لوگوں کو احساس ہو یا وہ اسے تسلیم کریں۔ انتہائ پختہ عادات، جیسے تاخیر کرنا، بے صبری، نزاکت پسندی، یا خود غرضی، جو انسان کے پرُ اثر ہونے کے کے بنیادی اصول کی خلاف ورزی کرتی ہیں، میں اگر تبدیلی لانا ہو تو معمولی عزم و ہمت سے زیادہ اور زندگی میں چند تبدیلیا درکار ہوتی ہیں۔ پرواز کے لئے ابتدائ طور پر زبردست طاقت درکار ہوتی ہے، لیکن ایک دفعہ جب کششِ ثقل کے حصار کو توڑ کر باہر نکلا جاتا ہے تو، ہماری آزادی ایک نیا رخ اختیار کرلیتی ہے۔
کسی بھی قدرتی طاقت کی طرح کششِ ثقل بھی ہماری موافقت اور مخالفت میں کام کرسکتی ہے۔ ہماری کچھ عادات کی کششِ ثقل ہمیں وہاں جانے سے روک رہی ہوتی ہے جہاں ہم جانا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ کششِ ثقل ہی ہے جس نے ہماری دنیا کو یکجا رکھا ہوا ہے، جس نے سیاروں کو اپنے مدار میں رکھا ہوا ہے، اور ہماری کائنات کو اپنی جگہ پر۔ یہ ایک انتہائ زبردست طاقت ہے، اور اگر ہم اس کو موئثر طریقے سے استعمال کریں تو ہم عادات کی کششِ ثقل کو اپنی زندگی میں نظم اور ترتیب قائم کرنے میں استعمال کرسکتے ہیں۔
عادات (بنیادی تعریف)
اپنے مقاصد کے لئے، ہم عادات کو علم، مہارت اور خواہش کے مجموعے کے طور پر بیان کریں گے۔
علم ایک نظری (Theoretical ) نمونہ ہے، کہ کیا کرنا ہے اور کیوں کرنا ہے۔ مہارت یہ بتاتی ہے کہ کیسے کرنا ہے۔ آر خواہش دل میں کسی بھی کام کے کرنے کے جزبے کو ابھارتی ہے۔ اپنی زندگیوں میں کسی بھی عادت کو لانے کے لئے ان تینوں اجزاء کا ہمارے اندر ہونا ضروری ہے۔
میں اپنی جاب پر موجود ساتھیوں، اپنے جیون ساتھی، اور اپنے بچوں کے ساتھ معاملات میں غیر موئثر ہوسکتا ہوں کیونکہ میں ان سے مستقل یہ کہتا ہوں کہ میں کیا سوچتا ہوں، لیکن میں کبھی بھی اُن کی نہیں سنتا۔ جب تک میں انسانوں کے درمیان تعلقات کے صحیح اصولوں کو نہیں تلاش کرتا، میں یہ جان ہی نہیں پائوں گا کہ مجھے دوسروں کو بھی سننے کی ضرورت ہے۔
یہاں تک کہ اگر میں جانتا بھی ہوں گا کہ دوسروں کے ساتھ موئثر طور پر معاملات کرنے کے لئے، مجھے ضروری ہے کہ میں اُن کو سنوں، ہوسکتا ہے میرے پاس یہ مہارت نہ ہو۔ شائد میں یہ نہیں جانتا ہوں کہ دوسرے انسانوں کو کیسے گہرائ کے ساتھ سنا جاتا ہے۔
لیکن یہ جاننا کہ مجھے دوسروں کو سننے کی ضرورت ہے، اور یہ جاننا کہ کیسے سنا جاتا ہے کافی نہیں۔ یہاں تک کہ میں سننا چاہوں، اگر میرے اندر دوسروں کو سننے کی خواہش نہیں ہوگی تو یہ میری عادت بھی نہیں بنے گی۔ اس لئے کسی بھی عادت کو اپنانے کے لئے علم، مہارت، اور خواہش تینوں کا ہونا ضروری ہے۔
تبدیل ہونا یا تبدیل ہوتے ہوئے دیکھنا بلندی کی طرف سفر ہے۔ تبدیل ہوتے ہوئے ہم آگے کی طرف بڑھ رہے ہوتے ہیں۔ علم، مہارت اور خواہشات پر کام کرتے ہوئے ہم اپنی شخصی اور انسانوں کے درمیان تعلقات کو ایک نئے درجے پر لے جاسکتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے ہم اپنے ایسے پرانے تصورات سے ناطہ توڑ رہے ہوتے ہیں جو ہمارے عدم تحفظ کا باعث ہوتے ہیں۔
یہ بعض دفعہ ایک تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ یہ ایک تبدیلی ہے جس کا محرّک ایک بڑا مقصد ہونا چاہئے، جس میں آپ اس پر آمادہ ہوں کہ جو اہداف آپ مستقبل میں حاصل کرنا چاہتے ہیں، آپ اپنے موجودہ مقاصد اُن کے ماتحت کرسکیں۔ لیکن یہ عمل خوشی پیدا کرتا ہے، " ہمارے وجود کا مقصد"۔ خوشی کی وضاحت ٹکڑوں میں کچھ اس طرح سے کی جاسکتی ہے کہ خواہش کا پھل اور اس بات کی صلاحیت کہ آپ اپنا آج اُس کے لئے قربان کریں جو آپ بلآخر ہونا چاہتے ہیں۔
پختگی کا تسلسل
سات عادات کچھ الگ فارمولوں کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ قدرت کے نمو کے قوانین کے ساتھ ہم آہنگ، یہ بتدریج، تسلسل اور مربوط طریقہ ہے جو ذاتی اور باہمی افادیت کی نشونما کرتا ہے۔ یہ پختگی کے تسلسل میں آہستہ آہستہ ہمیں، انحصار سے آزادی اور پھر باہمی انحصاری کی طرف لے جاتی ہیں
زیرِ نظر کتاب The 7 Habits of Highly Effective People ہے جس کے مصنّف Stephen R. Covey ہیں۔