کس مونہہ سے؟
کس برتے پر؟
جو کچھ ہم حلب میں کر رہے ہیں اور جو کچھ عدن میں کر رہے ہیں اور جو کچھ بیروت میں کر رہے ہیں اور جو کچھ رقّہ میں کر رہے ہیں اور جو کچھ دمشق میں کر رہے ہیں اور یہ جو ہم قبریں اکھاڑ رہے ہیں‘ قیدیوں سے قبریں کھدوا کر انہیں ان قبروں میں لیٹنے کا حکم دے رہے ہیں‘ عورتیں فروخت کر رہے ہیں بچوں کو اچھال کر سنگینوں میں پرو رہے ہیں‘ اسلحہ کبھی سعودی عرب سے یمن اور کبھی ایران سے بھیج رہے ہیں‘ جنگ جُو کبھی تہران سے دمشق بھیجتے ہیں اور کبھی وزیرستان سے‘ کبھی پیرس پر حملہ کرتے ہیں تو کبھی لندن پر۔قندوز میں خون بہاتے ہیں تو کبھی قندھار میں! ہم میں سے کچھ ہلمند پر حملہ کرتے ہیں اور کچھ دفاع‘ عورتوں کو گھروں میں بند کر دیتے ہیں یا چوراہوں پر سنگسار! بچوں کے ہاتھوں میں غلیلیں دیتے ہیں۔ ان کے کاندھوں پر بندوقیں رکھتے ہیں اور ان کے کچّے ‘ادھ پکے جسموں پر بارودی جیکٹیں پہناتے ہیں۔دیدہ دلیری کی انتہا ہے کہ یہ سب کچھ کر کے ہم بارہ ربیع الاول کو دربارِ نبوت میں بھی حاضر ہو جاتے ہیں۔جس مقدس ہستی کا نام‘ فرشتے بھی درود پڑھے بغیر زبان پر نہیں لاتے‘ جہانوں زمانوں اور کائناتوں کا پروردگار‘ خدائے عزّو جلّ ‘ خود جن پر درود بھیجتا ہے اور پھر اپنے کلام میں اس کا اعلان کرتا ہے‘ اس ہستی کے دربار میں یہ سب کچھ کر کے ہم کس مونہہ سے کس برتے پر حاضر ہونے کی جسارت کرتے ہیں؟
دنیا کی کون سی برائی ہے جو ہم میں موجود نہیں‘ ہم جو کچھ کر رہے
ہیں‘ اس میں ایک لمحے کا رخنہ نہیں برداشت کر سکتے‘ ٹیکس بچا کر ہم حکومت کو غچہ دیتے ہیں‘ حکومتی کارندوں کو کرپٹ کرتے ہیں خوراک میں زہر ملا رہے ہیں‘ ادویات میں جعل سازی کر رہے ہیں‘ معصوم بچوں کے دودھ میں ملاوٹ کر رہے ہیں۔ کارخانے اور دکان کے ساتھ والی زمین آہستہ آہستہ ہڑپ کر رہے ہیں‘ سرکاری رقبے پر راتوں رات مسجد یا مزار یا خانقاہ یا مدرسہ تعمیر کر لیتے ہیں‘ دین کے نام پر لوگوں کی جیبوں سے رقم نکلواتے ہیں اور پرورش اس سے اہل و عیال کی کرتے ہیں!لاکھوں روپے کی تنخواہ لیتے ہیں مگر ڈیوٹی پر گیارہ بجے پہنچتے ہیں۔ سرکار سے پچانوے ہزار ماہانہ گاڑی کی مد میں لے کر بے حیائی کے ساتھ سرکاری گاڑی اور سرکاری ڈرائیور بھی استعمال کرتے ہیں‘ ریٹائرمنٹ کے بعد توسیع کے لیے ہر فرعون کے تلوے چاٹتے ہیں۔ فائلوں پر وہ کچھ لکھتے ہیں جس سے قوم کی پھنسی ہوئی کشتی مزید ہچکولے کھاتی ہے کروڑوں بناتے ہیں اور بنانے والوں کی چشم پوشی کرتے ہیں!
مذہب کے نام پر کبھی جزیرہ نمائے عرب سے درہم لیتے ہیں کبھی ایران سے ریال اور کبھی لیبیا قطر اور عراق سے دینار! پھر خلقِ خدا کے سامنے دستار باندھ کر‘ عبا اوڑھ کر‘ تسبیح کے دانے گھما کر‘ ہونٹ ہلا کر آسمان کی طرف دیکھ کر‘ اللہ اللہ یوں کرتے ہیں جیسے دل باہر آ جائے گا!پھر راتوں کی تاریکی میں دوسرے مسلک والوں پر حملے کے منصوبے بناتے ہیں! دن کی روشنی میں حکومت کا ساتھ دیتے ہیں!
قطر سے گیس لاتے ہیں‘ نندی پور اجاڑ دیتے ہیں۔ مہینے میں دو بار لندن ‘ تین بار بیجنگ اور چار بار ترکی جاتے ہیں‘ اقتدار صاحبزادوں کو سونپ دیتے ہیں۔ عوام کے خون پسینے سے چلنے والے جہازوں میں براتیں ڈھوتے ہیں‘ رعایا کا ماڈل ٹائون کر دیتے ہیں ۔سرکاری سکولوں کو اصطبل اور ہسپتالوں کو ذبح خانوں میں تبدیل کر رہے ہیں‘ ڈاکو راج ہر طرف پھیلا ہے‘ اغوا برائے تاوان انڈسٹری بن چکا ہے سٹریٹ کرائم سکہ رائج الوقت ہے مگر پولیس کو ہم خانہ زاد غلام بنا کر اپنے محلات پر مامور کیے ہوئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو ممیاتی بھیڑ بنا کر الیکشن جیتنے کے فن کو سائنس بنا دیتے ہیں۔
ہم نے حاجیوں کے احرام بیچ کھائے‘ چالیس چالیس کارٹن ڈیزائنر سوٹوں سے بھرے ہوئے ان محلات میں اتروائے جو تحفے میں ملے تھے! ہم نے ڈکشنری میں کمال دیدہ دلیری سے ایم بی بی ایس کے معنی تک تبدیل کر ڈالے۔ ایوان صدر کو وال سٹریٹ بنا دیا‘ گماشتوں کو لاکھوں کروڑوں روپے خزانے سے عیدی کی مد میں بخش دیے۔ پٹرول اور گیس کے محکموں سے اور ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کو کنٹرول کر کے بیس بیس کروڑ روپے روزانہ کماتے رہے‘ ہم وہ ہیں جو ماڈلوں اور یاروں کو بچانے کے لیے حکومتیں دائو پر لگا دیتے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت کو اٹھا کر دساور لے جاتے ہیں‘ ہاتھوں پر بٹھاتے ہوئے اور سدھائے عقابوں کو حکم دیتے ہیں کہ ہمارا دفاع کریں! پارٹی کو ہم نے خاندان میں میں یوں بند کر رکھا ہے جیسے دریا کو کوزے میں بند کرتے ہیں!
ہم سات سمندر پار بیٹھ کر اہلِ وطن سے پائونڈ منگواتے ہیں ‘ بوریوں میں لاشوں کو بند کرتے ہیں‘ پوری ایک نسل کو کتاب اور قلم سے ہٹا کر سیکٹر کمانڈروں کی بندوقوں کے سائے میں بٹھادیتے ہیں۔ سرحد پار جاتے ہیں تو اپنے ہی ملک کی تشکیل کو غلط قرار دیتے ہیں‘ پھر اسی ملک کے خزانے سے ہائی کمیشن میں ڈنر بھی اڑاتے ہیں ۔ بھارت سے مال کھاتے ہیں‘ اپنے حواریوں کے کنبوں کو بیرون ملک مقیم کراتے ہیں اور سیاست ان سے ملک کی کراتے ہیں!
ہمارا عام آدمی جو اپنے آپ کو غریب کہتا ہے سب سے زیادہ ڈھیٹ اور بے شرم ہے۔ وہ ریڑھی سے گندے سیب اور پھٹے ہوئے ٹماٹر گاہک کی نظر بچا کر اس کے تھیلے میں ڈالتا ہے‘ گھر کا کوڑا کرکٹ گلی میں پھینکتا ہے‘ گھر کے نقشے کو خلافِ قانون تبدیل کرا کے رشوت دیتا ہے۔ کم نمبروں کے باوجود بچے کے داخلے کے لیے سفارشیں ڈھونڈتا ہے‘ بیٹی کی پیدائش کے جرم میں بیوی کو گالیاں اور طلاق کی دھمکیاں دیتا ہے‘ پڑوسی کو اذیت پہنچاتا ہے‘ دن میں دس بار جھوٹ بولتا ہے اور پانچ بار وعدہ خلافی کا ارتکاب کرتا ہے‘ قرض لے کرواپس نہیں کرتا‘ رشتہ داروں سے قطع تعلق کرتا ہے‘ بچوں کے سامنے جھوٹ کی قسمیں کھاتا ہے اور ان کے پیٹ میں حرام کی چوگ ڈالتا ہے‘ یہ سب کچھ کر کے وہ اپنے آپ کو عام شہری کہتا ہے اور غریب کہلواتا ہے۔ اُس کے خیال میں اصلاح صرف لیڈروں کی اور حکومتوں کی اور علماء کی اور امرا کی اور وزیروں کی اور افسروں کی اور جرنیلوں کی ہونی چاہیے!
ہم یہ سب کچھ سارا سال کرتے ہیں! اگلے سال بھی یہی کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو ہاتھ باندھ کر دربارِ نبوت میں کھڑے ہو جاتے ہیں ہم کتنے ’’جری‘‘ اور ’’بہادر‘‘ ہیں جس ادب گاہ میں جنیدؒ اور با یزیدؒ جیسے اولیاء اللہ سانس روک کر حاضر ہوتے ہیں‘ جس کے حوالے سے اقبال جیسا شخص کہتا ہے کہ ؎
ور حسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہِ مصطفی پنہان بگیر
کہ میرا حساب کتاب حشر کے دن کرنا بھی ہو تو نگاہِ مصطفی سے چھپا کر کیجیو! اُس ادب گاہ میں ہم ناپاک قلوب اور متعفن روحوں کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں‘ اور دوسرے دن پھر وہ سب کچھ کرنا شروع کر دیتے ہیں جو گزشتہ برس کرتے رہے! ہم ایک لمحے کے لیے بھی رُک کر نہیں سوچتے کہ کل ‘ حشر کی دھوپ میں‘ اور پُل صراط پر اور حوضِ کوثر کے کنارے‘آپ ﷺ کی نگاہوں کا سامنا کیسے کریں گے؟ انتہا ہے! دیدہ دلیری کی انتہا ہے!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔