بادامی باغ کی مسیحی بستی کے ساتھ سنیچر کے دن جو کچھ ہوا، کیا امامِ کعبہ اُسے جائز قرار دیں گے؟ کیا مسجدِ نبوی کے امام اُس کا دفاع کریں گے؟ کیا الازہر یونیورسٹی کا دارالافتا اُس کے حق میں فتویٰ دے گا؟ کیا مولانا جسٹس تقی عثمانی اُس کا جواز پیش کریں گے؟ کیا مولانا ثروت قادری حملہ آوروں کا ساتھ دیں گے؟ کیا مدرسہ نعیمیہ کے مفتی صاحب 175ہنستے بستے گھروں کو خاکستر کرنے والوں کو حق بجانب قرار دیں گے؟ لیکن ٹھہریے، پہلے ایک اور سوال کا جواب تلاش کریں۔
یہ کچھ ہی عرصہ پہلے کا واقعہ ہے۔ بہاولپور کے قریب ایک بستی میں ایک پاگل شخص پر گستاخی کا الزام لگا۔ اُسے تھانے میں محبوس کیا گیا۔ اتنے میں قصبے کی مسجدوں میں لائوڈ سپیکروں پر عوام سے باہر نکلنے اور ملزم کو کیفر کردار پہنچانے کی اپیلیں اور تقریریں شروع ہو گئیں۔ ہزاروں لوگوں نے تھانے کا گھیرائو کر لیا۔ پولیس نے کمک منگوائی تو راستہ بلاک کرکے کمک کو پہنچنے نہ دیا گیا۔ پولیس کے افسر اور جوان زخمی ہوئے، ان کی سرکاری گاڑیاں نذرِ آتش کر دی گئیں۔ ہجوم ملزم کو پکڑ کر، گھسیٹ کر تھانے سے باہر نکال لایا۔ سینکڑوں ہزاروں لوگوں کے سامنے اُس کے سر پر پٹرول انڈیلا گیا اور اُسے زندہ جلا دیا گیا۔ حالت یہ ہے کہ صرف انگریزی اخبارات نے اِس روح فرسا واقعے کا ذکر کیا۔ اردو اخبارات نے (روزنامہ ’’دنیا‘‘ اُس وقت تک نہیں نکلا تھا) یہ خبر یا تو چھاپی ہی نہیں یا غیر نمایاں انداز میں اس کا سرسری ذکر کیا۔ تقریباً تمام غیر ملکی پریس نے اس کی شہ سرخی بنائی۔
سوال یہ ہے کہ کیا اُس وقت مجرموں کو سزا دی گئی؟ کیا قانون ہاتھ میں لینے والوں کا محاسبہ کیا گیا؟ کیا لائوڈ اسپیکروں کے ذریعے عوام کو مشتعل کرنے والوں کو پکڑا گیا؟ کیا متعلقہ صوبائی حکومت نے اس سارے واقعے کا سنجیدگی سے نوٹس لیا؟ حکومت چاہے تو پولیس مجرموں کو سات زمینوں کے نیچے سے پابہ زنجیر باہر لے آتی ہے۔ اگر اُس وقت ملزموں کو قرار واقعی سزا دی جاتی، اگر انہیں نشانۂ عبرت بنایا جاتا تو بادامی باغ والے حادثے سے بچا جا سکتا تھا۔ لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہے اور اطمینان ہے کہ انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ وہ چاہیں تو بستیوں کی بستیاں جلا دیں، وہ چاہیں تو انسانوں کو زندہ جلا دیں‘ وہ چاہیں تو سینکڑوں رکشائیں‘ گاڑیاں‘ موٹرسائیکلیں نذرِ آتش کر دیں اور مال اسباب لوٹ کر لے جائیں۔ حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور پولیس کے ہاتھ بندھے ہیں۔
حکومت اور پولیس کو بھی چھوڑیے، کیا ہمارے علمائے کرام نے اس واقعے کا نوٹس لیا؟ کیا انہوں نے غلط کو غلط کہا؟ کیا انہوں نے فتویٰ دیا کہ جو کچھ ہوا اُس کا اسلام اور اسلامی قوانین سے دُور کا بھی تعلق نہیں؟ ہمارے علمائے کرام، اگر کسی مدرسے پر چھاپہ پڑ جائے تو احتجاج کرکے زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں اور حکومت کو وہ دھمکیاں دیتے ہیں کہ پہاڑ لرزنے لگتے ہیں، لیکن اس واقعے پر کسی مکتبِ فکر کے کسی عالم نے اپنی ذمہ داری پوری نہ کی۔ ہمارے علمائے کرام کا کیا کہنا! سارے ملک میں دھماکوں سے ہزاروں بے گناہ مارے گئے، ملک کے معروف ترین عالم سے ٹیلی ویژن پر اس کے بارے میں بات کی گئی تو فرمایا کہ یہ فتنوں کا زمانہ ہے۔ خاموشی اور کنارہ کشی ہی بہتر ہے۔ چند دن بعد کراچی کے جوڑیا بازار میں دھماکہ ہوا تو
ساری خاموشی اور کنارہ کشی بھک سے اُڑ گئی۔ پریس کانفرنسیں منعقد کی گئیں اور وہ احتجاج ہوا کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ روایت ہے (نہ جانے صحیح یا غلط) کہ جوڑیا بازار میں مقدس ہستیوں کے مالی مفادات مجروح ہوئے تھے! حکومتی اہلکاروں نے اپنی قانونی اور پیشہ ورانہ ذمہ داریاں سرانجام دینے کے لیے کراچی کے ایک مشہور مدرسہ کی تلاشی لی تو وہ ہنگامہ کیا گیا اور رائی کا وہ پہاڑ بنایا گیا کہ الامان والحفیظ! لیکن زندہ انسانوں کو مذہب کے نام پر آگ کے شعلوں کی نذر کر دیا جائے اور سینکڑوں گھروں کو مذہب کے نام پر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا جائے تو آہ کی ہلکی سی آواز بھی نہیں سُنائی دیتی۔
آگے چلیے، ماضی قریب میں دارالحکومت کی ایک کم سن بچی مقدس اوراق جلانے کے الزام میں پکڑی گئی تو گواہوں نے باقاعدہ ثابت کیا کہ مولوی صاحب نے خود نورانی قاعدہ کے اوراق جلے ہوئے کاغذوں میں رکھے تھے۔ کسی طرف سے کوئی آواز بلند نہ ہوئی کہ مولوی صاحب پر توہین کا مقدمہ چلایا جائے۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ سارا قضیّہ زمین پر قبضے کا تھا۔ اگر اُس وقت انصاف کیا جاتا اور اصل قصور وار کو سزا دی جاتی تو عین ممکن تھا کہ بادامی باغ والا حادثہ رونما نہ ہوتا۔
ہم کہاں جا رہے ہیں؟ ہماری منزل کیا ہے؟ ہم دنیا پر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ ہر ماہ اندرونِ سندھ سے بیسیوں غیر مسلم خاندان ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اجمیر شریف کی درگاہ کے دیوان نے ہمارے وزیراعظم کا استقبال کرنے سے انکار کر دیا ہے اور جو وجوہات بتائی ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جا رہا ہے۔ کیا ہم اِس الزام کی تردید کر سکتے ہیں۔ جماعتِ اسلامی کے رہنما نے بنگلہ دیش کے حالات کے حوالے سے اقوامِ متحدہ سے اپیل کی ہے۔ اگر بادامی باغ والی بربریت کے ضمن میں بنگلہ دیش بھی اقوامِ متحدہ کی بات کرے تو ہمارے پاس کیا جواب ہوگا؟ گوگل کی جس ٹیم نے یو ٹیوب کی بندش کے متعلق بات چیت کرنے کے لیے پاکستان کا دورہ کرنا تھا، اُس نے سکیورٹی خدشات کی بنا پر دورہ منسوخ کر دیا ہے۔ کیا ہمیں معلوم ہے کہ ہم الگ تھلگ ہو رہے ہیں؟ شمالی امریکہ کے 70 فیصد لوگوں نے پاکستان کو قابلِ نفرت قرار دیا ہے!
پنجاب کے وزیر قانون نے کہا ہے کہ آگ لگانے والوں کو معافی نہیں ملے گی۔ اب ان پر لازم ہے کہ ملزموں کو عبرت ناک سزا دیں تاکہ آئندہ کسی ہجوم کو ایسی بربریت کا حوصلہ نہ ہو۔
http://columns.izharulhaq.net/2013_03_01_archive.html
“