ہم سب بچپن میں جو سنتے ہیں، اس پر یقین کرتے ہیں۔ بچے اور بالغ کے درمیان علم میں اتنا زیادہ فرق ہوتا ہے کہ زندگی کی اس مرحلے پر دنیا کو سمجھنے کے لئے ایسا کرنا بالکل درست طریقہ ہے۔ جب ہم بڑے ہوتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ بالغ لوگ خود آپس میں اختلافات رکھتے ہیں۔ جن سے ہم نے سیکھا، ان کی بات حرفِ آخر نہیں۔ ہم ان سے زیادہ جان سکتے ہیں۔
بچپن میں ہم سب کو اس دنیا کی اصل کہانیاں پڑھنا اچھا لگتا ہے۔ ڈائنوسار کیسے زمین پر گھومتے تھے۔ ہمارے اجداد پتھر کے زمانے میں کیسے اوزار بناتے تھے۔ زمین، سورج اور چاند کیسے اربوں سال پہلے تشکیل پائے۔ کیسے ایک خلیہ بڑھتا بڑھتا انسان بن جاتا ہے۔ ان کے ساتھ ہم کچھ اور بھی پڑھتے ہیں۔ برمودا ٹرائینگل، ٹیلی پیتھی،اڑن طشتریاں، جل پریاں، جھیل پر آنی والی پریاں، مثلث اور آنکھ، آسیب زدہ مکانوں کی کہانیاں، ڈبہ پیر کے نسخے۔
تجسس پسندی یہ سوال ہے کہ کس پر شک کریں، “ہمیں کسی چیز کا آخر پتا کیسے ہے؟” ایک بار یہ سوال کرنے لگیں تو کئی یقین گرنے لگتے ہیں۔ ہمیں کیسے پتا ہے کہ خلائی مخلوق زمین پر آتی رہی ہے؟ ہمیں کیسے پتا ہے کہ سوئیاں لگانے سے بیماری ٹھیک ہو جاتی ہے؟ سوالات کے اس سلسلے کا اختتام ضروری نہیں کہ کسی اچھی جگہ پر ہو۔ کچھ لوگ خلائی مخلوق یا جادوئی علاج پر اپنے یقین کو برقرار رکھنے کے لئے سائنس کو رد کر دیں گے۔ رک جائیں گے۔ دوسرے سوال کرتے رہیں گے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ اور یہ ایک نا ختم ہونے والا سفر ہے۔
سوال صرف یہ ہے کہ آپ کتنی دور تک جانا پسند کریں گے اور کس رخ جائیں گے؟ یہ ایک ذاتی انتخاب ہے۔ صرف یہ کہ آپ مکمل طور پر اکیلے نہیں۔ علم کی تلاش کا دائرہ پوری انسانیت پر احاطہ کرتا ہے۔ ہم دریافت کے سفر پر ہیں۔ یہ جاننے کی کوشش میں کہ کیا درست ہے اور کیا نہیں۔
اگر آپ یہ سفر کرنے لگیں گے تو اس میں بہت دلچسپ موڑ اور بل بیچ آئیں گے۔ یہ ڈرانے والے بھی ہو سکتے ہیں۔ کہیں پر ایسا ہو سکتا ہے کہ آپ کو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے کہ آپ کا مقابلہ کسی ایسے یقین سے ہو جائے جسے آپ ہر قیمت پر ٹھیک سمجھنا چاہیں لیکن سکروٹنی کا سامنا نہ کر سکے۔ مثلاً، کئی ایسا علاج جس پر آپ کو ہمیشہ سے یقین تھا، وہ طفل تسلی تھا۔ یا پھر جس شخص پر آپ ہمیشہ سے یقین کرتے آئے تھے، یہ جاننا کہ وہ جب بتا رہا تھا کہ چاند پر نہیں جایا جا سکتا، تو وہ غلط کہہ رہا تھا۔ وہ اتنا قابلِ اعتبار نہیں۔ یہ سامنا ہر ایک کے لئے آسان نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں سائنس، تعلیم اور صحافت پرفیکٹ نہیں۔ یہ دنیا غلط انفارمیشن، تعصب، قصوں، دھوکوں اور ناقص علم سے بھری ہوئی ہے۔ اور اس میں ہم سب بچے ہیں، کوئی بالغ نہیں۔ کہیں تنہا بیٹھے کوئی ایسے کاہن نہیں جو ہمیں راہنمائی کر دیں۔ کسی کے پاس راز نہیں جو اس سے مل جائے۔ کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں سے حتمی جواب مل جائیں۔ (نہیں، گوگل بھی نہیں)۔
جس طرح ہم سے پچھلی نسل اس پیچیدہ دنیا کو جاننے کی کوشش کرتی رہی، ویسا ہی ہم بھی کر رہے ہیں اور ویسا ہی ہماری اگلی نسل بھی کرتی رہے گی۔
اس انسانی کنڈیشن کا ادراک کسی کو مایوس بنا سکتا ہے۔ تمام علم کا انکار کر سکتا ہے اور یہ ایک اور قسم کا تعصب ہے۔ مایوس ناقد بن جانا آسان ہے۔ ہر چیز پر شک کرنا یا انکار کرنا آسان ہے۔ لیکن شک صرف پہلا قدم ہوتا ہے۔ ہم اس دنیا کے بارے میں قابلِ اعتبار علم حاصل کر سکتے ہیں اور اس پر عمل کر سکتے ہیں۔ ہم پلوٹو تک جا سکتے ہیں، اس پرسرار جگہ کی تصاویر کھینچ کر بھیج سکتے ہیں۔ اگر کائنات کے بارے میں ہمارا علم ناقص ہوتا تو اس دور دراز کی جمی ہوئی دنیا کی خوبصورت تصاویر دیکھنے کا تحفہ ہمیں نہ ملتا۔ اس دنیا کو واقعی جانا جا سکتا ہے۔
دعووں کی سچائی کو اور علم کو احتیاط سے آہستہ آہستہ پرکھنے کا پراسس بنا سکتے ہیں۔ اس پراسس کا ایک بڑا حصہ سائنس ہے۔ اپنے خیالات کو reality کے مقابلے میں جانچ سکتے ہیں۔ سائنس ایک خرابیوں والا اور اپنی کمزوریوں والا پراسس ہے۔ اس کی طاقت خود کو ٹھیک کر لینے کی صلاحیت ہے۔ اس وجہ سے یہ آہستہ آہستہ رئیلیٹی کی طرف کھسکتا جاتا ہے۔ جس دنیا میں ہم نے آنکھ کھولی ہے، یہ اس کو پہچاننے کی ہماری اپنی طرف سے کی گئی بہترین کوشش کا عمل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس کے ساتھ یہ سب سمجھنے کے ہمارے دوسرے اوزار منطق اور فلسفہ ہیں، جو چیزوں کے بارے میں ٹھیک طریقے سے سوچنے میں مدد کرتے ہیں۔ ایسی سوچ جس میں تضاد کم سے کم ہو۔ ٹھیک ریزننگ ہو۔ مشاہدات کو احتیاط سے کیسے دیکھنا ہے۔ تمام ڈیٹا کو ریکارڈ کرنا اور گننا ہے (نہ کہ صرف اپنے پسندیدہ ڈیٹا کو) اور سب سے بڑھ کر، اپنے آپ کو غلط ثابت کرنے کی کوشش ۔۔۔ یہ سب کچھ بہت سا کام ہے لیکن یہ ہمیں سفر میں آگے لے کر جاتا ہے۔ سائنس، فلسفہ، نفسیات، انسانی سوچ کی کمزوریوں اور تعصبات کا علم، خاص طور پر خود اپنے بارے میں، اس سفر میں ضروری ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوشل میڈیا کی آمد 2005 میں ہوئی اور یہ ایک بڑا واقعہ تھا۔ علم کے فروغ کے لئے بھی اور اس کو تہس نہس کرنے کے لئے بھی۔ سائنس کا اپنا پراسس ہی حملوں کی زد میں ہے۔ باقاعدہ تحریکیں موجود ہیں جو دریافتوں کو جھٹلانے اور ان کی مخالفت کے لئے ہیں اور کئی بار ایسا لگتا ہے کہ سچ اور حقائق کو ایک غیرضروری رکاوٹ سمجھ کر بس ایک طرف لڑھکا دیا جاتا ہے۔ ایسے کئی دانشور ہیں جو یہ کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ انسانیت کئی صدیوں کے بعد علم میں پیشرفت کے بعد اب پیچھے قدم لینے لگی ہے۔ اپنے مرضی کے سچ اپنے کمروں میں بتا کر لوگوں کے ذہنوں میں حقیقت بن جاتے ہیں۔
یہ ایک طویل جدوجہد ہے۔ اور نہ ختم ہونے والی ہے۔ ہمارے پاس کھوپڑی کے درمیان آلہ محدود ہے لیکن ہم دوسروں کے کاندھوں پر کھڑے ہیں۔ بہت سے ذہین لوگ اس دنیا کو، اس فطرت کو سمجھنے میں وقت لگاتے رہے ہیں۔ ہمارے پاس سائنس اور فلسفے جیسے اوزار ہیں۔ ہمیں اس سب کی تُک بنا لینے کے طریقے معلوم ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ سچ کا فیصلہ ہماری اپنی پسند اور ترجیحات نہیں کرتیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجسس پسندی کے سفر میں زادِ راہ کے طور پر ہمارے پاس کچھ اوزار ہیں۔
پہلا انکساری ہے۔ یہ سمجھ لینا کہ ہمارا دماغ محدود ہے۔ صرف مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کو سمجھنے کے لئے ہمارے پاس یہی آلہ ہی تو ہے۔
دوسرا میٹا کوگنیشن ہے۔ یعنی سوچ کے بارے میں سوچ۔ ہم جذباتی ہیں، تعصبات اور سوچ کی غلطیاں رکھتے ہیں، ذہنی شارٹ کٹ اپناتے ہیں۔ ان کا علم ضروری ہے۔
تیسرا سائنس کا طریقہ سمجھنا ہے۔ یہ کام کیسے کرتی ہے۔ سوڈوسائنس اور سائنس سے انکار کی نیچر کیا ہے اور سائنس میں کہاں غلطیاں ہوتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجسس پسندی کا پہلا ہتھیار شک ہے۔ یہ فلسفانہ تشکیک نہیں۔ فلسفانہ تشکیک مستقل شک کی پوزیشن ہے۔ ہر چیز پر شک کرنا ہے۔ اس پر بھی کہ ہم کچھ بھی جان سکتے ہیں۔
سائنسی تشکیک نقاد ہونے کی پوزیشن بھی نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسانیت کے بارے میں منفی رویہ رکھا جائے اور بھروسہ نہ کیا جائے یا ہر مین سٹریم آئیڈیا کی مخالفت کی جائے۔ تشکیک کا لفظ اور یہ والا رویہ سائنس کو رد کرنے والوں نے اغوا کر لیا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے۔ اس کے کچھ اصول ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجسس پسندی کی بنیاد اس پر ہے کہ ہماری رائے اور یقین کو حقیقت سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ یہ یقین کہ ہم اس دنیا کو جان سکتے ہیں کیونکہ یہ کچھ قوانین کی پیروی کرتی ہے جنہیں قوانینِ فطرت کہا جاتا ہے۔ اگر یہ یقین درست ہے (اور ابھی تک ایسی وجہ نظر نہیں آئی کہ ایسا نہ ہو) تو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ قوانین کو شواہدات کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج سے بیس سال پہلے یہ کافی سمجھا جاتا تھا کہ سائنس سمجھا دی اور بس۔ لیکن اب ہمیں اچھی معلوم ہے کہ یہ مفروضہ درست نہیں۔ 2017 میں ہونے والی جان کّک کی سٹڈی یہ بتاتی ہے کہ فیکٹ لوگوں کے ذہن نہیں بدلتے۔ ذہن بدلنے کے لئے ذہن سمجھنا پڑتا ہے۔ اور خود اپنا ذہن۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلسفے کا پرانا سوال ہے، “کیا جاننا نہ جاننے سے بہتر ہے؟”۔ اور فلسفے سے یہ بھی پتا لگتا ہے کہ اس سوال کا کوئی اچھا جواب نہیں جس پر ہر کوئی متفق ہو۔ یہ بس ایک انتخاب ہے۔
تجسس پسندی کی پہلی شرط اس سوال کا جواب اثبات میں دینا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...