جب سے پاکستان بنا کسی لیڈر نے بھی عوام کے دل جیتنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اُلٹا ان کا اپنے اہداف پورے کرنے کے لیے استحصال کیا گیا ۔ ایمینول کانٹ نے کہا تھا کے انسان ہدف ہیں ، end . نہ کے زریعہ یا means اہداف کا ۔
Human beings are more than pile of chemicals and and electrical signalling
یہ Lynne Mctaggart نے اپنی کتاب power of eight میں سائنسی حوالوں سے ثابت کیا ۔ اس پر تفصیلی بلاگ میں نے ۱۵ نومبر کو لکھا تھا ۔
دنیا میں سارے انسان دراصل tribal state میں جُڑے ہوئے ہیں ۔ میں اس سلسلہ میں Yale میں قانون کی پروفیسر ایمی چاؤ کے tribal world کے بیانیہ سے سو فیصد متفق ہوں ۔ ۱۵۰۰ سو سال پہلے کا عرب بھی انہیں بنیادوں پر کھڑا تھا اور پیغمبر اسلام اسی بیانیہ کو لے کر آ گے چلے ۔ صرف انہوں نے ان قبائل سے غلامی اور استحصال کو ایک فلسفہ حیات دے کر پاک کیا ۔ کسی بھی انسانوں کو حدود و قیود میں رکھنے والے نظام کی بنیاد اخلاقی اقدار ہوتی ہیں نہ کے مزہب ، مسلک ، رنگ ، قبیلہ یا زات پات ۔ ہر انسان اپنی زات میں خدا ہے اور Lynn نے سائنس سے وہ رشتہ ثابت کیا ۔ انسان ہانکے نہیں جا سکتے ، خریدے نہیں جا سکتے اور نہ ہی غلام بنائے جا سکتے ہیں ۔ امریکہ نے جب دوسری جنگ عظیم جیتنے کے بعد ویتنام پر حملہ کیا تو یہی معاملہ ہوا کے امریکہ نے ویتنامیوں پر طاقت کے زریعے غالب آنے کی کوشش کی جس میں وہ بری طرح ناکام ہوا۔ اب امریکہ ملالہ جیسے کرداروں کے زریعے دل جیتنے کی کوشش میں ہے جو پھر ناکام ہو گی ۔
پاکستان میں اشرافیہ ستر سال سے خدا بنی ہوئ ہے ۔ چند ہزار لوگ کروڑوں کی قسمتوں کا فیصلہ کرتے ہیں ، کبھی مزہب کا نعرہ لگا کر اور کبھی قومیت یا نسل پسندی کا ۔ کیا حماقت ہے ، بھٹو بھی بلوچستان فوج بھیج کر پھنس گیا تھا پھر جب یہ سوال کیا گیا کے کب فوج واپس بلائیں گے تو جوابا فرمانے لگے “پہاڑ پر چڑھا شخص ہی بتا سکتا ہے “۔ ہر حکومت نے سرداروں کے ساتھ ملکر لوگوں کو اور ان کے قومی زخائر کو لُوٹا ۔ آج سینڈک میں لوگوں کے لیے نہ تعلیم ، نہ صحت کی سہولتیں اور نہ پینے کا صاف پانی ۔ لگتا ہے ابھی بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت ہے جو زخائر باہر لے کے جا رہی ہے ۔ یہ دردناک استحصال سامراجی انگریز تو کر سکتا تھا لیکن اسلام کے نام پر ریاست قائم کرنے والے ہرگز نہیں کر سکتے تھے ۔
کراچی ایک کوسمو پولیٹن شہر ہے ، اس میں ٹینکوں سے بیروت کی طرح امن لایا جا سکتا ہے ، بلوچستان اور فاٹا میں سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔ کل لندن میں پاکستان کی اعلی عدالت کے چیف کو مغرب میں بیٹھے ایک بلاگر نے کچھ ایسے دیکھا ۔
“Pakistan’s top judge here in London begging for dam fund while many protesting against ..”
ہم پوری دنیا کے لیے عجیب و غریب تماشا بن گئے ہیں ۔ قدرت کا دائرہ پورا ہورہا ہے ۔ ہر جگہ سربراہ ایسے آ رہے ہیں جو عوام کو استحصال سے نکالنے پر جُت گئے ہیں جس سے ان کو امریکہ یا یورپ کا رُخ ہی نہ کرنا پڑے ۔ ہمارے حکمران ابھی بھی پاکستان سے لوگوں کو نکالنے پر تُلے ہوئے ہیں ۔ نوجوان نسل جس سے میرا بلاگز کے زریعے بہت گہرا تعلق رہتا ہے ، اس سارے ڈرامے سے شدید پریشان ہے ۔ اب نہ وہ باہر جانے کے رہے اور ملک کے اندر بھی جینا حرام ۔
یہ معاملات لیکن زیادہ دیر نہیں چلیں گے ۔ نئ صبح کا سورج اگلے سال ضرور طلوع ہو گا جو ان استحصالی طاقتوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا ۔ پاکستان سے ایک شاعر عاطف توقیر میری طرح جرمنی میں محصور ہیں ، کل انہوں نے اپنا تازہ کلام ٹویٹر پر شئیر کیا جسے میں نے ان کے ہینڈل کے ساتھ اپنی فیس بک پر پوسٹ کیا ضرور سنیے گا ۔ نئ نسل کو میرا پیغام ہے کے یہ آپ کے مستقبل کا معاملہ ہے ، باجوہ صاحب اور عمران خان تو خوش ہیں ۔ عمران کے بچے باہر ہیں اور باجوہ صاحب کے بچہ کی شادی آپ نے دیکھ ہی لی ۔ قدرت آپ کے ساتھ ہے ، آپ کا خالق آپ کے ساتھ ہے ، سوشل میڈیا سپر پاور بن کے ابھرا ہے ، پھر ڈر کیسا ؟ بہت خوش رہیں ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...