انسانیت کا قاتل کون…….؟
مورخہ 5 ستمبر 2018 کو ایڈیشنل سیشن جج چنیوٹ کی عدالت نے تبلیغی جماعت کے دو معمر افراد کے قتل میں ملوث ملزمان حافظ اکرام خان اور اس کے سگے بھائی حافظ عمران خان کو دو دو مرتبہ سزائے موت سنا دی.
دونوں قاتل بھائی پیر کرم شاہ کے مدرسہ دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ کے طالب علم ہیں.
گزشتہ برس اگست کے مہینے میں دونوں بھائی حافظ اکرام اور حافظ عمران جو کہ چنیوٹ موضع قلعہ آسیاں کے رہنے والے ہیں اور ان کا گھر تبلیغی جماعت والوں کی مسجد کے قریب ہے ایک دن مسجد میں آئے اور تبلیغی جماعت والوں کے پاس بیٹھ گئے اور ان سے مذہبی معاملات پر سوال و جواب اور بحث و مباحثہ کرنے لگے. دورانِ بحث دونوں بھائی اچانک مشتعل ہوگئے اور انہیں کہنے لگے کہ تم سب گستاخِ رسول اور کافر ہو۔ تبلیغیوں میں سے ستر سالہ ولی الرحمن اور ستاون سالہ عبداللہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے انہیں جواب دیا کہ اگر ہم گستاخ رسول ہیں تو تم بھی مشرک و مرتد ہو. مسجد میں شوروغل پبا ہو گیا. تبلیغی جماعت کے ذمہ داران نے اکرام اور عمران کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ ہم گستاخ نہیں ہیں، ہم بھی مسلمان ہیں. لیکن دونوں بھائی گستاخ گستاخ اور کافر کافر کے نعرے لگاتے ہوئے مسجد سے نکل گئے.
اگلے روز پھر دونوں بھائی ظہر کے وقت مسجد میں آئے اور تبلیغی جماعت کے معمر افراد کو زبردستی اپنے نظریات سے رجوع کرنے پر زور لگایا مگر تبلیغی نہ مانے اور دونوں بھائی جلتے کڑھتے وہاں سے چلے گئے.
بعد نمازِ عشاء جب جماعت کے تمام افراد مسجد میں سوئے ہوئے تھے. آدھی رات کو دونوں بھائی حافظ اکرام اور عمران مسجد میں گھسے اور سوئے ہوئے دونوں بزرگوں پر قاتلانہ حملہ کر دیا۔ ایک بزرگ موقع پر دم توڑ گیا جبکہ دوسرا شدید زخمی حالت میں ہسپتال لایا گیا لیکن بعد میں وہ بھی جاں بحق گیا۔ حافظ اکرام آلہ قتل سمیت موقع پر پکڑ لیا گیا جبکہ اس کا بھائی فرار ہو گیا جسے بعد میں گرفتار کر لیا گیا.
مذہبی چپقلش کی بنیاد پر ہونے والے اس قتل کے واقعے سے مجھے کئی برس پہلے مصر میں ہونے والے قتل کا ایک مقدمہ یاد آگیا.
جج نے مشہور مصری پروفیسر فرج فودہ کو قتل کرنے والے تین مجرموں میں سے ایک سے پوچھا،
تم نے فرج کو کیوں قتل کیا؟
قاتل : کیونکہ وہ کافر تھا
جج : تجھے کیسے پتہ چلا کہ وہ کافر تھا؟
قاتل : اس کی ناپاک کتابوں سے
جج : تم نے اس کی کونسی کتاب سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ کافر تھا؟
قاتل : میں اس کی کتابیں نہیں پڑھتا.
جج : تم اس کی کتابیں کیوں نہیں پڑھتے؟
قاتل : کیونکہ…. کیونکہ میں اتنا پڑھا لکھا نہیں ہوں..
میں ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک انسان دوسرے انسان کو اپنا ہم خیال یا ہم مذہب بنانے پر آخر مصر کیوں رہتا ہے؟ وہ ایک لمحہ نہیں سوچتا کہ اس دنیا میں پیدا ہونے والا ہر انسان اپنا الگ جسم، الگ روح، الگ قلب اور الگ دماغ لے کر پیدا ہوتا ہے اور پیدائش سے لے کر اپنے پیروں پہ کھڑا ہونے تک وہ زندگی کے کئی مراحل سے گزرتا ہے. اسکی تعلیم و تربیت ایک مخصوص پیرائے میں کی جاتی ہے. وہ زندگی کی کسوٹی میں روزانہ نئی نئی پہلیاں بوجھتا ہے. لحظہ بہ لحظہ اس کے نظریات و افکارات بھی بدلتے رہتے ہیں. وہ وقت کے دھارے پر بہتا ہوا آگے بڑھ رہا ہوتا ہے کہ ایک دن اچانک وہ کسی سنگ دل کی مذہبی امنگوں کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے ۔۔۔ کسی اندھی گولی کا شکار ہو جاتا ہے ۔۔۔ یا اپنے ہی جیسی مخلوق کے بپھرے ہوئے ہجوم کے ہاتھوں عبرت کا نشان بن جاتا ہے ۔
وہ ذی روح جو ہماری ہی طرح آدم کی نسل سے پیدا ہونے والا، ہمارے ہی قبیل کا انسان ، ہمارے ہی بیچ جنما ہوا ۔ ہماری مانند خواہشوں سے جڑا، ہماری طرح سوچتا ہوا۔۔۔ جذبوں سے سینچا ہوا ۔۔۔ خوشبوؤں میں بسا ہوا ۔۔۔ کسی کی سنتان، کسی کا والی، کسی کی امیدوں کا محور، ہمارے جیسا ہی ایک گوشت پوست کا انسان، خوابوں کی ٹوکریاں اٹھائے اپنے مسکن سے نکلتا ہے اور پھر کسی دوسرے انسان کی جبلی نخوت کا شکار ہو جاتا ہے. اس کا قصور محض اتنا ہے کہ اس کے دماغ میں گردش کرنے والی کیمیائی رطوبتیں قاتل کی دماغی رطوبتوں سے ذرا مختلف ہیں. اس کی عقل کے دھارے الگ سمت سے پھوٹتے ہیں. اس کا نظریہ وہ نہیں جو قاتل کا نظریہ ہے. اس کی سوچ قاتل کی سوچ سے مماثلت نہیں رکھتی. چونکہ اس کی دلیل سے قاتل سہمت نہیں.،اس لیے، اب ۔۔۔ قاتل کی نظر میں اس کا جینا ناحق ٹھہرا۔
کوئی قاتل کو پوچھو ! کیا تم محض اس وجہ سے کسی کے سینے میں خنجر پیوست کر سکتے ہو کہ اس کی دلیل تمھاری دلیل سے زیادہ قوی ہے؟ اس کی منطق تمھاری منطق پہ بھاری ہے؟ تمھیں کسی کی زندگی چھیننے کا اختیار کس خدا نے دیا ہے؟ کیا تم خدا کے اتارے ہوئے کوئی اوتار ہو؟ کیا خدا تمھاری وحشت و بربریت کا ضامن ہے؟ کیا خدا تمھاری متشددیت کا محتاج ہے؟ کیا خدا اپنے منکر کو خود سزا دینے کی قدرت نہیں رکھتا؟
کیا انبیا و رسل اپنی ذاتی انا کی خاطر لوگوں سے انتقام لیا کرتے تھے؟ کیا قاتل نے انسانیت کی معراج کو بچا لیا؟ یا خدا کی خدائی بچا لی؟
کیا قتل ہونے کے بعد مقتول کا عقیدہ خودبخود درست ہو جاتا ہے؟ مقتول کے سینے میں پیوست خنجر کیا اس کے نظریات بدل سکتا ہے؟ مقتول کے مردہ جسم میں ساکت ہوتا دل کیا اب قاتل کے دل کے ساتھ دھڑکنے لگے گا؟ یا مقتول کا مرا ہوا دماغ قاتل کے زندہ دماغ کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے گا اور قاتل اور مقتول دونوں ہم خیال اور ہم عقیدہ بھائی بن جائیں گے؟ قتال سے سب ٹھیک ہو جائے گا ؟
کیا عشقِ نبی و عشق الہی کی سرشاری میں ڈوبا ہوا عاشق خون کا پیاسا بھی ہوتا ہے؟ کیا سلامتی کی تعلیم دینے والا مصلح ناحق گردنیں بھی کاٹتا ہے؟ کیا خالق کا کلمہ مخلوق کے لہو سے لکھا جاتا ہے؟ کیا حبِ رسول کا تقاضا کسی دوسرے کی بربادی میں مضمر ہے؟ کیا عشقِ رسول کے داعین کا یہ طرز عمل اسوۃ حسنہ ہے؟
قاتل، جو سلامتی کا علمبردار ہے، جو کہتا پھرتا ہے کہ ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے ۔۔۔ جسے خود انسانیت کی تقدیس کا سبق سکھانا ہے وہی انسانیت کا گلا گھونٹ دیتا ہے.اس حیوانیت سے متاثر ہو کر کیا مہذب دنیا تمھارا نظریہ قبول کر لے گی؟
کوئی عوام الناس سے بھی پوچھو کہ اس دنیا میں کس کس کو خدا نے یہ اختیار دے رکھا ہے کہ وہ کسی دوسرے کے ایمان کو اپنے ترازو پہ رکھ کر تولتا پھرے؟
یہاں کوئی بھی خاص و عام شخص یا کسی سیاسی جماعت کا کارندہ جب “اسلام” کو بچانے کے لئے اچانک لبیک یارسول اللہ کا نعرہ ہائی جیک کر لیتا ہے تو پیکر خاکی سے نکل کر یک دم دیوتا کیسے بن جاتا ہے؟ اور تمھاری نظروں میں وہ ایسا معصوم کیونکر بن جاتا ہے کہ جیسے ابھی ابھی ماں کی کوکھ سے پیدا ہوا ہو؟ اس کی گزشتہ ساری خباثتیں اچانک کافور کیسے ہو جاتی ہیں؟ وہ دودھ سے کیسے دھل جاتا ہے؟ اس کی تمام بدحرکات یکایک مکارمِ اخلاق کے اعلیٰ پائیدان پر کیسے فائز کر دی جاتی ہیں؟ اس کی کرپشن اور لغزشیں بھی یکسر بھلا دی جاتی ہیں . اس کے گزشتہ تمام گناہ ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں. حرمت رسول کے نام پر مکارانہ آواز اٹھاتے ہی وہ گنگا جمنا کی طرح پوتر ہو جاتا ہے. ایک لچھے دار تقریر اسے عظیم سورما بنا دیتی ہے. وہ دنیا کا سب سے بڑا نیکو کار کہلانے لگتا ہے. اور اگر مخالف فرقے کی کسی آدھی پوری عبادت گاہ کو ایک دھکا اور دے ڈالے تب مان لو کہ اس سے بڑا مجاہد کسی ماں نے آج تک پیدا نہیں کیا.
ہمارے ہاں اکثر شدت پسند لوگ صاحبِ اختیار افراد سے قریبی تعلقات کو سیڑھی بنا کر اپنے گرد نیم پاگل جنونیوں کا ہجوم اکٹھا کر لیتے ہیں. پھر ذہنی مریضوں کے اس ہجوم سے کسی بھی شخص کی عزت آبرو محفوظ نہیں رہتی. حتیٰ کہ ان کے خونی پنجے کسی کی بھی زندگی ہتھیانے کا خدائی اختیار حاصل کر لیتے ہیں.
آخر ان ذومبیز کو لگام کون ڈالے گا؟ خاک اور خون کا یہ کھیل کب بند ہو گا ؟
ایک دوسرے کو الزامی تیروں کی بوچھاڑ میں لا کھڑا کرنے کا یہ چلن آخر کب تھمے گا؟
فی الواقع یوں دکھائی دیتا ہے جیسے ہمارے نوجوان دردِ زہ میں مبتلا ہوں . ہٹ دھرمی، ضد اور جھوٹی انا کے حصار میں قید ہوں .
رواداری، تحمل اور متانت کا سخت فقدان ہے. صحیح و غلط اور محل بے محل کا کوىٔی ادراک نہیں۔ حکمت و دانائی کا اکال ہے. مصنوعی عقیدتیں، من گھڑت عقیدے اور بناوٹی نظریات کا انبار ہے جبکہ راست گوئی اور موزوں عمل مفقود۔
انسان نما ان چرندوں سے پوچھو کہ آخر انسانیت کا قاتل کون ہے؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“