انسانیت زندہ باد
گزشتہ روز دنیا کی عظیم ترین انسان کا انتقال ہو گیا تھا ۔وہ اس زمین کی خوبصورتی تھی ،وہ اصلی اور پیاری انسانیت تھیں ۔ڈاکٹر روتھ فاو کا انتقال ہوگیا ۔87 برس تک وہ انسانیت کے لئے اعلی خدمات سرانجام دیتی رہیں ۔وہ جن سے ہم پاکستانی لوگ نفرت کرتے ہیں ،وہ جن کو ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ زمین پر خدا کا عذاب ہیں ،وہ ان سے محبت کرتی تھی ،وہ باکمال معصوم انسان اب اس زمین پر نہیں رہیں ۔وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے ڈاکٹر روتھ فاو کو قومی ہیرو قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ان کی آخری رسومات 19 اگست کو سینٹ پیٹرک چرچ کراچی می مکمل قومی اعزاز کے ساتھ ادا ہوں گی ،جب تک اس زمین پر انسانیت قائم ہے ،روتھ فاو کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا اور ہم ہمیشہ اس عظیم ہستی کے قرض دار رہیں گے ۔ڈاکٹر روتھ فاو کے انسانیت کے سفر پر مختصر نظر ڈال لیتے ہیں ۔وہ جرمن تھی ،جی ہاں وہ جرمنی جو یورپ کا ایک ملک ہے ،جہاں اکثریتی عوام کا تعلق عیسائیت سے ہے ۔جرمنی میں وہ گائنی کولوجسٹ کے طور پر کام کرتی تھی ،پھر وہ 1960 میں جرمنی سے کراچی آگئیں ۔کراچی میں میکلوڈ روڈ کے پیچھے غریب جزامیوں کی ایک بستی تھی ۔جہاں زندہ لاشیں آباد تھی ۔ان زندہ لاشوں کے حالات بدترین تھے ،کراچی سمیت پورا پاکستان ان جزامیوں سے نفرت کرتا تھا ،کہتا تھا یہ انسان اس زمین پر خدا کا عذاب ہیں ۔ان زندہ لاشوں کی چیخیں کسی مسلمان کو سنائی نہیں دیتی تھی۔ان کے درد،غم اور دکھ کا کسی کو احساس نہ تھا ۔پھر ایک دن اچانک ڈاکٹر روتھ فاو کو ان غریبوں کی غضباک چیخیں سنائیں دیں ۔روتھ فاو ان غریبوں کے پاس پہنچ گئیں ،خدا کے عذاب کو گلے لگالیا ۔کہا ،مت چیخو چلاو،میں تمہارے ساتھ ہوں ،میں تمہیں اس عذاب سے نجات دلاوں گی ،یہی سے عظیم انسان کی انسانیت کا سفر شروع ہو گیا ،دیکھتے ہی دیکھتے خدا کا عذاب ٹل گیا ،تمام انسان صحت یاب ہو گئے ،چیخیں بند ہو گئیں اور ان کی جگہ مسکراہٹوں نے لے لی۔وہ مسلسل تین سال تک کوڑھ کے مریضوں کے ساتھ رہیں ،تین سال بعد ان جزامیوں کے لئے پہلا جدید کلینک تعمیر کیا۔اب وہ کلینک آٹھ منزلہ عمارت میں تبدیل ہو چکا ہے ۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے اپنی زیر نگرانی ڈاکٹر روتھ فاو نے 157 جزام کے مراکز قائم کئے ۔پھر ایسا ہوا کہ 1996 میں اقوام متحدہ نے اعلان کیا کہ پاکستان جزام فری ملک ہو چکا ہے ۔جہاں اب کہیں بھی خدا کا عذاب نظر نہیں آرہا ۔1960 میں روتھ فاو کیسے پاکستان پہنچی،اس بارے میں ایک انٹرویو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ جب وہ انیس سو ساٹھ میں پاکستان آئیں تھی تو اس وقت بھی پاکستان ایک غریب ملک تھا ۔جہاں چاروں اطراف غربت ،بیچارگی اور دکھ کا عالم تھا ۔اس زمانے میں ایک فلاحی ادارے کے لئے کام کرتی تھی ،اس فلاحی ادارے نے پاکستان روانہ کردیا ۔کہتی ہیں میرا مشن یہ تھا کہ غریبوں کی مدد کرنی ہے اور ان کا سہارا بننا ہے ۔جب پاکستان پہنچ گئیں تو جرمنی سے فلاحی تنظیم سے حکم موصول ہوا کہ پاکستان سے بھارت چلی جاوں،اس وقت بھارت جانا مشکل تھا اور پھر میں کراچی کی ہو کر رہ گئیں ۔ڈاکٹر روتھ فاو کہتی ہیں کہ اسی دوران میری ایک بہن جو کہ فارماسسٹ تھی ،مجھے میکلوڈ روڈ کراچی میں جزام کے مریضوں کے گاوں لے گئیں ،ان غریبوں کا حال دیکھا تو چیخیں نکل گئیں اور پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرلیا ،تہیہ کرلیا کہ جب تک یہ تندرست و توانا نہیں ہوں گے ،جرمنی نہیں جاوں گی ۔یہ تو تھی ڈاکٹر روتھ فاو کی مختصر مگر انسانیت سے لبریز ایک خوبصورت کہانی ۔جذام کے مریضوں کے لئے ٹریٹمنٹ سنٹرز قائم کرنا اصل کارنامہ نہیں ہے ،یہ کام تو کوئی اور بھی کرسکتا تھا ۔اصل کارنامہ ان جذام یا کوڑھ کے مریضوں کو پنانا ہے ۔یہ جس ملک اور معاشرے میں ہم رہتے ہیں ،یہاں کوڑھ کے مریضوں سے نفرت کی جاتی ہے ،انہیں اچھوت کے مریض سمجھا جاتا ہے ،کہا جاتا ہے یہ خدا کا عذاب ہے ۔کہا جاتا ہے جسے کوڑھ کا مرض ہے وہ دائرہ انسانیت سے خارج ہے ۔انہیں زندہ لاشیں سمجھا جاتا ہے ۔لیکن روتھ فاو نے یہاں کی انسانیت کی زہنیت کو بدلا ،انہیں سمجھایا کہ یہ کوئی عذاب نہیں ،دیگر امراض کی طرح ایک مرض ہے ،ان کوڑھ کے مریضوں کے ساتھ رہیں ،ان کا علاج کیا ،ان کے دکھ اور درد کو اپنایا ۔پاکستان کے عوام کو بتایا کہ یہ مریض کوئی اچھوت نہیں ہیں ،ان کا علاج ممکن ہے ۔پھر انہی مریضوں کو صحت یاب بناکر انہیں معاشرے کا فعال رکن بنایا ۔اس کے ساتھ ڈاکٹر روتھ فاو نے نابیناوں اور ٹی بی کے مریضوں کے لئے بھی کام کیا ۔دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں ،کیا روتھ فاو جیسے انسان اس معاشرے میں ہیں ،ہم تو اپنوں سے نفرت کرتے ہیں ،اپنوں کو دھماکوں سے اڑاتے ہیں ،وہ تو جرمنی سے آئیں تھی ،پھر ان غریبوں کی ہو کر رہ گئیں ،اپنا ملک چھوڑ دیا لیکن انسانیت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ کر گئیں ۔ثابت ہوا کہ ملک یا مذاہب اہم نہیں ،اہم صرف انسانیت ہے ،انسانیت ہی سب سے بڑا مذہب اور سب سے بڑی محبت ہے ۔کاش ہم سب کی زہنیت روتھ فاو جیسی ہوتی ،ایسا ہوتا تو آج یہاں صرف محبت ،امن ،بھائی چارہ اور انسانیت ناچ رہی ہوتی ۔روتھ فاو نے اپنی بائیو گرافی میں لکھا ہے کہ تاریکی کو کوسنے سے بہتر ہے کہ شمع روشن کردی جائے اور اس سے بھی کہیں بہتر ہے کہ اس شمع کو مسلسل روشن رکھا جائے ۔وہ تو چلی گئیں ،مجھے معلوم نہیں کہ یہ شمع روشن رہے گی یا نہیں ،لیکن ہاں ،یہ معلوم ہے کہ ڈاکٹر روتھ فاو ہمیشہ ہمیشہ انسانیت کے دلوں میں زندہ رہیں گی ،ان کا ایک ہی نعرہ تھا کہ انسانیت زندہ باد ۔کاش ہم سب کا بھی یہی نعرہ ہو ،انسانیت زندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔