انسانیت کی عظیم چھلانگ
حصہ دوم/آخری حصہ
زمین سے اس قدر دُوری کے باعث سائنسدانوں نے ان تینوں خلاء بازوں کی موت یقینی قرار دے دی تھی، کیونکہ آکسیجن ٹینک پھٹ جانے کے بعد آکسیجن بہت ہی کم مقدار میں تھی ۔ خلائی جہاز میں آکسیجن کے ذریعے سانس لینے کے علاوہ، آکسیجن کو راکٹ کے ایندھن ، بجلی اور پانی بنانے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اب ان خلاء بازوں کے پاس صرف 2 راستے تھے یا تو خلائی گاڑی کو آن رکھتے اور اندر کا درجہ حرارت نارمل رکھتے لیکن آکسیجن اتنی مقدار میں نہ رہتی کہ یہ سانس لے پاتے اسی خاطر انہوں نے ساری خلائی گاڑی آف کردی اور فیصلہ کیا کہ چاند کا چکر لگا کر چاند کی کشش ثقل استعمال کرتے ہوئے خلائی گاڑی کا رخ زمین کی جانب کیا جائے گا سواس خلائی گاڑی نے چاند کی سطح سے 254 کلومیٹر اوپر پرواز کرتے ہوئے چاند کا چکر لگایا ، تصاویر لیں اور واپسی کا رُخ کیا۔ زندگی کی امید لیے واپسی کے اس تکلیف دہ سفر میں جہاں ایک طرف پانی کی کمی کا ان خلاء بازوں کو سامنا کرنا پڑا وہیں کپکپا دینے والی ٹھنڈ نے ان کو جکڑے رکھا۔ 17 اپریل 1970ء کو یہ خلائی گاڑی زمین کے مدار میں داخل ہوئی اور یوں ان تینوں خلابازوں کو باحفاظت واپس اتار لیا گیا ۔بعدازاں اس مشن پر ہالی ووڈ نے "اپالو13" نامی شاہکار فلم بھی تخلیق کی جس میں اس حادثے اور اس دوران گزارے گئے ایک ایک لمحے کو انتہائی زبردست انداز میں فلمایا گیا ، یہ فلم انٹرنیٹ پر اردو ڈبنگ میں موجود ہے ۔خیر اپالو13 مشن کو ناکام مشن قرار دیا گیا کیونکہ یہ چاند پر اترنے میں ناکام رہا۔ 31 جنوری 1971ء کو ناسا نے اپالو 14 مشن لانچ کیا ۔ ایلن شیپرڈ، ایڈگر مشل،سٹُووَرٹ رُوسا اس مشن کا حصہ تھے۔ اس مشن میں خلاء باز ایلن شیپرڈ اور ایڈگر مشل نے چاند کی سطح پرسوا دو دن گزارے جبکہ رُوسا راکٹ کے دوسرے حصے میں چاند کا چکر لگاتے رہے۔اس دوران 45 کلو پتھراکٹھے گئے، ایلن شیپرڈ نے چاند پر گالف بھی کھیلی ،جو گیندیں وہ خصوصی طور پر زمین سے لے کر گئے تھے۔ اس کے علاوہ چاند کی سطح پر مختلف پودوں کے بیج لگائے اور کچھ آئینے بھی چاند کی سرزمین پرلگائے جنہیں retro-reflectors کہا جاتا ہے،آج سائنسدان ان آئینوں پر زمین سے لیزر شعاعیں پھینک کر ان سے منعکس ہونے والی روشنی کے ذریعے چاند اور زمین کے درمیان exact فاصلہ ناپتے رہتے ہیں۔بہرحال یہ ایک کامیاب مشن تھا اور باحفاظت زمین پر لوٹ آیا۔ 26 جولائی 1971ءاپالو 15 لانچ کیا گیا۔ اس بار ڈیوڈ سکاٹ اور جیمز ارون نے چاند کی سطح پر تین دن گزارے جبکہ الفریڈ وارڈن راکٹ کے دوسرے حصے میں رہ کر چاند کے گرد چکر لگاتے رہے۔یہ پہلا مشن تھا جس میں ناسا نے باقاعدہ چاند پر دُور دراز علاقوں تک سفر کرنے کے لئے چاند گاڑی بھی بھیجی جس میں بیٹھ کر خلاء بازوں نے چاند کے 28 کلومیٹر تک کے علاقے کا سفر کیا ، پتھر جمع کیے۔ اس مشن کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ پہلی بار چاند پر 10 فٹ تک کھُدائی کرکے پتھر نکالے گئے ۔ چاند پر گیلیلیو تھیوری کا مشہور تجربہ بھی کیا گیا جس کے تحت اسکاٹ نے ہتھوڑی اور پرندے کے ایک پَرکو ایک ہی اونچائی سے جب پھینکا تو دونوں چاند کی سطح پر اکٹھے گرے۔ اس کے علاوہ دوبارہ چاند کی سطح پر مختلف جگہ retro-reflectors لگائے گئے۔اپالو 15 مشن اس پراجیکٹ کا سب سے کامیاب ترین مشن قرار دیا گیا۔ 16 اپریل 1972ء کو ناسا نے اپالو 16 مشن لانچ کیا۔ جان ینگ اور چارلس ڈیوک نے چاند پر تقریباً 4 دن گزارے جبکہ کین میٹنگلی راکٹ کے دوسرے حصے میں رہ کر چاند کا چکر لگاتے رہے۔ واپسی پر چارلس ڈیوک اپنی فیملی کی تصویر چاند کی سطح پر چھوڑ کر آئے جس کے پیچھے ان کے اور ان کی فیملی کے تمام ممبرز کے آٹو گراف اور پیغامات موجود تھے۔اس مشن میں تکنیکی خرابیوں کے باعث اس کو ایک دن پہلے زمین پر واپس بلا لیا گیا۔ 7 دسمبر 1972ء کو اپالو پراجیکٹ کا آخری مشن لانچ کیا گیا جسے اپالو 17 نام دیا گیا۔ ہیریسن سکیمتھ اور یوجین کرنین نے چاندکی سطح پر 3دن گزارے جبکہ رونالڈ ایون راکٹ کے دوسرے حصے میں چاند کا چکر لگاتے رہے۔ چونکہ یہ اپالو پراجیکٹ کا آخری مشن تھا اور ناسا کا دعویٰ تھا کہ یہ پراجیکٹ صرف امریکا نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے ترتیب دیا گیا ہے اسی خاطر امریکا نے اپنے دوست ممالک کے جھنڈے بھی اس مشن کے دوران خلاء بازوں کے حوالے کیے جو چاند کی سیر کرکے واپس آئے ۔ یہ مشن کامیابی سے واپس زمین پر اتر گیا ۔ یوں اپالو پراجیکٹ کو ختم کرنے کا باقاعدہ اعلان کیاگیا۔ نیل آرمسٹرانگ (چاند پر قدم رکھنے والے پہلے انسان) 1973ء کو کراچی آئے تو پاکستانی قوم نے ان کا زبردست استقبال کیا گیا اس موقع پر وہ سپارکو کے حکام سے ملے اور وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کو نیل آرمسٹرانگ نے وہ پاکستانی جھنڈا تحفے میں دیا جو اپالو 17 کے ساتھ 3 دن چاند پر گزار کے آیا تھا ۔ اس کے علاوہ چاند سے لایا گیا پتھر بھی تحفے میں پیش کیا۔ ناسا کی جانب سے پاکستانی قوم کو دیے گئے یہ انمول تحفے آج بھی کراچی میوزیم میں موجود ہیں۔ 1972ء کے بعد کسی انسان کو اب تک چاند پر دوبارہ نہیں بھیجا گیا لیکن فلکیات سے شغف رکھنے والے دوستوں کے لئے بہت بڑی خوشخبری ہے کہ ناسا نے 13 دسمبر2017ء کو اعلان کیا ہے کہ بہت جلد چاند پر اور اس کے بعد مریخ پر انسان کو بھیجنے کے مشن کا اعلان کیا جائے گا۔ چاند پر قدم رکھنا اتنا آسان اُس وقت بھی نہیں تھا جب سوچا جارہا تھا اور آج بھی نہیں ہے جب اس کا بنا تحقیق انکار کردیا جاتا ہے۔اس ضمن میں اپالو مشنز پر کچھ اعتراضات اٹھائے ، جس میں سب سے پہلا مشہور ترین اعتراض یہ ہے کہ اپالو 11 مشن میں جب چاند پر امریکی پرچم گاڑا جارہا تھاتو اس کے بعد بھی وہ لہراتا کیوں رہا؟ اس متعلق سائنسدان یہ جواب دیتے نظر آتے ہیں کہ وہ امریکی پرچم کپڑے کا نہیں بلکہ نرم پلاسٹک کا بنا ہوا تھا، لپیٹنے کی وجہ سے اس پر سلوٹیں موجود تھیں جوتصاویر میں نظر آئیں اور جھنڈا لہراتا معلوم ہوا، اس کے علاوہ جھنڈے کو سیدھا رکھنے کے لئے اس میں موجود ڈنڈے کے بالکل اوپر perpendicular direction میں ایک چھڑی لگائی گئی اور اس کے اوپر جھنڈا چڑھایا گیا جس کی وجہ سے جھنڈا سیدھا رہا سرنگوں نہیں ہوا،اسی خاطر جھنڈا لگانے کے دوران جنبش کی وجہ سے کافی دیر تک جھنڈے کا نیچے والا حصہ ہلتا رہا ۔ یہ تجربہ زمین پر بھی بآسانی کیا جاسکتا ہے مگر چونکہ یہاں گریوٹی بہت زیادہ ہے اور ہوا موجود ہے تو ہوا کی رگڑاور زمین کی کششِ ثقل کے باعث جھنڈا کم دیر ہلے گا جبکہ چاند پر گریوٹی کم اور ہوا نہیں ہے جس کی وجہ سے جھنڈا کافی دیر ہلتا رہا۔ اس کے علاوہ دوسرا اعتراض یہ اٹھایا جاتا ہے کہ چاند پر کھینچی گئی تمام تصاویر میں زمین تو نظر آرہی ہے مگر ستارے کیوں نہیں ؟ اس کی توجیہہ سائنسدان یہ پیش کرتے دِکھائی دیتے ہیں کہ چونکہ چاند کی سطح چمکدار ہے اورجہاں یہ مشنز لینڈ ہوئے اُن تمام جگہوں پر دِن تھا، لہٰذا سطح پر زیادہ روشنی ہونے کی وجہ سے تارے کیمرے میں ریکارڈ نہ ہوسکے ۔اس کے علاوہ یہ اعتراض اکثر اٹھایا جاتا ہے کہ زمین کے مدار سے باہر خطرناک سولر ریڈیشنز موجود ہوتی ہیں اُن میں سے کیسے راکٹ انسانوں کو لے کر گزر گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ راکٹ پر ایلومینیم اور دیگر دھاتوں کی موٹی تہہ چڑھائی جاتی ہے جو راکٹ اور عملے کو سولر ریڈیشن سے محفوظ رکھتی ہے ۔ اعتراض کرنے والے اپالو مشنز پر بنائی گئی ویڈیوز کو جعلی قرار دیتے ہیں جس کا جواب یہ ہے کہ 1972ء کے بعد متعدد ممالک کے مشنز چاند پر اترے اور تقریباً سب نے اپالو مشنز کی باقیات کو وہاں نہ صرف دیکھا بلکہ ریکارڈ کرکے دنیا کو بھی دِکھایا یاد رہے اپالو مشنز کی تصدیق کرنے والے ان ممالک میں امریکا کے دشمن ممالک روس، چین، جاپان وغیرہ سب سے زیادہ شامل ہیں !۔اس کے علاوہ یہ اعتراض بھی کیاجاتا ہے کہ واپسی کے لئے لانچنگ پیڈ نہیں تھا راکٹ کیسے اڑا؟ اتنا فیول کہا ں سے آیا؟ تو اس کا جواب سائنسدان یہ دیتے نظر آتے ہیں کہ چونکہ چاند پر کشش ثقل انتہائی کم ہوتی ہے اسی خاطر وہاں پر اڑنے کے لئے زیادہ فیول بالکل درکار نہیں ہوتا ، اس کے علاوہ چاند پر لینڈ کرنے والے کیپسول میں راکٹ ہوتا ہے جو اسے اترنے اور اڑنے میں مدد کرتا ہے بعد میں چاند کے مدار میں پہنچ کر یہی کیپسول بڑے راکٹ کے ساتھ جڑجاتا ہے جو چاند کے مدار میں گردش کرتے ہوئے اس کا انتظار کررہا ہوتا ہے ۔ناقدین یہ بھی کہتے دِکھائی دیتے ہیں کہ 1972ء کے بعد امریکا نے کوئی مشن کیوں نہ بھیجا؟ اس کا یہی جواب ہے کہ ان مشنز پر اربوں ڈالر خرچ ہو رہے تھے اور نتیجے میں صرف چاند سے پتھر ہی لائے جارہے تھے جو کہ پیسے کا ضیاع تھا،ان مشن کو بھیجنے کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ انسان چاند تک جاسکتا ہے جو کہ ثابت ہوگیا۔ اسی وجہ سے 1972ء کے بعد ناسا کے فنڈز کو محدود کردیا گیا ۔ چاند سے لائے گئے پتھروں پر جعلی ہونے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے جس کے ثبوت میں ہالینڈ کا واقعہ پیش کیا جاتا ہے، اس کا جواب سائنسدان یوں دیتے نظر آتے ہیں کہ چاند سے لائے گئے پتھروں کو پوری دنیا میں تحقیق کی غرض سے تقسیم کیا گیا اور یہ پتھر دنیا بھر کے میوزیمز کی زینت بنے، ہالینڈ واقعے میں چاند سے لائے گئے اصل پتھر میوزیم سے چُرا کر اُن کی جگہ چوروں نے جعلی پتھر رکھ دیے تھے جس کا علم انتظامیہ کو بعد میں ہوا ۔اپالو مشن کی کامیابی کےلئے یہی ثبوت کافی ہے کہ اس مشن میں لوگوں کی جانیں گئیں، 10 سال تک ساری محنت دنیا کے سامنے ہوتی رہی، لاکھوں امریکی اس مشن کا حصہ رہے، اس پر اعتراضات وہی لوگ کرتے ہیں جو اس مشن کا حصہ نہیں تھے، جو اس مشن کا حصہ رہے انہوں نے مرتے دم تک اس مشن کا حصہ ہونے پر فخر کیا۔اس کے علاوہ سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب کچھ جھوٹ ہے تو پھر چاند کی سطح پر retro-reflector کیسے پہنچے؟ جنہیں آج بھی سائنسدان استعمال کررہے ہیں۔ لہٰذا ان تمام حقائق کی بنا پر بلا جھجھک کہا جاسکتا ہے کہ انسان چاند پر پہنچا ہے یہ ایک حقیقت ہے اور بڑی حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے سوچ کی وسعتیں بھی کھولنی پڑتی ہیں ورنہ کنویں کا مینڈک بننا کوئی بڑا کام نہیں۔ کائنات بے انتہاء وسیع ہے اس کو سوچتے ہوئے اپنے vision کو بھی وسیع رکھیے ورنہ یہ دماغ زمین سے پرواز تک نہیں کرنے دے گا۔ اسی خاطر تو اقبالؒ نے کہا کہ
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں!…..ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں!
اِسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا!…….کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“