کئی کروڑ سال پہلے جب انسان تھے ہی نہیں اور زمین پر جراسک ایرا یعنی ڈائنوسارز کا دور تھا تو میکسکو کے قریب ماؤنٹ ایورسٹ سے بھی بڑا شہابیہ ٹکرایا۔ اس شہابیے کے گرنے سے کئی برس زمین پر تک گرد و غبار، راکھ کے بادل چھائے رہے۔ زمین ایک طویل سرد دور میں چلی گئی۔ زمین پر جانوروں کے لیے خوراک کی قلت ہو گئی اور ایسے جانور جو زیادہ خوراک استعمال کرتے جیسے کہ ڈائناسورز ، اُنکے لیے زندگی مشکل ہو گئی۔ اگلے کچھ عرصے میں نہ صرف ڈایناسورز بلکہ زمین پر موجود انواع کے تین چوتھائی معدوم ہو گئی۔
اس تباہی کو جاننے اور خلا کی تسخیر اور وسائل کی دستیابی کے بعد انسان کا اگلا قدم یقیناً زمین کو کسی ممکنہ سیارچے کے ٹکراؤ سے بچانا تھا؟ مگر کیسے؟ ہم کس طرح ایک سیارچے کو زمین کی طرف آنے سے روک سکتے ہیں؟
اس کے لئے ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ سیارچے ہوتے کیا ہیں؟ اور یہ کس طرح کے مدار میں چکر کاٹتے ہیں اور انکا مدار کسیے تبدیل ہوتا ہے؟
سیارچے دراصل ماضی کے کسی سیارے کی باقیات ، کوئی ایسا سیارہ جو بننے میں ناکام ہو گیا ہو یا نظامِ شمسی کے وجود میں آنے کے بعد کئی چھوٹی بڑی خلائی چٹانیں جو گریویٹی کے باعث ایک جگہ اکٹھی ہو گئی ہوں وغیرہ وغیرہ سے بنتا ہے۔نظامِ شمسی میں کئی سیارچے موجود ہیں۔مگر یہ زیادہ تر مشتری اور مریخ کے درمیان ایک علاقے میں ہیں جسے ایسٹرآیڈ بلٹ کہا جاتا ہے۔
ان میں سے کئی سیارچے یا چھوٹے شہابیے ہر روز زمین کیطرف آتے ہیں۔ مگر تیزی سے آتے ہوئے جب یہ زمین کی اوپری فضا میں داخل ہوتے ہیں تو رگڑ کھانے سے چھوٹے چھوٹے ذرات میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور یوں زمین کسی تباہی سے محفوظ رہتی ہے۔
مگر کبھی کبھی یہ شہابیے بے حد بڑے ہوتے ہیں جیسے کہ کوئی سیارچہ جو زمین کیطرف آئے اور بہت بڑا ہو تو زمین کی فضا میں رگڑ کھا کر بھی اسکا بڑا حصہ زمین پر تباہی مچا سکتا ہے اور ایسا ہی کروڑوں سال پہلے ڈائناسورز کے دور میں ہوا۔
لہذا اب ناسا کے سائنسدانوں نے ایسے ہی کسی ممکنا سیارچے کو زمین پر تباہی سے بچانے کے لیے پچھلے سال نومبر میں ڈارٹ نامی خلائی مشن بھیجا جسکا مقصد مشتری اور مریخ کے بیچ ایک سیارچے دیدموس کے گرد گھومتے اسکے چھوٹے سے چاند کا محور تبدیل کرنا تھا تاکہ مستقبل میں ہمارے پاس ایسی ٹیکنالوجی ہو جو کسی سیارچے کو یہ پر گرنے کی بجائے اس سے دور کر دے۔
اس سلسلے میں 26 ستمبر کو اس سیارچے کیطرف بھیجے گیا سپیس کرافٹ 6.6 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سیارچے دیدیموس کے چاند ڈیمورفوس سے ٹکرایا۔
اس سپیس کرافٹ کے ٹکراؤ کے بعد خلا اور زمین پر موجود ٹیلی سکوپس کی مدد سے دیکھا گیا کہ سیارچے کے گرد گھومتے چاند کے مدار میں کس رفتار سے کمی واقع ہوئی ہے۔پہلے یہ چاند سیارچے کے گرد 11 گھنٹے اور
55 منٹ میں ایک چکر مکمل کرتا تھا۔
ٹکراؤ سے پہلے ناسا کا خیال تھا کہ سیارچے کے مدار کی رفتار میں 73 سیکنڈ کا فرق ائے گا مگر بعد کے مشاہدات سے معلوم ہوا کہ اسکی رفتار میں 32 منٹ کی کمی آئی ہے جو یقیناً ممکنہ نتائج سے بڑھ کر ہے۔ گویا اب یہ چاند سیارچے کے گرد 11 گھنٹے اور 23 منٹ میں ایک چکر لگاتا ہے۔اس پیمائش میں 2 منٹ کی کمی بیشی ہو سکتی ہے۔
اس مشن سے یہ ثابت ہوا کہ مستقبل میں اس طرح کی ٹیکنالوجی سے سیارچوں سے سپیس کرافٹ ٹکرا کر انکے مدار کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ جو ممکنا طور پر آنے والے وقتوں میں کسی بڑے سیارچے سے ٹکرا کر اسکا مدار اس حد تک تبدیل کر دے کہ وہ زمین سے ٹکرانے کی بجائے اسکے پاس سے گزر جائے اور زمین محفوظ رہے۔
یقیناً یہ مشن انسانیت کی اور سائنس کی جیت ہے قدرتی آفات سے لڑنے کی۔اور اس مشن پر کام کرنے والے سائنسدن اور انجنیئر مبارکباد کے مستحق ہیں۔
نوٹ: مشن سے پہلے یا مشن کے بعد دیدیموس اور ڈیمورفوس دونوں کا دور دور تک زمین سے ٹکرانے کا کوئی امکان نہیں تھا یا ہے۔ یہ مشن محض ٹیکنالوجی کو ٹیسٹ کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...