انسانی تہذیب و تمدن کی تاریخ اس کے علم و ادراک کی تاریخ ہے اور اسی علم و ادراک کی تاریخ معروض میں فطرت کے ساتھ ایک مسلسل جنگ کی تاریخ ہے، جسے وہ اپنی بقا اور بہتر زندگی کے حصول کی خاطر اب تک مسلسل لڑتا آیاہے۔ ”انسان ایک سماجی حیوان ہے“ اور اپنی بقا کے سوال سے متعلق اسے شروع دن سے یہ ایقان ہے کہ انسانی نوع کی بقا کا راز اس کی اجتماعیت میں مضمرہے اور یہ بھی جانا ہے، کہ اجتماع سے کٹ کر رہنا معدومیت کی علامت ہے۔ اس اجتماعی صورت کو برقرار رکھنے کے لئے انسان نے اپنی تاریخ کے ہر ایک موڑ پر سرتوڑ کوشش کی ہے۔ اجتماع سے نہ کٹنے کی خواہش اور اکیلے پن میں مارے جانے کے خوف کی صورت کا اظہار وقت کے ساتھ ساتھ اس کی علمی استعداد اور شعوری سطح کے مطابق مختلف صورتوں میں بغیر کسی وقفے کے ایک تسلسل کے ساتھ ہوتارہاہے۔ انسانی نوع اپنے اردگرد کی فطرت، سماج اور انسانی نفسیات وغیرہ یا مختصراً علمی استعداد کے حوالے سے مسلسل نیچے سے اوپر کی طرف محوپرواز رہی ہے۔ انسانی علمی و سماجی تاریخ میں جھانکنے سے ہمیں یہ بات بآسانی معلوم ہوجاتی ہے کہ انسانی علم و ذہن کی وسعت اس کی اجتماعی ساخت کی وسعت کے راست متناسب رہی ہے۔ یعنی: ہم دیکھتے ہیں کہ کرہ ارض کے جس خطے میں اگر انسانوں کے پاس ان کو محیط مادی فطرت اور انسانی سماج کے حوالے سے علم محدود رہی ہے تو وہاں انسانی اجتماع کی شکل خاندانوں تک محدود رہی ہے اور ایسے خاندانوں میں پلنے والے افراد کی ذہنی صلاحیت اپنے خاندان سے باہر کے کسی انسان سے جڑجانے کی سرے سے رہی ہی نہیں ہے۔ اسی طرح وہ خطہ کہ جہاں انسانوں کی علمی و ذہنی وسعت پہلے کی نسبت ذرا وسیع رہی ہو، تو وہاں خاندان کی اجتماع کی وسعت پھیل کر ایک قبیلے کو اپنے حصار میں لیتی نظر آتی ہے، علمی و ذہنی استعداد اگر دوسری سطح سے بلند ہوئی ہو، تو وہاں اجتماعی وسعت قوم کو احاطے میں لیے رکھتی ہے اور قوم کے افراد کا اپنی بقا کے حوالے سے ان کا ہر ایک عمل، تصور اور فیصلے کی رینج قومی ساخت تک محدود رہی ہے کیونکہ ایسی صورت میں مجموعی طور پر افراد یا اجتماعی ذہن میں وہ صلاحیت گویا سرے سے ابھی تک نمو ہی نہیں پاچکی ہوتی ہے، کہ وہ قومی اجتماعی ساخت یا سائیکی کے خول کو توڑ کر کسی ایسے انسان سے جڑنے یا اس کی فلاح و بہبود کا سوچے کہ جو ان کی قومی ساخت اور سائیکی کے دائرے سے باہر رہتا ہو۔
اگر کسی خطے میں انسانوں کا علم آفاقیت کی صورت اختیار کر گئی ہو، کہ جس نے وہاں کے رہنے والے انسانوں کی اپنی بقا سے منسلک اہم سوال کو ایک عظیم تر اجتماعی صورت میں گم کردی ہو، تو وہ انسان انسانی نوع کی وسیع تر اور حقیقی بقا کی خواہش میں تمام انسانوں سے جڑنے اور ایک ہی انسانی اجتماع کی بات کرے گا، اور یہی دراصل کرہ ارض پر رہنے والے ہر انسان کی بقا کی خواہش جیسے بنیادی سوال کو ٹھیک طور پر حل کردینے جیسے فیصلہ کن اور ٹھیک جواب کی ریاضیاتی تشریح ہے۔
جہاں انسان میں معلوم سے نامعلوم کی طرف بڑھنے یا چھلانگ لگانے کا مادہ موجود ہے تو وہاں یہ بات بھی حقیقت ہے کہ انسان بہت سی صورتوں میں اپنی بدنی اور ذہنی فعلیت کو اپنی علمی اور ذہنی استعداد سے آگے بڑھانے پر بیک وقت خوفزدہ بھی رہتاہے۔ انسانی اذہان کی عمیق گہرائیوں میں فعال و موجزن اس کی فنا کا خوف اسے بہت سی مانوس صورتوں میں آگے بڑھنے سے روکے رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہر زمانے کے انسانوں کی اکثریت ایسے لوگوں کی رہی ہیں، کہ جو اپنی علمی اور ذہنی استعداد کے احاطے سے باہر چمکنے والی روشنی سے خوف کھاکر اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے رہے ہیں اور ان کے اس شک کا اظہار ان کی شدید نفرت، شدت پسندی اور ہٹ دھرمی کی صورت میں پنپتا رہا ہے۔ وہ اپنی بقا کی ضامن اجتماعی ساخت کی وسعت اور ساخت میں چمک کو اتنا ہی دیکھنا گوارا کرتے ہیں جتنا کہ ان کا علم اور ذہن و شعور وہ انہی خطوط کے مطابق اپنی اجتماعی زندگی کو ڈھالے رکھتے ہیں۔ یہی وہ اہم خطوط ہوتے ہیں کہ جن پر جبری طور پر چل کر ایک انسان یا مجموعی طور پر اجتماعی شعور ہی، شخصیت پرستی کے گہرے بادلوں میں سانسیں لیتی ہے۔ وہ اپنی اس اجتماعی ساخت کو برقرار رکھنے کے لئے اپنے درمیان سے ایک ناخدا یا لیڈر کا انتخاب کرتے ہیں اور اسی لیڈر ہی کی ذات میں وہ اپنی اجتماعی ساخت کی تمام اہم کڑیوں کو گم کردیتے ہیں اور اپنے لیڈر ہی کی ذات میں تمام افراد اپنی خواہشات، آسودگیوں، رحمتوں، آہوں سسکیوں؛ غرضیکہ وہ اپنے اور اپنی اجتماعی ساخت کی شادمانی اور بقا کوہر لمحہ منعکس ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ علمی اور ذہنی سطح پست ہونے کی صورت میں افراد میں ایسی ذہنی استعداد گویا سرے سے موجود ہوتی ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے ناخدا یا لیڈر کی ذات میں مضمر تضادات کی تحلیل کرسکے اور پھر ایسے گھمبیر تضادات کی اصلاح کرنے کی خاطر اپنے لیڈر کی ذات، کردار یا فعلیت کے حوالے سے سوالات اٹھا سکے۔ جہاں ایک طرف وہ خود بھی ایسے اصلاحی سوالات اٹھانے کے اہل نہیں ہوتے تو دوسری طرف وہ ان افراد کے حوالے سے بھی ایک شدید قسم کی نفرت جیسی کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں کہ جن کی علمی اور ذہنی وسعت اتنی بڑھ چکی ہوں کہ وہ لیڈر کے حوالے سے اصلاحی سوالات اٹھاسکے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کم علمی اور کسی قدر پست ذہنی کی کیفیت میں مبتلا افراد کے لیڈروں کے حوالے سے جب کسی کی طرف سے سوالات اٹھائے جاتے ہیں تو پہلی صورت میں ان کا جواب گولی اور ہاتھاپائی سے دیئے جانے کا قوی امکان رہتاہے اور اگر ایسا کسی صورت میں ممکن نہ ہو تو پھر ہر ایک اٹھائے گئے سوال کا جواب سینکڑوں اورہزاروں قسم کی گالیوں سے دی جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ وہ خطرناک رویہ اور اجتماعی ذہنی کیفیت ہوا کرتی ہیں جو پہلے سے موجود علم اور ذہنی استعداد کو اپنے احاطے سے پھلانگ جانے اور معلوم سے نامعلوم میں چھلانگ لگانے جیسی انسانی صلاحیت کو زمانے میں دیر تک معطل کیے رکھنے کی وجہ بنتی رہتی ہے۔ ایسے معاشرے یا اجتماع سے جڑے رہنے والا فرد چونکہ پہلی صورت میں اس اجتماعی ڈھانچے کو ہرلمحہ بچانے کی فکر میں رہتا ہے، جس کی سالمیت پر اس کی بقا کی خواہش کی تمام عمارت استوار رہتی ہے، اس لئے اپنے اردگرد کی مادی فطرت اور انسانی سماج کے حوالے سے اپنی محدود علمی حالت اور قدرے تنگ ذہنی استعداد کے کارن اسے ہرلمحہ یہ خوف کھائے جاتی ہے کہ اگر اصلاح پسندوں کی طرف سے لیڈر یا میر کارواں کی ذات میں مضمر گھمبیر تضادات پر سوالات اٹھائے گئے تو اس سے ایسی اجتماعی ساخت یا اسٹرکچر بکھر کر ریزہ ریزہ ہوجائے گی، جس پر اس کی تمام ترہستی، کامرانی اور عظیم تر بقا کی خواہش کی بلڈنگ استوار ہے۔ وہ اس اہل ہوتا ہی نہیں، جو اس قسم کے اصلاحی سوالات کی کوکھ میں ان اہم عناصر کی رقص اور روشنی کو دیکھ سکیں، جو اس کی انفرادی اور اجتماعی بقا کے حوالے سے پہلی صورت سے زیادہ اہم، پائیدار اور مکمل ہیں۔
آج کی علمی دنیا کی ساخت ماضی سے اس لئے بھی کافی مختلف ہے کہ آج کی دنیا مادی آلات اور اس کے نتیجے میں پروان چڑھنے والے انسانی شعور کی آفاقی ساخت، یک رنگی اور قدرے ہم آہنگی کی بنیاد پر ماضی کے مقابلے میں ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔ انٹرنیٹ کا مشترک عالمی نظام، سوشل میڈیا اور انفارمیشن کی گلوبل سطح پر سیکنڈوں میں ترسیل تیزی کے ساتھ انسانوں اور قوموں کے قدیم زمانوں سے چلے آرہے مختلف رنگوں اور پرنٹوں کو ایک وسیع اور واحد عظیم ساخت و رنگ کے مہاسمندر میں گم کردینے کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ مختلف خطوں میں بسنے والے انسانوں اور قوموں کے ذہن و علوم ایک بے تحاشا رفتار کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا کر ایک ہی شکل اختیار کرتی جارہی ہیں اور ماضی کی مقامی منڈی اور سادہ معیشت کے مقابلے میں سرمایہ دارانہ نظام کے سائے میں تیزی سے نمو پانے والی عالمی منڈی کی پیچیدہ معیشت کے چمتکار، ایسی دنیا کی چھاؤں میں پنپنے والے ذہن و شعور کی وسعت بھی تیزی کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے اور یہ وہی وسعت ہے، جو تمام تر انسانی تاریخ میں انسانی اجتماعی ساخت و حدود کے راست متناسب رہی ہے۔ آج کا انسان تیزی کے ساتھ ایک عظیم اجتماع اور کلیت میں ضم ہوجانے کی طرف ذہنی اور شعوری طور پر جھک رہاہے جس میں قدیم شخصیت پرستی، اباپرستی اور نرگسیت کی قدیم ترین شکل شاید زیادہ دیر تک ”سروائیو“ نہ کرسکیں۔
ایک ہی شہر میں ایک ہی چوراہے پر ایک ہی گھنٹے میں تین ایسے الگ الگ افراد سے واسطہ پڑنا اب معمول بنتا جارہاہے، جن میں فطرت اور انسانی سماج کے حوالے سے علمی و ذہنی استعداد کی سطح فوراً عیاں ہوجاتی ہیں یعنی:
1۔۔۔۔ فطرت اور انسانی نوع؛ اور سماج کے حوالے سے سب سے پست اور مبہم حالت، کہ جس میں کسی شخص کی اڑان کی حد صرف اس کے مخصوص قبیلے یا فرقے کی وسعت کی حد ہوتی ہے۔
2۔۔۔۔ درمیانہ اور کسی قدر صاف ذہنی حالت و استعداد کہ جس میں پرواز کی حد قومی وسعت و سائیکی یا مذھب کی حدہوتی ہے۔
3۔۔۔۔ اور سب سے بڑی، آفاقی اور شفاف ترین ذہنی حالت و کیفیت کہ جس میں پرواز اور علم و انفارمیشن کی ترسیل کی حد ایک عظیم تر انسانی اجتماعی وسعت کی حدہوتی ہے۔ یہاں قومی و مذھبی ساخت میں بین الاقوامی مواد کا درآنا ضروری ٹھہرجاتاہے۔
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...