انسانیت گلوبل ہولوکاسٹ کی زد میں کیوں ہے؟
میری زندگی کا فارمولا یہ ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں ،جس طرح کی بھی صورتحال درپیش ہو،جو کچھ بھی زندگی کے ساتھ ہو رہا ہے ،اسی صورتحال کو تسلیم کرکے زندگی کو انجوائے کرناشروع کردیتا ہوں ۔مجھے زہن و روح پر دباؤ ڈالنا غیر فطری لگتا ہے ۔پاکستانی معاشرے میں ہمیشہ یہی سکھایا جاتا ہے کہ ٹینشن لینی ہے،اپنے آپ کو خوامخواہ پریشان کئے رکھنا ہے،لیکن مجھے اس طرح کی کشمکش سے شدید چڑ ہے ۔دل کرتا ہے تو کسی سے ملنے چلا جاتا ہوں۔دل کرتا ہے تو واک کے لئے نکل پڑتا ہوں۔ جو دل کہتا ہے وہی کرتا ہوں ۔۔
کسی قسم کےعمل کی تشریح سے مجھے شدید نفرت ہے ۔اگر یہ کردیا تو ایسا ہو جائے گا اور اگر ایسا ہو گیا تو تباہی آجائے گی۔اس طرح میں نہیں سوچتا۔گزشتہ روزطبعیت کی بے چینی کے سبب سائیں بابا سے ملاقات کرنے باغ جناح چلا گیا ۔سائیں بابا نے دیکھتے ہی کہا ،میاں تھکے تھکے لگ رہے ہو؟کیا ہوا؟میں نے کہا باباکچھ نہیں،بس آجکل ٹمپریچر نے میرے ساتھ دل لگی کی ہوئی ہے،شاید اسی وجہ سے مزاج یار میں تھکاوٹ کا عنصر غالب ہے ۔بابا مسکرائے اور فرمایاکوئی پریشانی ہے؟کسی قسم کے خوف کا شکار تو نہیں ہو ؟میں نے کہا بابا ایسی تو کوئی بات نہیں؟؟ یمن کے ایک بچے کی جنگ زدہ تصویر دیکھ لی ہے،اسی وجہ سے اداسی ہے۔یہ انسانیت کا بحران کب ختم ہوگا ؟بابا نے فرمایا بیٹا جی یہ بحران ختم ہو سکتا ہے ،اگر ایسا چکر چلے کہ زمین گردش کرتے ہوئے آسمان کی جگہ لے لے اور آسمان زمین کی جگہ پر آجائے ،مطلب یہ کائنات ہر طرح سے تہس نہس ہو جائے ،تب کہیں جاکر انسانیت کا بحران ختم ہوگا ۔
اس طرح سے ہی زمین کی فرسودہ روایات اور ماضی کا خاتمہ ہو گا ۔ انسانی بحران ان قدیمی روایات کی وجہ ہے ۔جب تک انسانوں کی دنیا سے نام نہاد اخلاقیات اور پرانے نظریات غائب نہیں ہوں گے ،اس وقت تک یمن میں بچے مرتے رہیں گے۔پاکستان اور بھارت جنگ کرتے رہیں گے،کشمیر میں قتل و غارت جاری رہے گی ۔سعودی عرب یمن میں بمباری کرتا رہے گا ۔امریکہ ایٹم بم بناتا رہے گا ،دنیا جنگ و جدل کا منظر پیش کرتی رہے گی۔سائیں بابا نے
فرمایاجس طرح تباہ کن زلزلہ آتا ہے اور بربادی ہوجاتی ہے، اسی طرح ان فرسودہ نظریات کے خلاف بھی ایک خوفناک زلزلہ آنا چاہیئے۔انسانیت ایک ایسے خطرناک موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں انسانیت کے خلاف بہت کچھ ہونے والا ہے ۔یہ انسانیت مرنے والی ہے ۔۔یہ خطرناک لمحہ ہےیا تو بہت جلد انسانیت کا خاتمہ ہو جائے گا یا پھر ایک نئے راستے کا انتخاب کرکے یہ انسانیت ایک نئے انسان کو جنم دے گی ۔
پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ایسی انسانیت اور ماضی کے انسان کے لئے کیوں پریشان ہو رہے ہو؟ یہ بیچارہ انسان دس ہزار سالوں سے ڈراونی کیفیت میں ہے،درندگی اور وحشت کا شکار ہے ،اسے مرنے دو ۔کچھ شاندار ہونے جارہا ہے ،یا انسانیت صفحہ ہستی سے مٹنے والی ہے یا پھر یہ انسان ماضی سے پیچھا چھڑانے والا ہے۔انسانیت نے نیا راستہ اختیار نہ کیا تو پھر اجتماعی خودکشی کرے گی ۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انسانیت نئے راستے کو اپنا لے ۔بس اب انسانیت کے ڈرامے کا ڈراپ سین ہونے کو ہے ۔ انسان کو بدلنا ہوگا یا پھر کائناتی خودکشی انسانیت کا مقدر بنے گی اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
بابا نے فرمایااس خوبصورت زمین کو نئے انسان کی ضرورت ہے ۔جب تک نیا انسان نہیں آتا ،مغرب اور مشرق ایک نہیں ہوتے ،انسانیت کی یہی کیفیت رہے گی ،لیکن پریشانی کی ضرورت نہیں ،یہ کیفیت عارضی ہے ۔میں نے پوچھا بابا اس انسان کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟یہ انسان اب روبوٹ بن گیا ہے۔اس انسان کے تمام رویئے ،عادات اور کلچر اندھیرے سے جنم لیتے ہیں۔اس انسان کی اندر کی دنیا تاریکی کا گھر بن چکی ہے۔جھنمی تاریکی میں روشنی کی کوئی امید نہیں ،اس لئے انسانیت کے زندہ رہنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ۔ماضی میں انسان مکمل طور پر مرنے سے بچ گئے کیونکہ انسان کو ہلاک کرنے والے ہتھیار مہلک نہیں تھے ۔اب ماشاللہ یہ انسانیت ایٹم بموں سے مالا مال ہے ۔ہائیڈروجن بم ہیں ،انسانیت کو مارنے والی زہریلی گیسیں ہیں ، انسانیت اپنے آپ کو اجتماعی طور پر مارنے کے لئے بھرپور صلاحیتوں سے مالا مال ہے ۔
میں نے کہا بابا کیا آج کا انسان انسانیت کو بچا سکتا ہے؟ بیٹا جی میں کہتا ہوں کہ نیا انسان اس انسانیت کے لئے ضروری ہے، نیا انسان جو شعور،آگہی اور بصیرت سے بھرپور ہوگا ،ماضی کی روایات ،ماضی کی بیماراخلاقیات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ دے گا ۔شعور اور آگہی والے انسان کے بغیر انسانیت کو محفوظ نہیں کیا جاسکتا ۔ایسے نئے انسان کی ضرورت ہے جو شاید پہلے نہ تھی ۔انسانیت کی تقدیر بے وقوف اور جاہل لوگوں کے کنٹرول میں ہے ۔یہ سب طاقت کے خواہش مند ہیں ۔پہلے ان کے پاس ایسی طاقت نہ تھی جو اب ہے ،اسی وجہ سے انسانیت خطرے سے دوچار ہے ۔میں نے کہا بابا ،میرے لئے کیا حکم ہے؟بیٹا ،شعور اور آگہی کے ساتھ زندگی کو انجوائے کرو ،فطرت کے ساتھ قدم ملا کا چلتے رہو ،یہی ایک راستہ ہے ،باقی جو تمہاری مرضی ۔کیوں پریشان ہوتے ہو اس خوبصورت زمین کے لئے ،یہ تو جھنم بن چکی ہے ۔ہر طرف آگ و خون کا کھیل ہے اور یہ انسان نہیں جو تمہیں نظر آرہے ہیں،یہ زمبیز ہیں،زندہ لاشیں ہیں ۔ایک ہی راستہ ہے یا نئے انسان کا ظہور یا پھر زمین کی تباہی۔۔۔
میں نے کہا بابا انسانیت کے بچنے کا کوئی نہ کوئی تو راستہ ہوگا ؟اگر ایک ایسا انقلاب آجائے جو شاندار اور تابناک ہو ،جس سے انسانی تاریخ کا تمام ماضی تباہ ہو جائے ،پھر تو شاید انسانیت بچ جائے اور ایسا ہونا بھی ممکن ہے ۔ ایسا انقلاب کیسے آسکتا ہے؟بابا نے کہا جب دنیا کا ہر فرد اپنے آپ کو پہچان اور جان لے گا ،جب وہ اپنے آپ کا آقا بن جائے گا ، ماضی سے نجات پاجائے گا،قدیمی تہذیبوں سے ناطہ توڑ دے گا اور صرف آگہی اور شعور کی بنیاد پر زندگی کو انجوائے کرے گا ۔جب انسان اپنے آپ کا آقا ہو ،تو وہ کیسے کسی دوسرے کی قبر کھود سکتا ہے ۔یہاں تمام انسان ایک دوسرے کی قبریں اس لئے کھود رہے ہیں کیونکہ یہ سب پرانی تہذیبوں اور روایات میں جکڑے ہوئے ہیں ۔
انسان لامحدود طاقت کے حصول کی خاطر اپنے اندر کی دنیا کو بھلا چکا ہے ۔جس دن انسان اپنے دل اور روح کی گہرائی کو سمجھ لے گا اسی دن نیا انسان جنم لے لے گا ۔ایٹم بم بنانے والی انسانیت روح کی الہامی اآواز کو کیسے سمجھ سکتی ہے؟
انسانیت نے بے پناہ طاقت تو حاصل کر لی ہے لیکن امن اور بصیرت سے محروم ہو گئی ہے۔۔کیا انسانیت ہے جو اپنی ایجادات اور کامیابیوں کی بدولت خطرے میں ہے؟ انسانیت کا مقصد طاقت ہے،امن نہیں ۔مقصد اگر دنیا کا امن ہوتا تو انسان کا تمام فوکس فطرت سے محبت ہوتا ۔پہلے تو ہولو کاسٹ یہودیوں کا ہوا تھا ،اب یہ ہولو کاسٹ تمام انسانوں کا ہورہا ہے۔مسلمان،عیسائی،ہندو اور یہودی سب ایک دوسرے کا قتل عام کررہے ہیں ۔یہ گلوبل ہولوکاسٹ ہے ۔اس انسان نے زندگی مکمل کر لی ، اس کا جانا ٹھہر گیا ہے ۔ انسانیت ابلتے ہوئے لاوے پر بیٹھی ہے ۔اس سے بچنے کے لئے بہت زیادہ شعور اور آگہی چاہیئے۔اس پر کمپیوٹر غالب ہیں ،یہ مشینوں اور پاگل انسانوں کا دور ہے جو روبوٹ بن کرچکے ہیں ۔جسے ہم تہذیب کہتے ہیں یہ تہذیب نہیں ہے ،یہ صرف لفظ ہے ۔تہذیب تو ابھی تک ظہور پزیر ہوئی ہی نہیں ۔وہ تو نیا انسان لیکر آئے گا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔