انسانی زندگیوں میں تناؤ اور پریشانیاں کیوں؟
کل جو میں نے سیاروں کے علم سے آنے وال تبدیلیوں کا تزکرہ کیا تھا وہ دراصل بیرونی وجوہات جن کا انسانی زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے وہ معاملات تھے ، آنے والے وقت کا وہ کشش ثقل کے حساب سے بیانیہ تھا ۔
جو حقیقت ہے وہ یہ ہے کہ ، ہر انسان بلکل آزاد اس دنیا میں آیا ہے اور بلکل منفرد یا انگریزی میں unique . ہر ایک کی اپنی طبعیت ، اپنا دماغ اپنی عقل ۔ اور ایک دائرہ اس کو آلاٹ ہو جاتا ہے اسی کے اندر رہ کر grow کرتا ہے پھر وہ ساتھ ہی ساتھ کائنات کے ساتھ بھی جُڑا ہوا ہے کیونکہ وہ بڑے دائرے کا حصہ ہے ۔ ہر ایک کو قدرت کی طرف سے ایک جیسے نشو نما کے مواقع ملتے ہیں البتہ ریاستی سطح پر جو کہ زیادہ تر بناوٹی ہے اس میں ایسا نہیں ۔ امیر اور غریب کے گھر پیدا ہونا یا امیر اور غریب ملک میں پیدا ہونا کچھ فرق ضرور ڈالتا ہے ، لیکن وہ بھی مصنوعی زندگی میں اصلی میں زرہ برابر نہیں ۔ اور ہم بیوقوف اس کو ایک آئیڈیل بنا کر لگ پڑتے ہیں پوجنے اور اپنانے ۔ اگر یہ شان و شوکت اتنی ہی اصلی اور جینئیون ہوتی تو بُدھا اسے کبھی نہ چھوڑتا ۔
خیر آتے ہیں اس بات پر کہ معاملات خراب کہاں سے ہوتے ہیں ؟ جی خرابی تب پیدا ہوتی ہے جب ہم دوسرے دائروں کی زندگیوں والوں میں مداخلت ، کنٹرول اور منفی اثرات چھوڑنا شروع کرتے ہیں ۔ جس سے معاشروں میں انتشار اور فساد برپا ہوتا ہے ۔
قدرت کی طرف سے ایک دائرے والے کا دوسرے سے پیار محبت کے علاوہ کا کوئ رشتہ نہیں ، نہ کوئ مقابلہ نہ کوئ دشمنی ۔ صرف تمام کی کائنات کی بیش بہا نعمتوں پر شکر گزاری کے سوا کچھ نہیں ۔ حق اور سچ کا جو معاملہ ہے وہ صرف اور صرف پیار اور محبت پر مشتمل ہے ۔ جنگ و جدل کا معاملہ بلکل دوسرا ہے ۔
جب تک کے دوسرا شخص آپ کا جینا ہی نہ حرام کر دے ، آپ کا حق مارے ، آپ کو زہنی ازیت دے تو پھر آپ کو حق حاصل ہے مقابلہ کا ، نفرت کا ، دشمنی کا ۔ حضور ص نے کفار سے تین جنگیں لڑیں ۔ ان کی طرف سے زیادتی کی وجہ سے ۔
لہازا اگر ہم نے صاف ستھری زندگیاں گزارنی ہیں تو پھر اپنے اپنے دائرے میں رہ کر اپنے ڈھنگ کی ترقی کریں ۔ دنیا کو کوئ نئ چیز دے دیں ۔ معاشرہ کے لیے سکھ اور چین کا حصہ بنیں ۔ نمود و نمائش کی زندگیوں کو خیر باد کہ دیں ۔ کچھ نہیں رکھا ان میں سوائے زلالت کے ۔ آپ شریف خاندان کو زلیل و رسوا ہوتے روز دیکھ رہے ہیں ۔ لعنت بھیجھے آدمی ایسے مال و دولت پر ، کلثوم بستر مرگ پر ہے قبر میں لے جائے گی ؟
کل مجھے ایک امریکی کہ رہا تھا اگر ٹرمپ صدر نہ بنتا بہت ساری غلاظتیں اس کی چھپی رہنی تھیں ۔ آپ جب پبلک آفس ہولڈ کرتے ہیں تو پھر آپ کے ماضی کے ایک ایک دن کی scrutiny ہوتی ہے ۔ میں تو حیران ہوں کہ پاکستان میں اس بات پر ابہام کیوں ہے کہ چوری پر نا اہلی کچھ مدت کے لیے ہونی چاہیے ۔ کمال ہے ۔ once a thief always thief ۔
میری آپ سب سے اپنے تجربہ کی بنیاد پر درخواست ہے کہ زندگیوں کو آسان کریں ۔ جہاں آپ نے پھڈا لینا ہے یعنی حکمرانوں سے وہاں آپ سب خاموش ہیں ، ہمسایہ کا جینا حرام کیا ہوا ہے کہ اس نے اپنی جوان بیٹی شہر پڑھنے کیوں بھیج دی ؟۔
پرسوں کلاسرا صاحب بیچارے اپنے گاؤں کا حشر بتا رہے تھے جہاں سے آئل ٹینکر گزر رہے ہیں ۔ سڑکیں توڑ رہے ہیں ، حادثات میں لوگ مر رہے ہیں ۔ فصلیں تباہ ہو رہی ہیں ۔ وہاں ہم چپ ہیں ۔ کلاسرا صاحب نے ڈپٹی کمشنر کو اچھا پھینٹا ، وہ چاہتے تو بہتوں کی طرح رات کو ان کے ساتھ ہرن اور تیتر کا ڈنر کر رہے ہوتے لیکن ضمیر کی آواز بلند کی ۔ آپ سب بھی ان کی طر
اٹھیے، آواز بلند کریں ، جہاں ضرورت ہے ۔ وہاں دشمنیاں لیں ملک کی خاطر ، معاشرہ کی خاطر لیکن انفرادی نفرتوں اور مقابلہ کی زندگی سے اجتناب کریں ۔ کچھ نہیں ملے گا سوائے پریشانی کے ۔ اپنے دائرے میں رہ کر آنے والی نسلوں کے لیے کچھ کر جائیں کچھ دے جائیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔