عراق، انسانی تہذیب کی پہلی آماجگاہ جودجلہ اور فرات کےدرمیان واقع ھے۔سلطنتِ بابل یعنی بابل (Babylonia) ان دوسلطنتوں کا نام جوجنوبی میسوپوٹیمیا (موجودہ عراق)میں قائم ہوئیں۔
قدیم بےبی لونیا (تقریباً 1750 تا 1200 ق م )کا بانی حمورابی تھا۔ بادشاہ سائرس نے اس کو ایران میں شامل کر لیا۔
یہ خطہ اسلام سے قبل 2سوسال تک بدھ یونانیوں کے پھر 7ویں عیسوی تک ایرانی حکمرانوں کے زیر تسلط رھا۔ خلیفہ چہار حضرت علی رض نے یہاں اسلامی حکومت قائم کی اور کوفہ کو دارالحکومت بنایا۔ پھر اموی اور عباسی خاندان قابض رھے۔
1258 میں ہلاکو اور منگولوں نے یہاں کی اینٹ سےاینٹ بجادی۔
ہلاکو خان کےدور میں،بغداد جو علم کا مرکز، فنون کا گہوارہ تھا، وحشیانہ قتل وغارت گری ھوئی یہاں تک کہ 20 لاکھ آبادی میں سے 15لاکھ لوگ اس کی بھینٹ چڑھے۔
کتب خانےجلادیےگئے،علماء و دانشور تہہ و تیغ کردیےگئے،اورعلم وتہذیب کےنشانات تک مٹادیےگئے۔
15ویں صدی میں صفویوں نےبغدادپرقبضہ کرلیا
اورسنی رہنماؤں کوقتل عام کیااورحضرت امام ابوحنیفہؒ اورحضرت شاہ عبد القادر جیلانیؒ سمیت بہت سےبزرگوں کے مزارات اجاڑ دیے۔ مگر ان کا قبضہ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا کیونکہ اب ترکوں کی خلافت عثمانیہ اس طرف متوجہ ہوگئی۔
جنہوں نے دلجمعی سے عراق کے سنی تشخص کو بحال کرکےازسرنوزندہ کیا۔
پہلی جنگ عظیم تک عراق عثمانیہ حکمرانوں کے پاس رھا۔
پہلی جنگ عظیم کےبعد برطانیہ نے یہاں قبضہ کرلیا اور 26سال تک یہاں برطانیہ اور فرانس کی ملی جلی حکومت قائم رھی۔
1932 میں شاہ فیصل کی سربراہی میں عراق آزاد ریاست بنا۔
1979ء کو بعث پارٹی کے لیڈر صدام حسین عراق کے حکمران بن گئے
جنہیں 2003 میں امریکا اور برطانیہ کی مشترکہ فوجوں نے شکست دے کر پھانسی پر لٹکا دیا اور قدیم ترین،عظیم، سنی، علم وعرفان کا گہوارہ، مہذب سلطنت کا گلا گھونٹ دیا۔ یاد رکھیں سلطنت عثمانیہ نے جہاں جہاں حکومت کی وہاں سنی مذہب کی بنیادیں رکھ دیں۔