انسانی سوچ کے بھنور ۔
کل Barnes and Noble میں میری نظر سے دو کتابیں گزریں ایک دنیا میں جمہوریت کی ناکامی پر اور دوسری روسی کردار Rasputin پر۔ دونوں امریکہ کے پروفیسروں نے لکھیں اور دونوں کو سرسری طور پر میں نے پڑھا ۔
جمہوریت والی کتاب کا فوکس زیادہ تر ٹرمپ ، ہٹلر ، مسیلینی اور شاویز جیسے کرداروں پر تھا جو اقتدار میں تو جمہوری طریقے سے آئے لیکن بعد میں رویہ ڈکٹیٹر سے بھی بد تر دکھایا ۔ اس کتاب کے مطابق جمہوریت کو جرنیلوں سے اب خطرہ نہیں بلکہ ان سیاستدانوں سے ہے جو جمہوریت کی سیڑھی کو استمعال کر کے جمہوری اقدار کا بیڑہ غرق کر دیتے ہیں ۔ کل سوشل میڈیا پر حامد میر کا ایک ۱۹۹۹ کا کالم بھی گردش کر رہا تھا جس میں انہوں نے اس نظام کی تبدیلی کا لکھا تھا جو نواز شریف جیسے کردار کو جمہوریت کا چیمپین بنا دیتا ہے ۔ اس میں تو حامد میر کا اشارہ فوج اور اسٹیبلشمنٹ پر تھا جو کہ اب قصہ دیرینہ ہو گیا ہے ۔ نئ دنیا میں اقتدار کی رسہ کشی ہیسے کے گرد گھومتی ہے نہ کہ طاقت کے ۔ جس کے پاس پیسہ جیت اسی کی ۔ کیوں عمران کے ATMs کا تزکرہ ہوتا ہے ۔ کیوں طاہر القادری ہر دھرنا پر چندہ اکٹھا کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ لہازا یہ چیز اب بے معنی ہے کہ کون جمہوری قدروں کو فروغ دے رہا ہے کون نہیں ۔ ہر ایک کو اپنا الو سیدھا کرنے سے غرض ہے ۔ البتہ جمہوریت کے زریعے آیا ہوا ڈکٹیٹر اگر واقعہ ہی کچھ کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ۔ جس وجہ سے میں ڈٹرٹے اور ٹرمپ کی تعریف کرتا ہوں ۔ شخصیات کی اہمیت ہے کل ایک دوست نے اسلامی تاریخ سے حضرت عمر اور شیر شاہ سوری کی مثال دی وہ تو جمہوریت کے زریعے نہیں آئے تھے ۔
دوسری کتاب جو اس روسی کردار پر لکھی گئ ، جس پر بہت فلمیں بنیں، کتابیں لکھیں گئیں اور گانے گائے گئے ۔ BoneyM کا اس پر گانا تو بہت سال ٹاپ ہٹ رہا ۔ یہ بھی ایک عجیب و غریب کہانی ہے کہ کیسے ایک سائبیریا کے گاؤں سے ان پڑھ آدمی اُٹھتا ہے اور روسی بادشاہت کو ہلا دیتا ہے ۔ ملکہ کی نیندیں حرام کر دیتا ہے اور روسی اشرافیہ کے درو دیوار ہل جاتے ہیں۔ Rasputin کا نام اس لسٹ میں بھی ہے جو دنیا کے ten top evil characters پر لکھی گئ کتاب ہے ۔ کبھی وہ ایک روحانی شخص بن جاتا تھا ۔ کبھی پادری اور کبھی playboy . آخر کار قتل کر دیا جاتا ہے ۔ پاک و ہند کے بنگالی بابوں جیسا کردار ۔ ہر دھوکہ اور فراڈ کی ایک حد ہوتی ہے ۔ انسانی لالچ اور ہوس کچھ دیر تو یہ فراڈ برداشت کر سکتی ہے زیادہ دیر نہیں ۔ ڈبل شاہ اور ریسپوٹین پیدا ہوتے رہیں گے جب تک لالچی اور کم عقل لوگ زندہ ہیں ۔
دونوں کتابوں سے جو میں اخز نکالتا ہوں وہ یہی ہے کہ اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ رکھیں ۔ فضول سوچوں کے بھنور سے نکلیں ۔ عملی زندگی میں آئیں ۔ اللہ تعالی جو اس کائنات کا مالک ہے اس پر توکل رکھیں ۔ پیغمبر اسلام کی صورت میں ہمارے پاس تو کیا شاندار نمونہ ہے ایک اعلی اور سکون والی زندگی گزارنے کا ۔ مت ضائع کریں اسے ۔ اتنے بھی سادہ دل نہ بنیں ۔
علامہ اقبال کا شعر یاد آیا ۔
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
بہت خوش رہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔