قوم سیاسی طور پر متحد لوگوں کا ایک گروہ ہوتا ہے جو کہ ایک ریاست کی سرحدوں میں ایک زبان،روایات،ضابطوں کے بندھنوں میں رہتا ہے جبکہ نسلیت سے مراد لوگوں کا ایک ایسا گروہ ہےجن کی شکلیں ،زبان ،کلچر ،آباؤ اجداد ایک ہوتے ہیں ہر نسلی گروہ میں مزید چھوٹی اکائئیاں قبیلہ،خاندان ہوتا ہے
پاکستان میں پنجابی نسلی گروہ جو کہ اندازً ۴۵ فیصد ہے دوسرا بڑا نسلی گروہ پشتون ہے جوکہ ۱۵فیصد ہے اور اسی تناسب سے یہ کم و بیش سیکورٹی کے محکمہ میں بھی موجود ہیں ،سماجی ماہرین کے مطابق کسی بھی نسلی تحریک کے پیچھے زیادہ تر تین مقاصد ہوتے ہیں ۱-علیحدگی۲-اتحاد کا مظاہرہ کرنا زیادہ سیاسی ،سماجی حقوق کیلیے ۔پاکستان میں پشتون آبادی کا زیادہ حصہ صوبہ کے پی کے میں پھر پنجاب اور کراچی (سندھ) میں آباد ہے پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ متاثرصوبہ کے پی کے ہوا ہے جس کے نتیجہ میں بڑی تعداد میں پشتون آبادی کا جانی،مالی نقصان ہوا ہے اور صوبہ کے پی کے میں بھی قبائلی اضلاع میں شدید ترین دہشتگردی ہوئی اور اس کے نتیجہ میں دہشتگردی کے خلاف آپریشن سے سب سے زیادہ نقصان بھی انھی علاقوں کا ہوا ہے ۔ہر علاقے کہ اپنا ایک سیاسی ،سماجی توازن ہوتا ہے جوکہ وہاں کی قدرتی طاقتوں کے درمیان قائم ہوتا ہے
ایسا ہی توازن ان قبائلی علاقوں میں قائم تھا جس میں شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان میں دو بڑے قبائل وزیر اور محسود اپنی مزید چھوٹی قبائلی شاخوں میں آباد ہیں محسود قبائل علاقہ کے بلکل درمیان میں آباد ہیں اور ان کے تین اطراف وزیر قبائل آباد ہیں اور یہ زیادہ تر پرُامن رہتے ہیں لیکن ایک بات جس کو زیادہ تر تجزیہ کار نظر انداز کر دیتے ہیں وہ یہ کہ چھوٹی قبائلی شاخوں میں طاقت کے حصول اور بڑے کردار ادا کرنے کی خواہش قدرتی طور سے پائی جاتی ہے اور جب زیادہ طاقت ور طبقہ ان چھوٹی طاقتوں کو نظر انداز کرتے ہیں تو ان میں فسٹریشن بڑھنا شروع ہوجاتی ہے
یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اس قدرتی سماجی توازن میں ایک کردار جنم لیتا ہے وہ ہوتا ہے اسلامی شناخت کا حامل سیاسی کردار ملا جس کا تعلق نسبتاً چھوٹی قبائلی شاخوں سے ہوتا ہے لیکن وہ اپنی سیاسی بصیرت سے چھوٹی طاقتوں کو اپنے گرد جمع کرکے بڑی قبائلی طاقتوں کو چیلنج کرتا ہے
یہاں یہ بات واضح رہے کہ ان علاقوں میں ملا کا کردار کوئی افغان وار کے بعد شروع نہی ہوا بلکہ تقسیم ہند سے پہلے بھی اس کی مثالیں موجود ہیں اور اسی طرح کا ایک نام ملا پوویندہ ہے جس نے انگریزوں کے خلاف جہاد کے نام پر اس علاقہ میں ایک طرح سے اپنی بادشاہت قائم کرلی تھی اور پرتشدد حملے کرکے برٹش آرمی کے اوسان خطا کردیے تھے اور قیام پاکستان کے بعد ۱۹۷۵-۷۶ میں ملا نور محمد کا نام بھی قابل ذکر ہے جنھوں نے نظام شریعہ کے نفاذ کی تحریک کافی کامیابی سے چلائی تھی اور وہ بڑے پیمانے پر وزیر قبائل کو متحرک کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے اور جس کو ۱۹۷۶ میں پاکستان آرمی نے کامیابی سے ختم کردیا تھا یاد رہے یہ روس کی افغانستان میں آمد سے تین سال پہلے کا واقعہ ہے ان واقعات اور کرداروں کا ذکر اس لیا کیا ہے تاکہ ہم اس علاقہ کی سیاسی،علاقائی اور سماجی طور طریقوں سے تھوڑی واقفیت حاصل کر لیں جو کہ ممکنہ طور پر اصل مسلۂ کو سمجھنے میں مدد گار ہوسکتے ہیں
افغانستان میں روس کی آمد کے بعد امریکی سی آئی اے اور پاکستان کے سیکورٹی محکمہ نے ملا کےاس کردار کو اور طاقت کے حصول کی خواہش کو روس کے خلاف استعمال کرنے کا کامیاب پروگرام مرتب کیا اور اقلیت کو اکثریت جوکہ سیکولر اور پشتون والی تھی پر مسلط کردیا اور ملا نے مقامی قبائل کے عمائدین کو نے پناہ جانی مالی نقصان پہنچایا اور انھیں مکمل طور پر ہابرنیٹ کردیا لیکن پھر وقت نے انگڑائی لی اور ۹/۱۱ کے واقعہ کے بعد پاکستانی سیکورٹی محکمہ کو مجبور کیا گیا کہ وہ اس علاقہ میں اپنی پالیسی کو تبدیل کرے جس کے نتیجہ میں ملا اور سیکیورٹی محکمہ میں لڑائی شروع ہوئی جس میں بے پناہ جانی مالی نقصان کے بعد پاکستانی آرمی سرخرو ہوئی اور اس علاقے سے ملا کے کردار کو ختم کردیا گیا جس کے نتیجہ میں ملا مخالف طاقتوں نے جوکہ علاقے کی سیکولر پشتون میجورٹی کی نمائیندہ تھیں قدرتی طور پر خود کو بنا کسی اپوزیشن کے خود کو مستحکم کرنا شروع کردیا اور جیسا کہ ان حالات میں ہوتا ہے کہ کوئی واقعہ لوگوں کے احساس محرومی کو بڑھا کر جذبات کے اظہار کا سبب بن جاتا ہے نقیب محسود کے پولیس کے ہاتھوں ظالمانہ قتل اور اس کے بعد ریاست کی بے حسی اور قاتلوں کو کیفرکردار تک نہ پہنچانے نے محسود تحفظ موومنٹ کو جنم دیا جو بعد میں اپنا نام تبدیل کرکے پشتون تحفظ موومنٹ بن گئی اور اس نے انسانی حقوق پر مبنی مطالبات پیش کیے جن کا پاکستان جیسی کم وسائل والی ریاست کیلیے فوری طور پر پورا کرنا ناممکن تھا اس بات کو PTM قیادت نے بہت خوبصورتی اور سیاسی بصیرت سے ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ پر استعمال کیا اور خود کو قبائلی علاقوں میں پشتون نسل کے حقوق کی محافظ واحد نمائندہ جماعت کے طور پر پیش کیا جس کو مذہبی طاقتیں مولانا فضلو الرحمان کی جے یو آئی ف اور دوسری نسبتاً چھوٹی مذہبی جماعتیں آنے والے الیکشن میں اپنے لیے بڑا خطرہ محسوس کر رہی ہیں اور اس پس منظر میں اپنی اہمیت دکھانے کیلئے جے یو آئی ف نے حکومت مخالف لانگ مارچ کیا اور دارالحکومت میں دھرنا بھی دیا جس کو حکومت کے کیے خطرہ کے طور پر پیش کیا گیا جبکہ اس کا اصل مقصد آنے والے الیکشن میں اپنے کردار کو برقرار رکھنے کی یقین دہانی حاصل کرنا تھا اور وہ اس میں کتنا کامیاب ہوئے آئندہ الیکشن میں پتہ چلے گا
PTM جوکہ فوج کو بیرنی حملہ آور کے طور ہر پیش کرکے مقامی لوگوں کی ہمدردی حاصل کررہی ہے اور اس کے پیش نظر فوج پر کھلی تنقید بھی کرتی ہے تاکہ سیکورٹی ادارے اس کی لیڈر شپ کے خلاف کاروائی کریں اور وہ مظلوم بن کر سیاسی طور پر ایک پریشر گروپ بنی رہے