کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ کسی کی موت کے چالیس دن کے بعد اس کے لواحقین جو چالیسویں کا اہتمام کرتے ہیں اس کی کیا اہمیت ہے؟ ایک ماہرِ نفسیات ہونے کے ناطے میں اس روایت کی نفسیاتی اہمیت کے بارے میں ایک طویل عرصے تک غور و فکر کرتا رہا اور بہت سے ماہرین سے سوال پوچھتا رہا۔ آخر مجھے اس سوال کا جواب ایک تکلیف دہ حادثے اور اس کے بارے میں نفسیاتی تحقیق سے ملا جو میں آپ سے شیر کرنا چاہتا ہوں۔
28 نومبر 1942 کو امریکہ کے شہر بوسٹن کے ایک مقبولِ عام کلب میں‘ جس کا نام COCOANUT GROVE تھا‘ آگ لگ گئی۔ اس کلب میں صرف 460 لوگوں کے آنے کی اجازت تھی لیکن اس رات بوسٹن کالج کی فٹ بال ٹیم اپنی کامیابی کا جشن منا رہی تھی اور کلب میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ موجود تھے۔ جب کلب میں انجانے میں آگ لگی تو وہ جلد ہی چاروں طرف پھیل گئی جس سے ایک بھگڈر مچ گئی۔ اس سے پہلے کہ فائر بریگیڈ آ کر ان کی مدد کرتی اس رات 492 لوگ آگ اور دھوئیں سے مر گئے۔ اس حادثے سے سارے ملک میں ایک اداسی اور سوگ کی لہر دوڑ گئی.
اتفاق کی بات کہ ان دنوں بوسٹن ہسپتال میں Dr Erich Linderman ایک ماہرِ نفسیات کے طور پر کام کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنی نفسیاتی ٹیم کے ساتھ اس حادثے سے متاثر ہونے والے دوستوں‘ رشتہ داروں پر تحقیق کی اور لواحقین کے انٹرویو لیے۔ اس تحقیق کی بنیاد پر انہوں نے ایک مقالہ لکھا جو امریکہ کے ایک معتبر نفسیاتی مجلے میں چھپا۔ اس مقالے میں ڈاکٹر لنڈرمین نے انسانی سوگ اور GRIEF REACTION کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کیا جو بہت مقبول ہوا۔
لنڈرمین نے تحقیق سے یہ بتایا کہ صحتمند سوگ اور غیر صحتمند سوگ میں کیا فرق ہے۔ ایک صحتمند انسان کا اگر کوئی عزیز فوت ہو جاتا ہے تو اسے مندرجہ ذیل عوارض ہو سکتے ہیں:
ٹھنڈی آہیں بھرنا
جسم میں نقاہت محسوس کرنا
پیٹ خراب ہونا
فوت ہوئے رشتہ دار کے بارے میں دن رات سوچنا
مزاج میں چڑچڑا پن پیدا ہونا
خواب میں مرے ہوئے انسان کو بار بار دیکھنا
ہونے والے عزیز کی خوشگوار یادیں تو رہتی ہیں لیکن وہ اس کی زندگی کو منفی طور پر متاثر نہیں کرتیں۔
اس کے مقابلے میں جو لوگ حد سے زیادہ حساس ہوتے ہیں یا ان کے مرنے والوں سے رشتے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں ان کا رد عمل شدید ہوتا ہے۔ ایسے لوگ یا تو طویل عرصے تک سوگ مناتے رہتے ہیں‘ سنجیدہ ڈیپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں یا زندگی سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔
ماہرینِ نفسیات کا خیال ہے کہ بعض لوگوں کو سوگ منانے کے دوران نفسیاتی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر انہیں بروقت مدد مل جائے تو وہ اپنے روزمرہ کے کاموں میں واپس آ جاتے ہیں اور اگر مدد نہ ملے تو ان کا سوگ حد سے زیادہ بڑھ سکتا ہے اور انہیں نفسیاتی مسائل کا شکار کر سکتا ہے۔ ایسے لوگوں کو بعض دفعہ ہسپتال داخل ہونا پڑتا ہے اور دوائوں اور سائیکوتھیریپی سے علاج کروانا پڑتا ہے۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ انسانی ذہنی زندگی میں چالیس دن کی خاص اہمیت ہے۔ اس کا تعلق صرف سوگ سے ہی نہیں ہے۔ نیا بچہ پیدا کرنے کے بعد مائیں بھی چالیس دن کے بعد غسلِ صحت کرتی ہیں اور بہت سی روایات کے سنت‘ سادھو اور صوفی بھی چالیس دن کا چلہ کاٹتے ہیں۔
اپنے تیس برس کے پیشہ ورانہ تجربات کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انسان جب کسی ذہنی بحران یا کسی بڑی نفسیاتی، خاندانی یا سماجی تبدیلی سے گزرتے ہیں تو اس بحران اور تبدیلی کے حوالے سے وہ تین مراحل سے گزرتے ہیں
پہلا مرحلہ چالیس دن کا
دوسرا مرحلہ چار مہینوں کا (تین دفعہ چالیس دن چار مہینے بنتے ہیں)
اور تیسرا مرحلہ ایک سال کا ہوتا ہے۔
اس عرصے میں نفسیاتی تبدیلیاں آہستہ آہستہ انسانی ذات کا حصہ بنتی ہیں اور انسانی شخصیت کو بہتر بناتی ہیں۔ ایک قول ہے
WHAT DOES NOT KILL YOU MAKE YOU STRONGER
جہاں انسانی زندگی کے بحران ہمیں پریشان کرتے ہیں وہیں وہ ہمیں ایک بہتر انسان بننے کی تحریک بھی دیتے ہیں۔
ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ اگر کسی انسان کا مرنے والے سے رشتہ صحتمند ہے تو اس کے لیے سوگ منانا آسان ہوتا ہے لیکن اگر وہ رشتہ غیر صحتمند تھا تو زندہ رہنے والا انسان رشتہ دار کی موت کے بعد غصہ، نفرت، تلخی اور احساس گناہ کا شکار ہو سکتا ہے جس کے لیے اسے کسی نفسیاتی معالج سے رجوع کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔
نفسیاتی تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ کسی کی موت کے بعد لواحقین کے لیے محبت کرنے والے عزیزوں کی ہمدردی بہت اہم ہے۔ اکثر لوگ چالیس دن کے سوگ کے بعد اہنی نئی زندگی شروع کر دیتے ہیں لیکن وہ جو اس سوگ سے نہیں نکل پاتے اور ڈیپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں ایسے لوگوں کو ماہرینِ نفسیات سے مدد حاصل کرنی چاہیے۔ ایسی مدد جتنی جلد ملے، اتنی زیادہ کارآمد ہوتی ہے۔