8مارچ:اقوام متحدہ کے عالمی یوم نسواں کے موقع پر خصوصی تحریر
خواتین انسانی معاشرے کا ایک لازمی اور قابل احترام کردار ہیں۔کاروبار معاشرت میں مرد اور عورت ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں۔کتنے آسان پیرائے میں یہ بات سمجھا دی گئی کہ جس سے نہ کسی کی اہمیت کم ہوئی اور نہ ہی ضرورت سے زائد بڑھ گئی۔قرآن مجید نے اکثر انبیاء علیھم السلام کے ساتھ انکے رشتوں کا بھی ذکر کیا ہے اور ان میں سے کچھ مردانہ رشتوں کے بارے میں تو بتایا گیا کہ وہ اپنے غلط عقائد کے باعث ان پراللہ تعالی کی ناراضگی نازل ہوئی لیکن نبیوں سے منسوب کوئی نسوانی رشتہ ایسا نہیں ملتا جواللہ تعالی کے غضب کا شکار ہوا ہو،بلکہ ایک برگزیدہ نبی کو گود لینے کے عوض فرعون جیسے دشمن خدا کی بیوی بھی دولت ایمان سے مالا مال کر دی گئی۔اسی طرح حج جیسی عالی شان عبادت جو زندگی بھر میں صرف ایک دفعہ فرض کی گئی ہے،صرف خواتین کے لیے اسکے مناسک مسجد حرام جیسی عبادت گاہ کی بجائے میدانوں میں رکھے گئے تاکہ اگر ایک طویل سفر کے بعد خواتین حجاز مقدس پہنچیں اور انکے ایام مخصوصہ شروع ہو جائیں تو وہ حج سے محروم نہ رہیں۔اگر یہی مناسک حج مسجد میں رکھے جاتے تو ظاہر میں ان ایام میں خواتین مسجد میں داخل نہ ہوسکتیں اور طویل سفر اور خطیر اخراجات کے باوجود حج سے محروم رہ جاتیں۔میری والدہ محترمہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ جب حجۃ الوداع کے لیے محسن نسوانیت ﷺ کے ہمراہ آئیں تو انہیں مسائل کا شکار ہو گئیں،چنانچہ انہوں نے اسی حالت میں حج تو اداکرلیاکیونکہ اسکی ادائگی میدانوں میں ہونا تھی تاہم غسل کرنے کے بعد عمرہ کے مناسک بھی اداکیے کیونکہ مناسک عمرہ مسجد حرام میں اداہوتے ہیں۔اللہ تعالی کاعورتوں پر یہ خاص احسان ہے کہ انہیں کی خاطر حج جیسی عبادت میدانوں میں اداکرنے کا حکم دیا۔عمرہ ساراسال جاری رہتا ہے اور کم و بیش ساڑھے چار ہزار سالوں سے جاری ہے۔اس زمین کے سینے پر اور اس نیلی چھت کے نیچے اپنی نوعیت کی واحد عبادت ہے جو اتنے طویل عرصے سے جاری ہے۔اس عمرہ کی عبادت میں دو ہی بڑے بڑے مناسک ہیں،طواف اورسعی بین الصفاوالمروہ،ان میں سے سعی بین الصفا والمرہ یعنی کم و بیش 50%عبادت ایک خاتون کی یاد میں کی جاتی ہے۔اللہ تعالی کو اس مامتاکااپنے بیٹے کے لیے پانی کی تلاش میں یوں بے قرار ہوجانا اور دوپہاڑوں کے درمیان دوڑ پڑنا اس قدر پسند آیا کہ تاقیامت اسی طرح ہی لوگ بھاگیں گے تو اانکاعمرہ قبول ہوگا۔صفا مروہ کے درمیان ایک مقام نشیب کا تھا جہاں سے حضرت اسمئیل نظر نہ آتے تھے،وہاں بی بی پاک زیادہ تیز دوڑیں اور پھر جب بیٹا نظر آنے لگتا تو آہستہ ہوجاتیں،صدیوں سے اس نشیبی مقام کو نشان زد کر دیاگیاہے جہاں حجاج اس مامتاکی یاد میں تیز دوڑتے ہیں اور پھر نسبتاََ اسی طرح آہستہ ہوجاتے ہیں جس طرح وہ مقدس خاتون آہستہ ہو گئی تھیں۔
جنت جیسامقام اس کائنات میں نہیں ہے جسے اللہ تعالی نے تمام نعمتوں کا مرکز بنایاہے،حضرت آدم علیہ السلام کو جب تخلیق کے بعد جنت میں رہائش عطا کی گئی تو عورت کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنت جیسے مقام پر بھی حضرت آدم تنہائی کا شکار ہوئے اور بغیر عورت کے ان کا دل نہ لگا۔بائبل نے واضع طور پر بیان کیا کہ عورت کے باعث جنت سے آدم و حوا کااخراج ہوا لیکن قرآن مجیدنے جو صیغہ استعمال کیا ہے اس میں دونوں کاذکر ہے کہ شیطان نے دونوں کو بہکایا۔سورۃ بقرہ میں اس واقعے کی تفصیلات موجود ہیں جہاں قرآن نے عورت کا دفاع کیااور حضرت آدم کو بھی اس سہو و نسیان میں برابر کا شریک کیا۔ایک انسانی معاشرے میں کسی فرد کے کتنے ہی رشتے ہوتے ہیں جو نسباََ اور سہراََاس سے وابسطہ ہوتے ہیں،ان رشتوں میں اتنی مٹھاس پوشیدہ ہوتی ہے کہ جب کسی کو کسی غیر کے ہاں اسی طرح کی آسودگی حاصل ہو تو وہ اسے بھی انہیں رشتوں میں سے کسی کانام دے دیتاہے۔کوئی بزرگ بہت اچھا لگے تو اسے چچا کہ دیتا ہے کوئی خاتون بہت محبت کرے تو اسے خالہ کہ کر پکارنے لگتاہے وغیرہ۔مذاہب میں بھی یہ سلسلہ یو ں موجود ہے کہ عیسائیوں نے حضرت عیسی کو اللہ تعالی کابیٹا بنا لیا،اوراپنے مذہبی پروہتوں کو ”فادریعنی باپ“اورجوخواتین اپنے آپ کومذہب کے نام پر وقف کردیں انکو ”سسٹریعنی بہن“کہ کر پکارنے لگے۔اس پس منظر میں خاتم النبیین ﷺ کے ہاں سے جو رشتہ امت کو میسر آیا وہ بھی عالم نسوانیت سے ہی تعلق رکھتا ہے یعنی آپﷺ نے اپنی بیویوں کو امت کی ماؤں کا درجہ دیا۔اس سے خواتین کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے کیونکہ اور کوئی رشتہ نبی نے اپنے ہاں سے امت کو نہیں دیا۔
پورے اسلامی لٹریچر میں اللہ تعالی کے لیے کوئی مثال موجود نہیں ہے،کہیں نہیں کہاگیا کہ اللہ تعالی فلاں پہلوان سے زیادہ طاقتور ہے یافلاں بادشاہ سے بڑا بادشاہ ہے یا فلاں دولت مند سے زیادہ بڑے خزانوں کامالک ہے۔بس ایک مقام پر اللہ تعالی کی رحمت کوایک انسانی رشتے سے بڑھا کر بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی ”ماں“سے زیادہ پیار کرتا ہے۔گویا اللہ تعالی نے جو کسی کامحتاج نہیں ہے پھر بھی اپنی محبت انسانوں کے ذہنوں میں بٹھانے کے لیے ماں کا استعارہ استعمال کیا۔ماں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ حکم ملنے پر باپ،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے کی گردن پر چھری چلا دی لیکن ماں نے جبریل سے کہا کہ جاؤ پہلے اللہ تعالی پوچھ آؤکہ میرے بیٹے،حضرت موسی علیہ السلام کو کچھ ہوگا تو نہیں؟؟جبریل آسمانوں سے ہوکر واپس آیا اور کہا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے آپ اپنے بیٹے کو پانی میں بہا دیں اسے کچھ نہیں ہوگا۔اگرچہ دونوں بیٹوں کو کچھ نہیں ہوا لیکن مامتاکا فرق تو سامنے آگیا کہ اللہ تعالی کی تسلی کے باوجود پھر بھی بیٹی سے کہا کہ اس صندوق کے ساتھ ساتھ جاؤ اور میرے بیٹے کاخیال رکھو۔اس ماں کے سینے میں دل بھی تو اسی اللہ تعالی کاہی رکھاہواتھا۔قرآن مجید سے اس بات کے واضع ثبوت ملتے ہیں کہ اللہ تعالی نے خواتین کی طرف وحی کی جب جبریل نے حضرت ام موسی سے کہا کہ اپنے بیٹے کو پانی میں بہادیں اور جبریل نے ہی بی بی پاک مریم کو بیٹے کی خوشخبری دی۔قرآن مجید نے سورۃ نور میں ”مومنات الغافلات“کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی بھولی بھالی عورتیں لیکن اس طرح کے پیاربھرے الفاظ مردوں کے لیے کہیں استعمال نہیں کیے۔آپ ﷺ نے اپنی ایک حدیث میں ماں کے لیے تین درجے اور باپ کے لیے حقوق کا ایک درجہ ارشاد فرمایا۔ایک بار جب ماں کے نافرمان کے لیے دعاکی خاطرآپﷺ نے ہاتھ بلند کیے تو جبریل نے فوراََ آکر کہا کہ اللہ تعالی کہتا ہے اپنے ہاتھ نیچے کرلیں جب تک اسکی ماں اسے معاف نہیں کرے گی میں اسے معاف نہیں کروں گا۔
اسلامی احکامات شریعت میں مردوں پر سے فرض کسی صورت ساقط نہیں ہوتے لیکن ایام مخصوصہ میں عورت کے لیے یہ رعایت موجود ہے۔اسلام نے عورت پر احسان خاص کیا کہ معاش،جہاد،عدالت،سیاست،کچہری،تھانہ اور دنیاکے وہ تمام جھنبیلے جن سے نسوانیت کا وقار مجروح ہوتا ہے ان سے اسے بری الذمہ قراردے دیا ہے۔اور طب،تعلیم،ولادت و رضاعت،خانہ داری،خاندان،اور مرد کی غیرموجودگی میں نگہداشت سمیت وہ تمام فرائض عورت کو سونپ دیے ہیں جو عورت کی فطرت کا حصہ ہیں یا اسکی فطرت کے قریب تر ہیں۔عورت کو اتنا کچھ نوازنے کے بعد حجاب،نقاب،اختلاط مردوزن سے پرہیز،چادرچاردیواری اور شرم و حیا جیسی پابندیاں بھی اس پر لاگو کیں تاکہ عورت معاشرے کی آلودگیوں سے محفوظ و مامون ہو اپنے فرائض فطری اداکر سکے۔عورت کی عظمت کااندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سب سے پہلے اسلام لانے والی بھی خاتون حضرت خدیجہ،سب سے پہلے شہید ہونے والی بھی خاتون حضرت سمیہ،آپ ﷺ نے جس انسان کی گود میں سر رکھ کر داعی اجل کو لبیک کہا وہ بھی خاتون حضرت عائشہ،آپ ﷺ کی سب سے پہلی تجارتی حصہ دار بھی ایک خاتون حضرت خدیجہ اورآپ ﷺ کو سب سے زیادہ عزیز اور پیاری بھی ایک خاتون حضرت فاطمہ۔آپ ﷺ نے بیٹیوں کی پیدائش پر نہ صرف یہ کہ جنت کی بشارت دی بلکہ اچھی طرح پرورش کرنے والے کو جنت میں اپناپڑوسی ہونے کا مژدہ سنایا۔محسن نسوانیت ﷺنے بیٹی کو اللہ تعالی رحمت قراردیا،جس مسلمان کے ہاں بیٹی جنم لیتی اس کے ہاں مبارک باد کے خود تشریف لے جاتے تھے،اور بیٹیاں ہی تھیں جنہیں سب سے پہلے اسلام نے زندہ درگور ہونے سے بچایا۔روزمحشر بھی اللہ تعالی لڑکی سے ہی پوچھے گا کہ آخر تجھے کس جرم میں زندہ درگورکیاگیا۔
عورت کو جہیز کے پیمانے میں تولنایا اسے شوہر کی چتاکے ساتھ ستی کردینا،عورت کو کمانے کی مشین بنالینایا اسے حوس نفس کی تسکین کا ذریعہ سمجھنا،اسکی مسکراہٹوں کوکاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرنایا اسے مذہب کے نام پر بنیادی انسانی حقوق سے ہی محروم کردینایا اسے گھر سے نکال کر محفل کی زینت بنانایااسے پازیپ پہنا کراپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کا اہتمام کرنایا اسے پردہ سکرین پرلاکر اسکی نسوانیت کی توہین کرنایا اسے سڑکوں پر اور سیاست میں گھسیٹ کرایوان ہائے اقتدارسمیت اسکی صلاحیتوں کو اسکی فطرت کے خلاف استعمال کرناگویاعورتوں کا،خواتین کا،صنف نازک کااور نوخیزوناتواں بچیوں کا بدترین استحصال کرنے کے مترادف ہے۔ایسے سیکولرلوگ قانون کے نہیں بلکہ انسانی تاریخ کے اور آنے والی نسلوں کے بدترین دشمن اور اپنے مناصب کے بدترین خائن اور عالم نسوانیت کے حقیقی مجرم ہیں جو حقوق نسواں کے نام پر استحصال نسواں کرتے چلے جارہے ہیں۔لیکن اب بہت جلد استحصال نسوانیت کی تاریک رات ختم ہونے کوہے اور محسن نسوانیت کی تعلیمات کا خاورعالم انسانیت پرطلوع ہواچاہتاہے،ان شااللہ تعالی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...