انسانی فطرت کا معاملہ ۔
کل لاہور سے میرے بلاگ پڑھنے والی نے اس موضوع پر لکھنے کا کہا ، اتفاق سے کل میں ایک مشہور برازیولی مصنف پاؤلو کوئیلو، کا ناول adultery پڑھ رہا تھا ۔ پاؤلو ، شیکسپیر کی طرز پر زیادہ ناول انسانی فطرت کہ مختلف پہلوؤں پر لکھتا ہے ، خاص طور اس دنیا کہ بارے میں جو بظاہر باہر سے بہت خوبصورت اور حسین نظر آتی ہے اور ہر کوئ اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ لیکن اندر جا کر پتہ لگتا ہے کہ یہ تو بلکل کھوکھلی ، جعلی اور فریب کہ سوا کچھ بھی نہیں ۔ اس ناول میں بھی پاؤلو کچھ ایسا ہی بیانیہ پیش کر رہا ہے ۔ ایک خاتون جرنلسٹ کا اپنے ہائ اسکول کہ زمانہ کہ بوائے فرینڈ سیاستدان سے ایک دفعہ پھر افئیر۔
میرے نزدیک سیاست اور جرنلزم دونوں بڑے ظالم پیشہ ہیں اور دونوں کا محور پیسہ اور طاقت ہے ۔ دونوں کو ایمانداری سے کرنا ناممکن ، اور ایمان داروں کی اس میں کوئ گنجائش نہیں ۔ جیسا کہ اس ناول میں سیاست دان کہتا ہے کہ “میں نے بدقسمتی سے ایسا پیشہ منتخب کیا ہے جس نے مجھے ایک آٹومیشن میں تبدیل کر دیا ہے ، جو میں کہتا ہوں، اس پر سوال اٹھتے ہیں ، جانچ پڑتال ہوتی ہے اور پھر پبلش ہو جاتا ہے”
اس ناول میں جینیوا- سوٹرزرلینڈ ، کی کہانی ہے جیسا کہ زیادہ تر پاؤلو کہ ناولوں میں رہی ہے ۔ اس ناول کا پلاٹ وہی ہے جو بالی وُڈ کی فلموں آندھی ، تماشا اور بے شمار دوسری فلموں کا تھا۔
یہ سارا ماجرا دو زندگیوں کا ہے ، ایک وہ جو انسان دنیا کہ لیے جی رہا ہوتا ہے جو اس پر نجانے کتنی صدیوں سے مسلط کر دی گئ ہوتی ہے، اور دوسری ، وہ جو وہ اپنی مرضی سے جینا چاہتا ہے یا جو قدرت نے اس کہ لیے ترتیب دی ہے، لیکن معاشرہ نہیں جینے دیتا ۔
ناول کہ کچھ اقبسات اردو میں تحریر کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔
“کیا یہ ووٹرز کا حق ہے کہ سیاستدان کی نجی زندگی کی جانچ پڑتال کرے ؟ “
ایک جگہ وہ خاتون جرنلسٹ کہتی ہے کہ “سیاست دان کو انٹرویو کرنا بہت مشکل ہے ، کاش مجھے کسی کرائم سین کور کرنے کے لیے بھیجا ہوتا کیونکہ قاتل بہت زیادہ real/اصلی ہوتے ہیں بنسبت سیاستدان “
اس ناول میں زندگی کہ بارے میں بھی بہت دلچسپ باتیں تحریر ہیں ، جیسے ۔
“ہر کوئ یہاں اپنی خوشی کنٹرول کرنے کہ چکر میں لگا ہوا ہے ۔ آپ اپنی زندگی choose نہیں کرتے ، زندگی آپ کو choose کرتی ہے ۔ ہمیں خوشی اور غمی میں کوئ درمیانہ رستہ تلاش کرنا ہو گا ،جہاں سکون ہے ۔ ہم اپنی زندگیاں تو نہیں choose کر سکتے لیکن اپنی خوشی اور غمی سے نمٹنے کا طریقہ تو نکال سکتے ہیں “
میں اگلے دن ہی دبئ میں مقیم ایک دوست کہ سوال پر یہی کہ رہا تھا کہ تقدیر تو ہم نہیں بدل سکتے لیکن ان ہی مقدروں میں کوئ ڈھنگ سے یا اپنی مرضی سے جینے کا طریقہ تو نکال سکتے ہیں برخوردار ؟ ایک گانے کہ بول یاد آ گئے ۔
“تجھ سے ناراض نہیں زندگی حیران ہوں میں “
اسی ناول میں سوئٹزرلینڈ کہ حوالے سے پاؤلو ، لارڈ بائرن کی self exile کا تزکرہ کرتا ہے ۔ جو ۱۸۱۶ میں کچھ مہینوں کہ لیے تھی ۔ جس میں بھی بائرن پر orgy اور نشہ کہ الزامات لگے ۔ بائرن میرا بہت فیورٹ شاعر رہا ہے انگریزی ادب میں ایف اے اور بی اے میں ۔ انہی دنوں اس کہ پاس شیلے اپنی بیوی Mary کہ ساتھ آ گیا اور وہیں Mary نے اپنی کتاب Frankenstein لکھنے کا ارادہ بنایا ۔ بائرن صرف ۳۶ سال جیا ، لیکن اصلی زندگی جیا ۔ نقل اور تقلید سے نفرت تھی اُسے ۔ میں جب بائرن پر لوگوں کی تنقید کا سوچتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ کتنا ظلم ہے کہ ایک شخص جو اتنا کم جیا اور دنیا کو اتنا کچھ دے گیا اس کو بھی زمانے نے نہیں بخشا؟ ۔ کیونکہ جیسے کل ویریک کو ایک امریکہ میں ہی موجود ریپبلیکن پارٹی کہ دوست نے میرے بلاگ پر جیسے رگیدا اور ساتھ میں علامہ اقبال کو بھی ، محض ان کی نجی زندگیوں پر ، میں اس نتیجے پر پہنچا کہ جین پال ساترے بہت اچھا تھا بلکل anti social تھا ۔ میں بھی امریکہ میں self exile پر ہوں ، مگر ابھی بھی پاکستان سے اس طرح کی بہت مہربانیاں ہوتی ہیں اور میں سوچتا ہوں بخش دو ، میں تو نہ سیاست دان نہ پبلک آفس ہولڈر ؟۔ آپ اپنی تقدیر نہیں بدل سکتے لیکن اندھی تقلید سے تو بچ سکتے ہیں ۔ وہ بے جا تقلید ہی زندگی کو ناخوشگوار کرتی ہے ۔ زمانہ کیا کہے گا ؟ اوہ بھئ زمانہ آپ کو روزی روٹی دیتا ہے ؟ اسے john stuart mill نے بہت اچھا کہا تھا کہ سوسائٹی کی تقلید نہ کرنے پر سزا قانون توڑنے کی سزا سے ہزاروں درجہ زیادہ ۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے انسان کہ ساتھ ، جس وجہ سے اس کی تخلیقی صلاحیتیں دم توڑ جاتی ہیں ۔ ہر انسان unique ہے ۔ اس کی روح کسی مقصد کہ لیے جسم میں آئ ہے ۔ اور وہ مقصد کائنات کی محبت ہے اس مقصد کہ لیے صرف جیئں ۔ اسی ناول میں پاؤلو نے ٹھیک لکھا کہ “دراصل محبت goal ہے اور faith یا ایمان ،اس کے حصول کا زریعہ “
یہ وہی محبت ہے جسے جب اس ناول میں وہ جرنلسٹ خاتون ، سیاستدان کی بیوی کو بتاتی ہے کہ تیرا خاوند ایک اور سیاست دان کی بیوی سے سیٹ ہے تو وہ بجائے برہم ہونے کہ جواب دیتی ہے کہ “ جب تک وہ consensual sex بغیر محبت کہ ہے تو مجھے کوئ فرق نہیں پڑتا، میں تو بہت زیادہ open relationships کی قائل ہوں “
میں لارڈ بائرن کی بہت خوبصورت شاعری کہ کچھ الفاظ پر ختم کرنا چاہوں گا ۔ کاش میں اس کی اردو کر سکتا بغیر اس کی خوبصورتی ختم کرتے ہوئے ۔
She walks in beauty, like the night
Of cloudless climes and starry skies;
And all that's best of dark and bright
Meet in her aspect and her eyes:
Thus mellowed to that tender light
Which heaven to gaudy day denies.
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔