(Last Updated On: )
انسانی دماغ کے ایک چھوٹے سے ریزے پر گہری نظر ڈالنے سے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھے گئے نرالے پن کا پتہ چلتا ہے۔
اضافی مضبوط کنکشن، گھومنے والے ٹینڈرلز اور سڈول سیل دماغ کے گہرے اسرار کی طرف اشارہ کرتے ہیں
انسانی دماغ کا ایک ایسا نیا منظر اس کے سیلولر مکینوں یعنی خلیات کو ان کی تمام معموں والی اور عجیب شان میں دکھاتا ہے۔ ایک عورت کے دماغ کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے سے تیار کردہ نقشہ، ان 50,000 خلیوں کی مختلف شکلوں اور ان کے درمیان 130 ملین رابطوں کو ایک نقشے کی صورت بناکر دکھاتا ہے۔
یہ دماغ کا ایک پیچیدہ نقشہ، جسے H01 کا نام دیا گیا مطلب Human Sample 1 ” کے لیے کا نام دیا گیا ہے، سائنس دانوں کی دماغ کی مزید تفصیلی وضاحت فراہم کرنے کے لیے ایک سنگ میل کی نمائندگی کرتا ہے .
امریکی شہر سیاٹل کے ایلن انسٹی ٹیوٹ فار برین سائنس میں نیورو سائنسدان کلے ریڈ Clay Reid کا کہنا ہے کہ “یہ بالکل خوبصورت ہے اوربہترین طریقے سے ایک بہت ہی دلچسپ چیز کا آغاز ہے۔”
ہارورڈ یونیورسٹی، گوگل اور دیگر جگہوں کے سائنسدانوں نے دماغی بافتوں کا نمونہ تیار اور تجزیہ کیا۔ تل کے بیج سے چھوٹا، دماغ کا ایک حصہ جو پورے دماغ کے حجم کا تقریباً دس لاکھواں حصے کے برابر تھا۔ یہ ٹکڑا دماغی حصے کارٹکیس سے لیا گیا تھا – کارٹکیس ہمارے دماغ کی بیرونی تہہ ہوتی ہے جو پیچیدہ سوچ کے لیے ذمہ دار ہے – ڈاکٹرز دراصل ایک 45 سالہ خاتون کی جو مرگی مریضہ تھیں، انکے لیے سرجری کی تیاری کررہے تھے
اس دماغی زرے کو ہٹانے کے بعد، دماغ کے نمونے کو تیزی سے محفوظ کر لیا گیا اور بھاری دھاتوں سے اس نشازدگی کر دی گئی جس سے دماغ کے سیلولر ڈھانچے کا انکشاف ہوا۔ اس کے بعد اس نمونے کو 5000 سے زیادہ ویفر کے پتلے ٹکڑوں جتنے حصوں میں کاٹا گیا اور طاقتور الیکٹران خوردبین کے ساتھ اسکی تصویر کشی کی گئی۔کمپیوٹیشنل پروگراموں نے نتیجے میں آنے والی تصاویر کو ایک ساتھ جوڑ دیا اور مصنوعی ذہانت کے پروگراموں نے سائنسدانوں کو ان کا تجزیہ کرنے میں مدد کی۔
ابھی صرف دماغ کے اس ٹکڑے میں محققین یہ دیکھنا شروع کر رہے ہیں کہ وہاں کیا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک ڈیولیوپ منٹل نیورو بائیولوجسٹ، اور اس تقیق کے شریک مصنف جیف لِچٹ مین Jeff Lichtman کہتے ہیں، “ہم نے واقعی میں اپنے آپکو اس ڈیٹاسیٹ میں بظاہر ڈبو دیا ہے۔” لِچٹ مین نے دماغی نقشے کا گوگل ارتھ سے موازنہ کیا: “وہاں تلاش کرنے کے لیے پوشیدہ جواہرات جیسے موجود ہیں، لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ انھوں نے کوئی پوری چیز کو دیکھا ہے۔”
لِچٹ مین کا کہنا ہے کہ لیکن پہلے ہی، کچھ “حیرت انگیز طور پر دلچسپ مقامات نمودار ہو چکے ہیں۔ “جب آپ کے پاس بڑے ڈیٹا سیٹس ہوتے ہیں، تو اچانک یہ عجیب وغریب، پراسرار اوریہ نایاب چیزیں نمایاں ہونے لگتی ہیں۔” اور ایک منظر سا آپکے سامنے آنے لگتا ہے۔
ایسا ہی ایک تجسس و اسرار / دماغی کنکشن جسکو سنائپسیس Synapsesکہتے ہیں، ان کے مقامات سے متعلق ہے جہاں سگنل اعصابی خلیوں کے درمیان منتقل ہوتے ہیں۔ عام طور پر، زیادہ تر پیغام بھیجنے والے محور صرف ایک بار پیغام وصول کرنے والے ڈینڈرائٹ کو چھوتے ہیں۔
اس نئے ڈیٹاسیٹ میں، تقریباً 90 فیصد کنکشن یہ ون ہٹ رابطے تھے، مطلب ڈینڈرائیڈ اور نیورانز کے درمیان ایک برقی رو کا رابطہ کے برابر۔ خلیات کے کچھ جوڑوں میں کچھ زیادہ رابطے ہوتے ہیں۔ لیکن ہر بار، محققین نے ایسے خلیات کو دیکھا جو متعدد بار آپس میں جڑے ہوئے تھے، جس میں ایک جوڑا بھی شامل تھا جو کہ 19 synapsesکے ذریعےآپسی جڑے ہوئے تھے۔
چوہوں کے دماغوں میں ایک سے زیادہ کنکشن دیکھے گئے ہیں، اگرچہ اس انسانی نمونے میں بہت زیادہ نہیں ہیں. اور ایک مکھی کے دماغ کے خلیات کے درمیان بھی بہت سے ڈینڈرائیڈ/نیورانز رابطے بھی ہو سکتے ہیں، حالانکہ وہ نئے بیان کردہ انسانی رابطوں سے زیادہ منتشر ہوتے ہیں، ایشبرن، وا Ashburn, Va میں ہاورڈ ہیوز میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کے جینیلیا ریسرچ کیمپس کے نیورو سائنس دان پیٹ ریولن Pat Rivlin کہتے ہیں۔ جس کا مقصد فروٹ فلائی اعصابی نظام کے تفصیلی نقشے بنانا ہے۔
نیورو سائنسٹ ریڈ Reid کا کہنا ہے کہ انسانی دماغ پر بڑا ڈیٹا سیٹ اس بات کی بنیاد فراہم کرتا ہے کہ اس قسم کے کنکشن کتنے عام ہیں۔ اور اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ غیر معمولی مضبوط Synapses دماغ میں کیا کام کر رہے ہیں۔
لِچٹ مین کا قیاس ہے کہ یہ خلیے اپنے ٹارگٹ سیل کو طاقتور طریقے سے عمل میں لانے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ شاید کچھ حافظہ اور سیکھنے کی معلومات، جیسے جاننا کہ 5 گنا 5 دراصل 25 کے برابر ہوتاہے یا سرخ بتی پر رکنا جاننا، ان جیسے طاقتور ان پٹس پر انحصار کرتا ہے جو دماغ کے ذریعے معلومات کو مؤثر طریقے سے چلاتے ہیں۔
ایڈنبرا یونیورسٹی میں مالیکیولر نیورو سائنسدان سیتھ گرانٹ Seth Grant بتاتے ہیں کہ اگرچہ نقشہ ایک قیمتی ٹول ہے، لیکن یہ صرف دماغ کی اناٹومی کو ظاہر کرتا ہے۔ دیگر تحقیق سے انسانی دماغی رویے کو چلانے والے مالیکیولز کے کام اور ساخت کو واضح کرنے میں مدد ملے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ ابھی کے لیے، نقشہ بہت زیادہ ہوا تو بس صرف ایک” تحقیقی ٹول” کے برابر ہے۔
مزید دریافت کرنے کا ایک تجسس ٹیم کا دو اعصابی خلیات، یا نیوران کا مشاہدہ ہے، جو ایک متوازی رقص جیسی پوزیشن میں جکڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان تصاویر میں نیورونز کے پیغام بھیجنے والے محوروں کا بھی انکشاف ہوا ہے جو وسیع کنڈلیوں کی تشکیل کرتے ہیں، غیر معمولی اور پراسرار بھورے جو کوائلڈ سانپوں کی طرح نظر آتے ہیں۔ لِچٹ مین کا کہنا ہے کہ “ہم نے کبھی ایسا کچھ نہیں دیکھا تھا۔ ایک بار جب محققین کو معلوم ہو گیا کہ ان کنڈلیوں کو کس طرح تلاش کرنا ہے، زیادہ سے زیادہ ایسی پراسرار کنڈیلیاں ملتی چلی گئیں.
ایلن انسٹی ٹیوٹ میں چوہوں اور انسانی دماغ کے نقشوں پر کام کرنے والے نیورو سائنٹسٹ ریڈ کا کہنا ہے کہ دماغ کے یہ انتہائی تفصیلی نقشے برسوں کی تحقیق کا نتیجہ ہیں۔ ریڈ کا کہنا ہے کہ “یہ تاریخ کا جادوئی وقت ہے” جب دماغی نقشہ سازی کے اوزار، جیسے کمپیوٹیشنل طریقے، مشین لرننگ اور طاقتور خوردبین، سبھی دستیاب ہیں۔ “یہ کام ابھی دن کی روشنی دیکھنا شروع کر رہا ہے۔”
یہ نقشے آخر کار کیا ظاہر کریں گے یہ اب بھی کسی کا اندازہ ہی ہوسکتا ہے۔ لِچٹ مین اس بارے میں محتاط ہیں کہ آیا یہ نقشے انسانی دماغ کے بارے میں گہرے فہم کا باعث بنیں گے۔ “میرے خیال میں ہم جو سب سے بہتر کام کر سکتے ہیں وہ انکو بیان کرنا ہے کہ کیسے انکی تشکیل ہوتی ہے ، انکے کام کرنے کی وضاحت پھر ہوسکتا ہے آگے کوئی کردے ” وہ کہتے ہیں۔ “مجھے امید ہے کہ کسی وقت، ہم ایسی جگہ پر پہنچ جائیں گے جہاں ہم جو کچھ دیکھتے ہیں اس سے ہمیں مزید حیرت نہیں ہوتی۔”