فرض کیجئے کہ آپ خلائی مخلوق ہوتے جو اس دنیا میں اکتوبر 1962 میں وارد ہوتے۔ تاریخ کا سب سے ہولناک مرحلہ جاری تھا جو کیوبا کا میزائل بحران تھا۔ دنیا تباہی کے دہانے پر تھی۔ آپ معائنہ کر کے کہتے کہ کچھ بھی خاص نہیں ہو رہا۔ امریکہ، سوویت یونین یا کیوبا کچھ بھی نہیں کر رہے۔ اپنے سبز ہاتھوں سے جماہی لیتے چہرے کو ڈھک کر کہتے کہ عالمی سیاست ایک سست اور بور شے ہے جہاں پر کچھ خاص نہیں ہوتا۔
آپ کو یہ معلوم نہ ہو سکتا کہ کچھ نہ ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے والی قوتیں ایک دوسرے کے مخالف ہیں لیکن توازن میں ہیں۔ چابی بھری جا چکی ہے۔ میزائل ایک دوسرے کا نشانہ باندھے تیار ہیں۔ افواج ہائی الرٹ پر ہیں۔ دنیا کی خاموشی انفارمیشن کی عدم موجودگی کے سبب نہیں ہے۔ اس تناوٗ کا مطلب یہ ہے کہ چھوٹا واقعہ بہت بڑا اثر ڈال سکتا ہے۔ بظاہر جمود میں لگنے والی دنیا کو بدلتے دیر نہیں لگتی۔
اگرچہ یہ دیکھنا اور سمجھنا آسان نہیں لیکن دماغ کی یہی صورتحال ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا نقشہ مستحکم ہے کیونکہ مقابلے کی قوتیں پرفیکٹ توازن میں ہیں۔ اس کی خاموشی ایسا ہی سراب ہے لیکن اس کا مطلب انفارمیشن کی عدم موجودگی نہیں۔ اس کے حصے سرد جنگ میں مصروف ہیں۔ چابی بھری ہے۔ اس کی دنیا کی عالمی سرحدیں مستقبل کے مقابلے کے لئے تیاری میں ہیں۔ اس تناوٗ کا مطلب یہ ہے کہ چھوٹا واقعہ بڑا اثر ڈال سکتا ہیں۔ بظاہر جمود میں لگنے والے دماغ کو بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساڑھے تین سال کی ایک بچی کو مرگی کا معمولی دورہ پڑا۔ والدین اس کو ہسپتال لے گئی۔ دماغ کے سکین نے میڈیکل کمیونیٹی کو ششدر کر دیا۔ بچی کا دماغ پیدائشی طور پر آدھا غائب تھا۔ صرف بائیں طرف والا حصہ موجود تھا۔ اس نایاب ایبنارمل دماغ سے بچی کی ڈویلپمنٹ پر کیا اثر ہوا تھا؟ کچھ بھی نہیں۔ اس نے نارمل بچپن گزارا۔ ہاتھ اور آنکھوں کی کوآرڈینیشن بالکل نارمل تھی۔ مرگی کے دورے ادویات سے کنٹرول رہے اور بائیں ہاتھ کی اچھی موٹر سکِل نہ ہونے کے سوا کچھ بھی ایسا نہیں تھا جس سے اندازہ ہو سکے کہ بچی میں کچھ مختلف ہے۔
یہ واقعہ 2009 کا ہے اور ہمیں ایک بنیادی سوال پر غور کا موقع دیتا ہے۔ اس بچی کے دماغ کی وائرنگ کیسی ہو گی؟ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عام طور پر بصارت کی انفارمیشن کسی شخص کی بائیں آنکھ سے ہو کر سر کے پیچھے بائیں ویژوئل کورٹیکس تک پہنچتی ہے۔ دائیں آنکھ سے یہ دائیں ویژوئل کورٹیکس تک۔ لیکن بچی کا نصف دماغ نہیں تھا تو یہ اس دماغ میں فائبر آخر کہاں گئے؟
آج سے ایک دہائی پہلے تک کوئی اندازہ بھی نہیں لگا سکتا ہو گا کہ دونوں فیلڈز سے آنے والے فائبر بائیں حصے میں جا رہے تھے۔ بچی کو بالکل نارمل نظر آ رہا تھا۔ دماغ نے دستیاب علاقے کو استعمال کر لیا تھا۔ اپنی وائرنگ تبدیل کر لی تھی۔ اور نہ صرف یہ بلکہ روایتی سے بالکل ہی ہٹ کر ہونے والی دماغ کے سٹرکچر سے باقی حصوں کو کچھ مسئلہ نہیں ہوا تھا۔ ویژوئل کورٹیکس کو اپنی روایتی جینیاتی ترکیب پر کاربند رہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ جینیات نازک سسٹم نہیں بناتیں جو کسی غیرمتوقع وجہ سے گِر جائے۔ جینیات نے کھلتے وقت ایسا زندہ سسٹم تشکیل دیا تھا کہ اسے اپنا کام بہت مختلف صورتحال میں بھی سرانجام دینا آتا تھا۔
اس سے پہلے ہم میتھیو کی کہانی پڑھ چکے ہیں جس کا نصف دماغ نکال دیا گیا تھا۔ میتھیو نارمل زندگی بسر کر رہا ہے۔ دماغ دستیاب علاقے میں اپنا فنکشن برقرار رکھے ہوئے ہے۔ سوال یہ کہ اس قدر ریڈیکل تبدیلیاں کیسے آتی ہیں؟
اس کے لئے مینڈک پر تجربہ کیا گیا۔ مینڈک کے بچوں میں ایک آنکھ کا اضافہ کر دیا گیا جو جسم کی ایک سائیڈ پر تھی۔ اس غیرمعمولی آپٹک نرو نے اپنا راستہ بنا لیا۔ تیسری آنکھ نے درمیان میں اپنا حصہ لے لیا۔ جیسے کوئی قبضہ گروپ آ کر درمیان میں براجمان ہو جائے۔ باقی دو آنکھوں کا علاقہ چھوٹا ہو گیا اور تیسری کو جگہ مل گئی۔ یہ پھیلنا اور سکڑنا جاری رہتا ہے۔
نیورل نقشے پہلے سے طے شدہ حقیقت نہیں۔ اور یہ مستقبل میں سٹروک اور دیگر مسائل کے حل کے لئے حوصلہ افزا خبر ہے۔
اس کی مثال ہمیں صرف بچپن میں نہیں، بالغ مریضوں میں نظر آتی ہے۔ سٹروک کے بعد دماغ بڑی تنظیمِ نو سے گزرتا ہے۔ وہ فنکشن، جو ختم ہو چکے ہوں، بعض اوقات اگلے ماہ و سال میں لوٹ آتے ہیں۔ وہ لوگ جو بائیں حصے میں سٹروک کی وجہ سے بولنا چھوڑ چکے ہوں، وہ واپس بولنے لگتے ہیں۔ اس کی وجہ مردہ ٹشو کے نقصان ٹھیک ہو جانا نہیں۔ موت کسی بھی سطح پر ہو، یہ یکطرفہ راستہ ہے۔ خلیے یا ٹشو مرنے کے بعد واپس نہیں آتے۔ صلاحیت کی بحالی کی وجہ ٹشو کی واپسی نہیں بلکہ زبان کے سنٹر کا دائیں طرف چلے جانا ہے۔
ہم نے مثالیں دیکھیں جس میں دماغ کے نقشے پھیلتے ہیں، سکڑتے ہیں، جگہیں بدلتے ہیں۔ فنکشن ہجرت کر جاتے ہیں۔ لیکن ان کو پتا کیسے ہے کہ یہ جادو کیسے کرنا ہے؟ اس کے جواب کے لئے نیورون کے جنگل کی گہرائی میں چھلانگ لگاتے ہیں۔