یہ کوئی پہلی زبان نہیں تھی۔ ہر جانور کی کسی قسم کی زبان ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ کیڑے جیسا کہ شہد کی مکھیاں اور چونٹیاں بھی جانتی ہیں کہ پیچیدہ طریقوں سے کیسے بات کی جاتی ہے، اور ایک دوسرے کے کھانے کے مقام کے بارے میں بتاتی ہیں۔ نہ ہی یہ پہلی بولی جانے والی زبان تھی۔ کافی جانور بشمول بوزنے اور بندروں کی نوع کی اپنی بولیاں ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، سبز بندر بات چیت کے لئے کافی قسم کی آوازیں نکالتے ہیں۔ ماہرین حیوانیات نے ایک آواز کو ‘محتاط! ایک چیل!’ کے طور پر شناخت کیا ہے ایک تھوڑی سے مختلف آواز خبردار کرتی ہے، “سنبھلنا! ایک شیر!’ جب محققین نے پہلی آواز کی ریکارڈنگ کو بندروں کے غول کو سنوائی، تو بندروں نے اپنا کام کرنا چھوڑ دیا اور خوف زدہ ہو کر اوپر کی طرف دیکھنے لگے۔ جب اسی غول نے دوسری آواز کو سنا، شیر کے خبردار کرنے والی آواز، تو وہ تیزی سے درخت پر چڑھ گئے۔ سیپئین سبز بندروں کے مقابلے میں کئی کافی مختلف آوازیں نکال سکتے ہیں، تاہم وہیل اور ہاتھیوں میں بھی یہی متاثر کن صلاحیتیں موجود ہیں۔ ایک طوطا وہ کچھ بھی کہہ سکتا ہے جو البرٹ آئن سٹائن بول سکتا ہے، بلکہ فون کے بجنے، دروازہ بند ہونے کی اور سائرن کے بجنے کی آواز بھی نکال سکتا ہے۔ آئن سٹائن کو طوطے پر جو بھی برتری ہے وہ صرف بولنے کی نہیں ہے۔ تو پھر آخر ہماری زبان میں ایسی کیا خاص بات ہے ؟
سب سے عام جواب یہ ہے کہ ہماری زبان حیرت انگیز طور پر لچک دار ہے۔ ہم محدود آوازوں اور اشاروں سے لاتعداد جملے بنا سکتے ہیں، جس میں سے ہر ایک کا الگ مطلب ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ہم آس پاس کی دنیا کے بارے میں غیر معمولی مقدار کی معلومات کو ہضم، ذخیرہ اور تبادلہ کر سکتے ہیں۔ ایک سبز بندر اپنے ساتھی کو چیخ کرکہہ سکتا ہے، ‘سنھبلنا! ایک شیر!’ تاہم ایک جدید انسان اپنی دوست کو بتا سکتی ہے کہ اس صبح، دریا کے موڑ کے پاس، اس نے ایک شیر کو دیکھا جو بھینسے کے غول کا پیچھا کر رہا تھا۔ اس کے بعد وہ بشمول اس علاقے تک جانے والے مختلف راستوں کے ٹھیک مقام کو بھی بیان کر سکتی ہے ۔ ان معلومات کے ساتھ اس کے جتھے کا کوئی بھی رکن دوسروں کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھ کر جائزہ لے سکتے ہیں کہ آیا انہیں دریا تک شیر کا پیچھا کرتے ہوئے جانا چاہئے اور بھینسے کا شکار کرنا ہے یا نہیں۔
ایک دوسرا نظریہ متفق ہے کہ ہماری منفرد زبان دنیا کے بارے میں معلومات کے اشتراک کی وجہ سے ارتقاء پذیر ہوئی۔ لیکن سب سے اہم اطلاعات جن کے بارے میں آگاہ کرنے کی ضرورت تھی وہ شیر اور بھینسے نہیں بلکہ انسان تھے۔ ہماری زبان کا ارتقاء بات چیت کرنے کے لئے ہوا۔ اس نظریئے کے مطابق ہومو سیپئین بنیادی طور پر ایک معاشرتی جانور ہے۔ سماجی تعاون ہماری بقا اور نسل کو آگے بڑھانے کی کنجی ہے۔ انفرادی مردوں اور عورتوں کے لئے شیر اور بھینسے کے مقام کو جاننے کافی نہیں ہے۔ ان کے لئے یہ بات جاننا زیادہ ضروری ہے کہ ان کے جتھے میں کون کس سے نفرت کرتا ہے، کون کس کے ساتھ سو رہا ہے، کون دیانت دار ہے اور کون دھوکے باز ہے۔
4۔ جرمنی کے اسٹیڈل غار سے ‘شیر-آدمی’ (یا شیرنی-عورت’) کا ہاتھی دانت سے بنا مجسمہ ( تقریباً 32,000 ہزار برس پرانا )۔ جسم انسان کا ہے تاہم سر شیرانہ ہے۔ یہ غیر متنازعہ پہلے فن کا نمونہ ہے اور ممکنہ طور پر مذہب کا بھی، اور انسانی دماغ کے اس چیز کو سوچنے کی قابلیت کا بھی جو حقیقت میں وجود نہیں رکھتی تھی۔
وہ اطلاعات جو کسی ایک کے پاس ہونے چاہئے تھی تاکہ وہ چند درجن افراد کے بدلتے تعلق کا سراغ لگا سکے بہت ہی حیران کن تھی۔ (پچاس افراد کے ایک جتھے میں1,225 فرداً فرداً رشتے اور لاتعداد پیچیدہ معاشرتی تعلقات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ) تمام بوزنے اس طرح کی معاشرتی معلومات میں دلچسپی لیتے ہیں تاہم وہ بات چیت مؤثر طریقے سے نہیں کر سکتے۔ ممکنہ طور پر نیندرتھل اور قدیمی ہومو سیپئین ایک دوسرے کے پیچھے بات چیت کرنے میں دقت کا سامنا کرتے تھے – ایک بہت زیادہ بدنام صلاحیت جو حقیقت میں بڑی تعداد میں تعاون کے لئے لازمی ہوتی ہے۔ لگ بھگ ستر ہزار برس پہلے حاصل کر لینے والی نئی لسانی مہارتوں نے سیپئین کو قابل کر دیا تھا کہ وہ گھنٹوں وقت بات چیت میں گزار دیں۔ کس کے اوپر اعتماد کیا جا سکتا ہے جیسی معتبر اطلاعات کا مطلب یہ ہے کہ چھوٹا جتھہ بڑے جتھے میں وسیع ہو سکتا، اور سیپئین زیادہ قریبی اور پیچیدہ اقسام کے اشتراک کو بنا سکتے ہیں۔ 1
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔