31جولائی جمعہ کا دن ہے ایک ٹرک ڈرائیور ٹرک لیکر چلا آرہا ہے ڈرائیور گڑگاں کا رہنے والا ہے، ٹرک ایک بھیڑئے کی ریوڑ کے پاس سے گذرا چاہتی ہے کہ بھیڑئیے ٹوٹ پڑتے ہیں اور لقمان نامی ڈرائیو ر کو گائے کے گوشت کے نام پر پیٹنا شروع کردیتے ہیں جبکہ لقمان کہ رہا ہے کہ ۔۔ گوشت گائے کا نہیں بلکہ بھینس کا ہے۔ اور حقیقت میں گوشت بھینس کا ہی ہے، لیکن بھیڑئیے کہاں سننے والے کچھ رحم دیا ہوتو سنے۔ یہاں تو انسانی خون اور گوشت ان کی غذا ہے، اور بغیر اس کے انہیں چین کہاں!! ان بھیڑیوں کو۔ جے شری رام۔ کا کلمہ یاد ہے جب کچھ نہیں ملتا تو وہی کلمہ جبر و اکراہ پڑھانے لگتے ہیں ، یہاں بھی وہی ہوا جب لقمان کے پاس سے گاے کے گوشت کے بجائے بھینس کا نکلا تو اب جے شری رام کا کلمہ دہرانے لگے جب لقمان کی طرف سے مخالفت ہوئی تو سختی کے ساتھ اس پر زود و کوب کیا جانے لگا یہاں تک کہ نیم مردہ حالت میں اس کو ہسپتال پہنچایا گیا،
یہ واقعہ بقرعید سے ایک دن پہلے کا ہے جو لقمان کے ساتھ پیش آیا اور ستم بالاے ستم یہ کہ جب یہ سب کچھ ہورہا تھا تو سنگھی پولیس کھڑی تماشا دیکھ رہی تھی یا تو ان سنگھی پولیسوں کو دیکھ کر مزہ آرہا تھا کیونکہ جسے پیٹا جارہا تھا وہ مسلمان تھا، یا پھر بھیڑیوں کی جھنڈ سے انہیں خطرہ لاحق تھا اور اس پر بھی مستزاد یہ کہ پولیس نے نامعلوم افراد کے نام پر مقدمہ درج کرایا، اگر پولیس چاہتی تو اسی وقت ان سب کو حراست میں لے سکتی تھی لیکن جب بھیڑیوں کا سربراہ ہی درندہ صفت ہو تو اس کے اثرات سب پر مرتب ہوتے ہیں ، یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے۔ پہلو خان ۔ اخلاق۔ افراز۔ تبریز۔ جنید۔ اس کے علاوہ اور دیگر اور یہ سب واقعات کھلے عام انجام دے گئے ایسا نہیں کہ رات کی تاریکی میں یا کسی اندھیر گڑھے میں یا کسی ایسی جگہ جہاں سے پرندہ بھی نہیں گزرتا بلکہ سرراہ انجام دئیے گئے،
اور اس طرح کے واقعات ہنوز جاری ہیں ، حکومت نے ہر مرتبہ اپنی لاچاری وبے بسی دکھائی ہے اگر بروقت مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا جاتا تو شاید اس طرح کے واقعات میں کچھ روک تھام ہوتی لیکن سنگھی ذہنیت رکھنے والے تو خون کے پیاسے ہوتے ہیں انہیں امن و سلامتی بالکل راس نہیں آتی ، ہماری حکومت سنگھی پروردہ ہے امن کے قیام میں فالج زدہ ہیں ان کی نفرتیں عروج پر ہیں ان کے یہاں جانوروں کی قیمت ہے لیکن انسانوں کی نہیں ، جمہوریت انہیں کبھی راس نہیں آتی اور نہ یہ جمہوریت پسند ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر معاملہ میں انصاف دکھانے سے آج بھی قاصر ہے،
ایک طرف مسلم حکمراں کی بے حسی اور اس کے اعضاء کی تعطلی ان کا ہر میدان میں امن کا نعرہ لگانا ، بات بات پر سنگھی حکومت کی حمایت کرنا مستقبل کیلئے کوئی اچھا منظر نامہ نہیں ہے، مصلحت کے پوجاری دن بدن بڑھتے ہی جارہے ہیں اس کے برعکس ظلم۔ ناانصافی۔ قبضہ دری۔ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اگر ہماری قیادت کی یہی صورت حال رہی تو پھر انجام خیر نہیں ہے ،۔ اس لئے۔ ظلم کے آگے مصلحت نہیں بلکہ سینہ پر ہوکر انصاف کا مطالبہ کیا جائے ۔ بے خوف ہوکر گفتگو کی جائے ۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انصاف کا مطالبہ کیا جائے۔ اور شرجیل امام۔ شرجیل عثمانی۔ آصف۔ خالد سیفی۔ گل فشاں اور ۔ صفورا کا ہمنوا بن جائے،
دونوں طرف سے ہم لاچار ہیں خدا جانے انجام کیا ہوگا،