انسانی آزادی کا تصور، فلسفہ و تاریخ ِ یورپ کی روشنی میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارتر کا یہ کہنا کہ ’’ہمیں اگزسٹینس میں پھینک دیا گیاہے اور ہم آزاد ہوجانے پر مجبور کردیے گئے ہیں‘‘ میرے نزدیک منطقی اعتبار سے باطل ہے۔ بات اِس کے عین برعکس ہے یعنی یوں ہے کہ، ’’ہم مجبور ہوجانے کےلیے آزاد کردیے گئے ہیں‘‘۔ ریحان نقوی نے ایک بار سوال کیا تھا کہ ’’ہماری آزادی کی حُدود کہاں تک ہیں؟‘‘، میں نے لکھا تھا کہ ’’ہم خود پر قابوپانے کے لیے کُلی طور پر آزاد ہیں‘‘۔ جس قسم کا جوہر سارتر کو نظر آیا وہ جانوروں سے انسان کو الگ کرنے کے لیے ناکافی ہے، اگرچہ سارتر نے بنیادی طور پر اپنے مشہورو معروف جوہر(ایسنس) کو دریافت ہی اِسی بنا پر کیا ہے کہ یہ صرف انسان کے ساتھ مخصوص ہےلیکن اس کا مقدمہ استخراجی منطق کے اعتبار سے ناقص ہے بلکہ باطل ہے۔ جس کے قضیات میں یورپ کی تاریخ ِ فکر پر ایک نظر ڈالنے کے بعد پیش کرتاہوں۔
یورپ کی تاریخ یوں ہے کہ یونان میں پہلے رِیزننگ (reasoning) کا غلبہ تھا۔ عقلی سرگرمی اپنی انتہا پر تھی لیکن غلامی کو رِیزننگ کی بنا پر درست مانا جاتا تھا۔ ظلم کی کئی قسمیں، دیوتاؤں کی کئی عادتیں، قتل و غارت اور درندگی کے بےشمار مظاہرے عقلیت کے پرچم تلے بھی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود تھے۔ اس ریزننگ کی ایک مثال تو آپ کو اقبال کی ایک نظم میں مل سکتی ہے جس میں سکندر اعظم اور ایک بحری قزاق کے درمیان مکالمہ ہے۔ پھر یورپ میں عقلیت نے روحانیت کو جنم دیا۔ فلاطینوس نے تاریخ ِ تصوف کی سب سے مہلک بیماری کی بنیاد رکھی، جس کا اوجِ کمال بعد میں، ہمیں فصوص الحکم کی شکل میں نظر آتاہے۔ اس بیماری نے یورپ پر غلبہ تو پالیا لیکن معاشرے کی حالت وہی رہی۔
فلاطینوس کا زمانہ ، گریٹ رومن ایمپائر کا زمانہ ہے جب بازاروں میں صلیبیں نصب ہوتی تھی جو ضرورت پڑنے پر کرائے یا عاریتاً بھی درستیاب ہوتی تھیں اور روز کے روز غلاموں کو بڑی تعداد میں دردناک عقوبت کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ عیسیٰؑ کے پیغام میں اسی عہد کے مظالم کے خلاف بغاوت نظر آتی ہے۔ گریٹ رومن امپائر پر عیسائیت نے غلبہ پایا تو وہاں پہلے سے موجود تصوف کے خربوزے نے اُسے اپنے رنگ میں رنگ لیا۔ یورپ سامی طرز پر پروان نہیں چڑھا، بدستور یونانی اور فلاطینوسی رہا۔ اگر عیسیٰؑ کی تعلیمات فی والواقعہ یورپ کے رگ وپَے میں اُتری ہوتیں تو آرتھوڈکس کلیسا کے زیادہ تر مدلولات یونانیت سے ملوث نہ ہوتے۔ یہ کلیسا کہلواتا بھی، ’’آرتھوڈوکس یونانی چرچ‘‘ تھا۔ کیتھولک عیسائیت اِسی کی مخالفت میں نمودار ہوئی تھی اور اپنے وقت کی ایک جدید تحریک تھی جو ارادۃً سامی طرز کی روحانیت کی طرف متوجہ ہونا چاہتی تھی۔ خمیری اور فطیری روٹی جیسے مسائل کی بنا پر کیتھولک ، یونانی چرچ سے الگ ہوئے، لیکن یورپ کی آب و ہوا اور مخصوص مزاج کی وجہ سے غیرفعّال عقلیت کی زد سے باہر نہ نکل سکے اور فلاطینوس کے مہلک تصوف پر ہی کاربند رہے۔ خیر! یورپ میں زمانہ جو بھی گزرا، معاشرے کی حالت ہر دور کی عقلیت میں جسٹفائی کی جاتی رہی۔
یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور سے پہلے، یورپ پر مذہب کا غلبہ رہا۔ پھر مذہب کا بُت اِس لیے ٹوٹا کہ مذہب عامۃ الناس کے لیے عذاب بن گیا۔ فلاطینوس کے فلسفہ پر قومیں اُستوار ہوں تو آخرالامر لازمی نتیجہ ایسا ہی نکلتاہے جیسا کہ ہم فی زمانہ اپنے ہاں دیکھ رہے ہیں، کیونکہ ہم نے بھی فلاطینوس کو آج تک گلے سے لگایا ہوا ہے، یعنی عقلیت زدہ روحانیت، جس کا نتیجہ ہمیشہ عوام میں مذہبیت ِ محض کی شکل میں نکلتاہے۔ وہ مذہبیت جو خالصتاً عوامی چیز ہے محض عقائد میں ڈھل کر عملی دنیا کے لیے عذاب بن جاتی ہے۔ یوں نتیجۃً، بالآخر کیتھولک چرچ کے خلاف پروٹیسٹنٹ چرچ نمودار ہوا۔
ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ مذہب کے بطن سے ہی مذہب کا قاتل پیدا ہوتاہے۔ آج بھی کوئی سیکولر جتنی کوشش کرلے مذہب کا قتل نہیں کرسکتا لیکن اگر کوئی مذہبی مارٹن لوتھر کی سنت پر چلتے ہوئے مذہب پر وار کرے تو وہ ایک الگ گروہ بنانے میں کامیاب ہوسکتاہے اور پچھلے مذہب کا خاتمہ بھی کرسکتاہے، یہ اس کی اپنی طاقت پر منحصر ہے کہ وہ کس قدر اثرانداز ہوسکتاہے۔ مرزا غلام احمد صاحب کی تحریک کو اس بات کی مثال کے طور پر دیکھا جاسکتاہے۔ لیکن مرزا صاحب بوجوہ پروٹیسٹنٹس جتنا بڑا گروہ پیدا نہ کرسکے، خاص طور پر انگریز سرکار کی صحبت نے انہیں انگریز مخالف مذہبیوں کی صحبت سے بہت دُور رہنے پر مجبور رکھا جبکہ عامۃ الناس پر انگریز مخالف مذہبیوں کی باتوں کا زیادہ اثر تھا۔
بہرحال اِن اَ نَٹ شیل! یورپ کا موجود دور جو مذہب سے اُصولی طور پر دُور ہے، عقلیت سے حسّیت کے عہد میں داخل ہوتا ہے تو پہلی بار اُسے انسانی قتل اور غلامی غیر عقلی محسوس ہوتے ہیں۔ اتنے عرصہ میں پہلی بار۔ سقراط، افلاطون، ارسطو، سب کے ہوتے ہوئے پہلی بار۔ بلکہ ارسطو تو خود سکندر کو بھیجنے والا ہے کہ جاؤ! اور ایران اور ہندوستان کو تاراج کرو اور وہاں کے لوگوں کو غلام بنا کر یہاں لے آؤ!۔ عقلیت کے عہد میں حریت فکر پر پابندی کو عقلیت سے ثابت کرلیا جاتاہے۔ معاشرتی اقدار کو کبھی مذہب کے نام پر اور کبھی قومیت، نسل، رنگ خون، وطن کے نام پر کسی نہ کسی طرح بچالیا جاتاہے اور قتل ہو یا غلامی ، سب کا وجود اور ان کا جواز کبھی ختم نہیں ہوپاتا۔ یورپ میں جس تحریک نے انسان کی قدروقیمت کے خواب کو عملی جامہ پہنایا وہ حسّی یورپ کی سائنسی طرزِ فکر ہے۔
آج کا یورپ ایگزسٹینشلزم کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے نئے نئے اور بے شمار فلسفوں کی پیدوار ہے۔ یہ فلسفے انسانی آزادی کی بات کرتے ہیں۔ جینے کی آزادی، بولنے کی آزادی، رائے دینے کی آزادی، یہ سب یورپ کے سب سے حسین نعرے ہیں۔ لیکن ان میں بعض بہت ہی بنیادی فالٹس ہیں۔ جیسا کہ میں ںے مضمون کے آغاز میں لکھا سارتر کا یہ کہنا کہ ’’ہم آزاد رہنے پر مجبور کردیے گئے ہیں‘‘ بالکل الٹ ہے۔ بات اسے کے برعکس ہے، ’’ہم مجبور ہوجانے کے لیے آزاد کردیے گئے ہیں‘‘۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ خود پر قابو پانے کی آزادی فقط انسان کو حاصل ہے، کسی جانور کو نہیں۔ وہی اپنے آپ کو اخلاقیات کا پابند کرسکتاہے۔ وہ ننگا ہوکر پھرنے لگ گیا تو اس کے مطلب یہ ہرگز نہیں ہوگا کہ اس نے اب آزادی حاصل کرلی ہے۔ بلکہ اس کا مطلب اس کے بالکل برعکس ہوگا یعنی یہ کہ اس نے مکمل پابندی بالفاظ ِ دگر فطری جبر کو قبول کرلیا ہے۔ وہ ایک جانور کی سطح پر فطرت کے نزدیک رہنے میں جو وقتی سُکھ محسوس کرتاہے وہی اس کی ابزرڈٹی اور ایلینیشن کا سب سے بڑا سبب بن جائیگا۔ انسان ننگا گھومنا چاہتاہے تو یہ اس کے ’’آزادی‘‘ نہیں ، اس کا جبر ہے، وہ لاکھوں سال میں ارتقأ پانے والے معاشرے کا ایک ٹکڑا ہے، جہاں اس نے اپنی آزادی سے اپنی بہت سی جذباتی خواہشات پر قابو پایا تھا۔ یہ اس کا اپنا انتخاب تھا۔ تبھی تو تہذیب بن پائی، تبھی انسان باقی رہ پائے، ورنہ کب کے فنا ہوگئے ہوتے۔ اسے خود پر قابو پا سکنے جتنا مضبوط نہ کیا گیا تو وہ اتنی بڑی تبدیلی یعنی ’’تازہ تصورِ آزادی‘‘ میں سروائیو کیسے کریگا؟ کر ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ یہ سب کچھ تو اس کے خون میں ہے۔ وہ ماضی میں ننگا رہاہے ، وہ جب چاہے ننگا رہ سکتاہے۔ لیکن اس نے ننگا رہنا قبول نہیں کیا۔ حالانکہ ماضی میں اس کا ننگا رہنا تو ایک ایسی دنیا میں تھا جسے ہم آج کے مقابلے میں جنت کہہ سکتے ہیں۔ مارکس کو اسی عہد کی یادوں نے ہی تو دھوکا دیا کہ اُس کی عقلیت بھی انسانی آزادی کے جس نکتہ پر پہنچتی وہ پابندی کی ہی ایک قسم تھی ۔ البتہ مارکس کے ہاں ایک مکمل سیاسی و اخلاقی نظام کو قبول کرنے کی دعوت میری بات کی تائید ہے کہ ہمیں خود پر قابو پانے کے لیے آزاد کردیا گیا ہے۔
جانور خود پر قابو نہیں پاسکتے۔ یہ اختیار صرف ہمارے پاس ہے ۔ ہم جب چاہیں اپنے دل کی خواہشات پر قابو پاسکتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اپنا یہ اختیار ہم کس حد تک استعمال کرتے ہیں ۔ اگر ہم اپنا یہ اختیار استعمال نہیں کرنا چاہتے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنا واحد اختیار ہی استعمال نہیں کرنا چاہتے اور فطرت کےدریا میں ویسے ہی بہتے چلے جانا چاہتے ہیں جیسے جانور بہتے ہیں۔ میں اکثر کہا کرتاہوں انسانی اخیتار کا سب سے بڑا ثبوت ارادۃً عبادت کرنے کا عمل ہے۔ اختیار کس چیز کو کہنا چاہیے؟ کیا اس چیز کو نہیں کہ آپ کو اپنے جذبات پر قابو پانے کی جو صلاحیت جانوروں کے مقابلہ میں عطا کی گئی ہے اُسے استعمال میں لایا جائے اور خود پر زیادہ سے زیادہ قابو پا کر دکھایا جائے؟ اچھا میں ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتاہوں،
موجودہ طرز کی آزادیِ فکر کو استخراج کے ذریعے ہم یہاں تک لاسکتے ہیں کہ اگر ایک شخص یہ کہے کہ ’’میرا کسی عورت کو بھُوکی نظروں سے دیکھنا بالکل ویسا ہے جیسا نَر جانور کا کسی مادہ جانور کو بھوکی نظروں سے دیکھنا۔ یہ چونکہ ایک فطری عمل ہے، اس لیے میرے اختیار کی آزادی ہے اور میں یہی چُننا چاہتاہوں کہ میں کسی عورت کو بھُوکی نظروں سے دیکھوں۔ چاہے جتنا میرا دل چاہے دیکھوں۔ میری آزادی میں کوئی حارج ہونے کا حق نہیں رکھتا‘‘۔
تو اس کو یہ جواب دینا، درست جواب ہوگا کہ ’’میاں! تم اپنی جبلی خواہش یعنی سیکس کی تسکین کے لیے جس قسم کی حرکتوں کو اپنا بنیادی حق کہہ رہے ہو وہ بلاشبہ ایک جانور کا بنیادی حق ہے۔ لیکن تم انسان ہو اور انسان کا جانوروں سے یہی ایک فرق ہے کہ انسان اپنا حقِ انتخاب (یعنی اپنے جذبات پر قابو پانے کا حق) استعمال کرسکتاہے۔ اگر تم یہ فیصلہ کرلوگے کہ میں خود پر قابو پانا چاہتاہوں اور میں عورت کی طرف بھوکی نظروں سے نہیں دیکھنا چاہتا۔ تو اس کا دوسرا مطلب یہ ہوگا کہ تم نے اب اپنی آزادی کا استعمال کیا ہے۔ اپنے اختیار کا استعمال کیا ہے۔ اگر تم آزادی ِ فکر، آزادیِ رائے، آزادیٔ عمل اور بنیادی انسانی حقوق کی بات کرتے ہوتو ’’آزادی‘‘ فقط تمہارے خود پر قابو پاسکنے کے اختیار کے استعمال کا نام ہے۔ یہ اختیار جتنا زیادہ چاہو استعمال کرو! یہی آزادی ہے۔ خود پر قابو پانے کی تمہیں کھلی آزادی ہے۔ جتنا جی چاہے پالو! اور اگر تم کہو کہ نہیں، تمہاری ننگا گھومنے کی خواہش یا عورت کو بھوکی نظر سے دیکھنے کی تمنّا دراصل آزادی ہے اور تمہارا خود مختارانہ فیصلہ ہے تو معذرت کے ساتھ، وہ قطعی طور پر تمہارا خودمختارانہ فیصلہ نہیں ہے۔ نظر تو جبلی طور پر بھوکی ہے۔ نظر تو اُسی طرف کو جائے گی جس طرف فطرت کے جبرنے اُسے گھمادیناہے۔ فطرت کا جبر جس کے پابند نباتات، جمادات اور حیوانات ہیں۔ ایک کُتا بھی اپنی نظریں نہیں ہٹا سکتا جب اُس کے سامنے جنسی خواہش کی تسکین کا مقصد ہو۔ اگر ایسے عالم میں کوئی اپنی نظر ہٹاسکنے کے اختیار کا کلیۃً مالک ہے تو وہ صرف اور صرف انسان ہے۔ اگر تم کہو کہ بھوکی نظر سے دیکھنا تمہارا اپنا فیصلہ اور خودمختارانہ آزادی ِ اظہار تشخص ہے تو پھر اس حد تک فیصلہ تو جنگل میں دوڑتا ہِرن بھی اچانک کرلیتاہے اورنامانوس بُو پاکر راستہ بدل لیتاہے۔ پھر انسان کا وہ جوہر جو سارتر کو سب جانوروں سے جدا نظر آتاہے کہاں گیا؟ وہ جوہر جو متقدم ہے وجود پر؟ وہ جوہرجو انسان اپنی شخصی ذاتی آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنے لیے کسی مقصد کی تلاش اور پھر اس کی تکمیل سے اپنی شناخت کی صورت حاصل کرتاہے؟ ہرن بھی فیصلہ ہی تو کرتاہے کہ اِدھر سے نہیں جانا اُدھر سے جاناہے۔ فیصلہ اس کے علاوہ اور کیا ہوتاہے؟ ایک سیاستدان جب فیصلہ کرتاہے کہ وہ الیکشن لڑے گا تو اس کا فیصلہ اور اِس ہرن کا فیصلہ، اِن دونوں میں کیا فرق ہے؟ کوئی فرق نہیں ہے میرے بھائی! اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں مکمل آزادی دے دی جائے تو پھر وہ استخراجی منطق کے اعتبار سے ایک ہی صورت میں ممکن ہے کہ تمہارا فیصلہ جبلت کے جبر سے آزاد ہو۔ تم میں اور ہِرن میں فرق ہونا چاہیے! تم خود پر ہر وقت قابو پالینے کے عجب اور باکمال اختیار سے آراستہ ہو۔ فطرت نے تمہیں لاکھوں سال کی محنت سے اِس قابل بنایا ہے کہ تم خود پر قابو سکو، اپنے جذبات پر قابو پاسکو۔
ایک طرف یورپی مفکرین نظریہ ارتقأ کو جی جان سے مانتے ہیں اور دوسری طرف اخلاقیات مرتب کرنے کا کام انفرادی شخصیات کے ہاتھ میں دے رکھاہے۔ ہر بیس تیس یا پچاس سال بعد ایک نیا فلسفی پیدا ہوجاتاہے جو یورپ کو یہ بتاتا ہے کہ انسانی آزادی نام ہے دراصل ہر فرد کے اپنے طور پر دلی خواہشات پر چلنے کا، توسوال پیدا ہوتاہے کہ انسانی معاشرہ کیسے وجود میں آیا؟ اگر ارتقأ کو ماننے والے لوگ ہی یہ بات نہیں مانیں گے کہ خود پر قابو پالینا یا اخلاقیات کی تمام شکلیں، جو ماضی قریب تک موجود تھیں ارتقائی عمل کے ذریعے ہی ممکن ہوئیں، تو پھر وہ اپنے ہی مقدمہ کو اپنے ہی دلائل کے ذریعے رد کردینگے۔
ہوتا دراصل یوں ہے کہ جب کبھی کسی کو کسی ذاتی خواہش کے راستے میں رکاوٹ محسوس ہوتی ہے اور وہ چاہتاہے کہ کاش یہ نہ ہوتی تو وہ اسے انسانی آزادی کا نام دے کر جدیدیت کے جھنڈے تلے جاکر پورا کرلیتاہے۔ یہ جبر ہے، آزادی نہیں ہے۔ آزادی یہ ہے کہ وہ اپنی واحد انسانی صلاحیت کو استعمال میں لائے۔ انسان کا بچہ بنے۔ خود پر قابُو پائے تاکہ طاقتور ہوسکے اور اچھی زندگی جی سکے۔ معاشرے کو اس کی ضرورت ہے۔ وہ یوں ننگا ہوکر نہ تو خود کوئی طاقت حاصل کرپائے گا اور نہ ہی کبھی معاشرے کو طاقتور بنا سکےگا۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ کی حکومتیں طاقتور ہیں اور معاشرے نہایت کمزور۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ کی آج تک سرمایہ دارانہ نظام سے جان نہیں چھوٹ سکی۔ اس کے مقابلہ میں ایشینز نے چائنہ اور روس میں اس نظام سے جان چھڑا کر ثابت کیا ہے کہ شخصی آزادی کا وہ نظریہ جو جدید یورپ نے اخیتار کیا غلط ہے۔ اگرچہ چائنہ اور روس بھی کسی معاشرے کی کوئی اچھی مثال نہیں ہیں اور اُوپر میں مارکس پر اپنا اعتراض بھی ریکارڈ کروا آیا ہوں۔
مضمون کی طوالت کے خوف سے یہاں رکنا پڑیگا۔ اگرچہ میرا ارادہ تھا کہ اب مغرب اور مشرق کے معاشروں کی طاقت کا فرق پیش کرتا۔ خاص طور پر ہندوستانی اور پاکستانی معاشرہ آج بھی کس قدر طاقتور معاشرہ ہے بمقابلہ یورپین سوسائٹیز کے، لیکن اس کو اگلے مضمون کے لیے چھوڑتاہوں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔