انسان ساز
میری عمر تقریباً اٹھارہ برس کی رہی ہوگی کہ اپنے کمرے میں سفید لباس پہنے بیٹھا ایک "فحش" کہانی پڑھ رہا تھا۔
ایک ایسی رنڈی کی کہانی جو اپنے میلی دیواروں والے کمرے میں ساگوان کے چوڑے پلنگ پر منہ میں سستی شراب کی کڑواہٹ لیے سو رہی تھی۔ اس کے کمرے کے ماحول کا جو منظر تراشا گیا اس سے گھِن آنے کے باوجود کہانی پڑھتا چلا جاتا ہوں۔۔۔ اختتام پر میں جو ایک رنڈی کو معاشرے کا سب سے زیادہ بد اور گھٹیا کردار سمجھتا تھا، اپنے نظریات اور پھر اپنے انسان ہونے پر ندامت محسوس کر نے لگتا ہوں۔۔۔ بالکل ساکت ہو کر رہ جاتا ہوں۔۔۔۔
اسی سکوت کے دوران میں ایک کمزور سا شخص موٹے عدسوں والی عینک لگائے میرے خیالات کی بوسیدہ عمارت میں داخل ہوتا ہے، وہ کیا کرتا ہے کہ مجھے "ٹوبہ ٹیک سنگھ" کے ایک پاگل بشن سنگھ سے ملواتا ہے اور سوال اٹھاتا ہے۔۔۔ جواب نہ پا کر پھر "کھول دو" کی سکینہ سے ملواتا ہے اور سوال کرتا ہے۔۔۔ میں خاموش رہتا ہوں اور مسلسل خاموش رہتا ہوں۔۔۔ پھر وہ میرا ہاتھ تھام کر مجھے موذیل کے پاس لے جاتا ہے اور کبھی کلونت کور کے پاس۔۔۔ وہ دراصل میرے سماج کی بدبودار اور کیچڑ والی گلیوں میں سے گزارتا ہے، جگہ جگہ پاؤں پھسلتے ہیں کبھی وہ گرتا ہے کبھی میں گرتا ہوں۔۔۔ نصاب کی لانڈری میں دھلے میرے نظریات کا سفید لباس کیچڑ سے لت پت ہو جاتا ہے۔۔۔۔
جب خیالات کی اسی بوسیدہ عمارت میں واپس لوٹتے ہیں تو ہر طرف دھواں دھواں ہے۔۔۔ میرےماتھے پر پسینہ ہے میرے گوشت کے ریشے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں۔۔۔ اور پھر وہ مجھے ایک آئینے کے سامنے لے جاتا ہے اور کہتا ہے؛
" لو دیکھو۔۔۔اب دیکھو تم کہاں ہو۔۔۔ تم کیا ہو۔۔۔"
میں کبھی اس کی جانب دیکھتا ہوں کبھی آئینے میں اپنے عکس کو۔۔۔ میرا چہرہ کس قدر گندا ہے۔۔۔ میں کتنا غلیظ ہو چکا ہوں۔ ابھی اس حیرانی میں ہوں کہ وہ آخری سوال کی ضرب لگاتا ہے کہ؛
"بتاؤ کیا میں سچ میں فحش نگار ہوں؟"
میں پھر اسی طرح خاموش ہوں۔۔۔ ندامت میرے چہرے پر واضح ہے لیکن پھر میرا خالی پن بھانپتے ہوئے وہ میری ہتھیلی پر کائنات رکھ کر مجھے احساس دلاجاتا ہے کہ میں کتنا امیر ہوں۔۔۔
اسی لمحے میرے اندر ایک نیا انسان ابھرتا ہے۔ بالکل نیا اور تازہ۔۔۔
میں ایک نئی شکل لیتا ہوں۔۔۔ جو اصل ہے۔۔۔ جو فطرت کے قریب ہے۔۔۔
نظریات کے سانچے میں ڈھلے اس قُربِ عبّاس کی موت ہو جاتی ہے۔۔۔ اور پھر جو پیدا ہوتا ہے اس کا کوئی ملک ہےنہ مذہب، کوئی ذات ہے نہ کوئی قبیلہ۔۔۔
میں دنیا کے ہر ملک کو اپنا وطن سمجھنے لگتا ہوں، ہر قبیلہ میرا قبیلہ بن جاتا ہے۔۔۔ اور فطرت سے محبت میں مبتلا ہو جاتا ہوں۔
لوگ اسے فحش نگار کہتے ہیں، گستاخ کہتے ہیں۔۔۔ سرپھرا بھی سمجھتے ہیں۔۔۔ لیکن میری نظر میں تو وہ "انسان ساز" ہے۔۔۔
کہتے ہیں سعادت حسن منٹو گیارہ مئی کو پیدا ہوا تھا۔۔۔ ہوا ہوگا۔۔۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ صرف دنیا میں آیا تھا، پیدا تو وہ اس وقت ہوا تھا جس دن اس نے اپنا کتبہ اپنے ہاتھوں سے لکھا تھا؛
" یہاں سعادت حسن منٹو دفن ہے۔ اس کے سینے میں فن افسانہ نگاری کے بارے میں اسرار و رموز دفن ہے۔۔۔ وہ اب بھی منوں مٹی کے نیچے سوچ رہا ہے کہ وہ بڑا افسانہ نگار ہے یا خدا۔"
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔