انسان کی کوئی جامع تعریف اُس وقت تک ممکن نہی جب تک انسان تمام علوم کو دریافت نہ کرلے اب تک انسان نے جن علوم کو دریافت کیا ہے اُنھوں نے اپنی سطح پر انسان کی تعریف کرنے کی کوشش کی ہے معیشت کے لحاظ سے انسان معاشی حیوان ہے ،لسانی طور پر حیوان ناطق،سماجی ،گروہی حیوان وغیرہ وغیرہ
حکماء کی نظر میں علم کسے چیز کی حقیقت کو جان لینا ہے اور نیکی بھی یہی قرار پاتا ہے علم کے حصول کے دو ذرائع مانے جاتے ہیں (۱-وہبی علم )اور( ۲-کسبی علم )
وہبی سے مراد وہ علوم ہیں جن کی بنیاد الہام و وحی ہیں اور اس میں انسان کی کوشش کا کوئی عمل دخل نہی ہوتا
کسبی سے مراد وہ علوم ہیں جنھیں انسان حواس خمسہ ،فطرت اور اساتذہ سے اپنی کوشش سے حاصل کرے
وہبی علم کے مطابق انسان کا ایک خالق ہے اور اُس نے انسان کو فیصلہ کا اختیار دے کر دنیا میں امتحان کی غرض سے بھیجا ہے
دنیا میں جتنے بھی مذاہب ہیں اُن کی تعلیمات پر اُس خطہ اراضی کی ثقافت ،موسم ،تہذیب اثر انداز ہوتے ہیں جہاں اُس کا جنم ہوتا ہے کہا جاتا ہے کہ برصغیر کے اصل باشندے ڈراورین ہیں جنہوں نے تاریخ میں ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں یہ بہت ترقی یافتہ سلجھی ہوئی تہذیب تھی جن کی باقیات برصغیر میں جابجا بکھری ہوئی ہیں آرکیلوجسٹ کا خیال ہے کہ ان کا مذہب دیوی اور دیوتاؤں کی پوجا تھا جو بعد میں آرینز کی آمد کے بعد آپسی اختلاط سے ہندو ازم میں تبدیل ہوگیا یہ حکمرانوں کا مذہب تھا اس لیے اس میں ظاہری عبادات،رسوم و رواج اور ذات پات کا اثر و رسوخ اتنا بڑھ گیا کہ اس کے خلاف معاشرے میں بدھ اور جین تحریک پیدا ہوئی جن میں زیادہ توجہ ظاہری عبادات اور درباری سیاست کے بجائے انسان کی اندرونی تربیت پر تھی اور جبلی خواہشات کو کنٹرول کرنا مقصد اوّل قرار پایا جس کے حصول کے لیے لوگوں نے نئے نئے طریقے وضع کیے اور جنگلوں ،غاروں اور ویرانوں میں ڈیرے لگائے جن کی عوام میں بے پناہ پذیرائی ہوئی اس سے جہاں معاشرے میں غیر فطری طریقوں سے جبلی خواہشات کنٹرول کرنے سے نفسیاتی امراض پیدا ہوئے وہیں ایک بے عملی،سستی کاہلی ،بدترین حالات میں بھی اپنے حقوق کی جدوجہد کرنے کے بجائے امتحان من جانب خالق سمجھ کر صبر شکر کرنے کی روایت نے جنم لیا جس کو مقتدر حلقوں نے اپنے مفاد کی خاطر بڑھنے اور پھلنے پھولنے میں مدد دی ،ذرخیز زمینوں اور مندرجہ بالا سوچ کی وجہ سے برصغیر کے باشندے کبھی کسی دوسرے علاقے پر حملہ آور نہی ہوئے بلکہ خارجی حملہ آوروں نے ہی ان پر زیادہ حکومت کی مغلوں سے لے کر برصغیر پر انگریزوں کے قبضہ تک جہاں اور بہت سے عوامل کار فرما تھے مندرجہ بالا سوچ کا بھی خاطر خواہ عمل دخل ہے
انسان کی نفسیات پر جہاں موروثیت کا عمل دخل ہے وہاں پر والدین کی طرف سے پرورش کے لیےمہیا کیا گیا ماحول بہت اہمیت رکھتا ہے ماہر نفسیات کی نظر میں مسلسل وہم اور خوف انسانی ذہن پر غیر معمولی اثرات مرتب کرتے ہیں اور مسلسل ایک جیسے خوف اور غیر یقینی کے ماحول میں رہنے کی وجہ سے بقاء کے ردعمل کے طور پر موروثی جین میں تبدیلی بھی وقوع پذیر ہوسکتی ہے جب پاکستان وجود میں آیا تو بڑے پیمانے پر لوگوں نے دونوں اطراف ہجرت کی اور راستہ میں قتل و غارت گری کی نئی مثالیں قائم ہوئیں جن کے انمٹ نقوش بچ رہنے والوں کو ذہنوں میں ثبت ہوگئے جس سے معاشرے میں موت کے خوف اور غیر یقینی نے انسانی نفسیات کو برُی طرح متاثر کیا مزید یہ کہ ایک بڑے طاقت ور دشمن پڑوسی کی موجودگی نے نئی وجود میں آئی ریاست کی سیاست پر خوف اور بقاء کی غیر یقینی صورتحال نے غیر معمولی اثرات مرتب کیے اور ملکی پالیسی ساز بھی اسی سوچ کا شکار تھے اسی لیے ملکی دفاع کو باقی تمام امور ہر غیر معمولی اہمیت دی گئی ،انہی دنوں یہ بیان سامنے آیا کہ ہم بھوکے ننگے رہ لیں گے مگر اپنی فوج کو مظبوط بنایں گے
یہی وہ حالات تھے جن کے تناظر میں سرمایہ داری اور اشتراکی بائی پولر دُنیا میں پاکستان براہ راست برطانوی کالونی سے نکل کر ان ڈائریکٹ امریکہ کی کالونی بننے پر تیار ہوگیا اور ملکی سیول اسٹیبلشمنٹ اور فوج کی تربیت امریکی طریقہ سے کروائی جانے لگی اسی خوف اور غیر محفوظ نفسیات کے ماحول میں پاکستان دولخت ہوگیا جس سےعوام اور حکومت کے درمیان اعتماد کو مزید دھچکا لگا ملکی سیاست میں اقتدار کے حصول کی کشمکش نے اس عوامی غیر یقینی اور بے اعتمادی کو مزید دھچکا لگا ملکی سیاست میں اقتدار کے حصول کی کشمکش نے اس عوامی غیر یقینی اور بے اعتمادی کو مزید تقویت دی اسی بے اعتمادی اور خوف کے حالات میں میجورٹی کو اقلیت سے خوف لاحق ہوا اور اقلیت کے خلاف سیاسی سماجی جدوجہد کرکے دُنیا کی تاریخ میں پہلی دفعہ پارلیمنٹ سے اقلیت کوغیر مسلم قرار دلوایا گیا ، اس سیاسی کشمکش اور درباری سازشوں کا اختتام منتخب وزیراعظم کی شہادت اور دوسرے فوجی مارشل لاء کے نفاذ پر ہوا یہ وہ وقت تھا جب دنیا میں روس اور امریکہ کی سرد جنگ جاری تھی امریکی جنگی پالیسی ساز روس کو افغانستان میں سبق سکھا کر ویتنام جنگ کا حساب بے باک کرنا چاہتے تھے
پاکستان میں اقتدار پر قابض قوتوں نے اس کو اقتدار پر گرفت مظبوط کرنے کا موقع سمجھا اور اس لڑائی میں امریکہ کی حمایت میں کود گئے عوامی سطح پر اس جنگ کی حمایت حاصل کرنے کیلیے “پاکستان اسلام کا قلعہ ہےاور یہود ہنود کا اتحاد کیمونیزم کی شکل میں ہم ہر حملہ آور ہے “کا بیانیہ تشکیل دیا گیا اور ریاستی سطح پر اسلامی جہاد کی ترویج کی گئی اور وہابی فقہ کے لوگوں کو ریاستی سرپرستی میں جہاد کیلیے تیار کیا جانے لگا اسی دور میں ملاء کو پاکستان کی سیاست میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہوئی اور بڑے پیمانے پر پیٹروڈالر کی آمد سے مدارس کا قیام عمل میں لایا گیا پاکستان کے گلی محلوں میں قائم مساجد اور مدارس سے باقاعدہ اس بیانیہ کی حکومتی سرپرستی میں ترویج کی گئی اور روایتی تعلیمی نصاب کو بھی مشرف با اسلام کیا گیا مزید عوام کو برادری اور فقہی گروہوں میں تقسیم کردیا گیا لٹریچر میں ترقی پسند مواد پر تصوف پر مبنی مواد کی حکومتی سرپرستی کی گئی تاکہ کسی بڑی عوامی اجتماعی جدوجہد کے امکانات کو کم سے کم کیا جاسکے ان سب حالات نے پاکستان کے عوام کو بہت سارے نفسیاتی امراض میں مبتلا کردیا ہے اور ایک ماہر نفسیات کے مطابق پاکستان میں ہر تیسرا شحص غذائی قلت اور موروثی امراض کی وجہ سے کسی نہ کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہے یہی وہ نفسیاتی امراض میں مبتلا بقاء کی جنگ لڑتےمملکت خداداد کے عوام ہیں جو الیکشن میں ووٹ ڈالتے ہیں اور حکمرانوں کو حق حکمرانی عطاء کرتے ہیں وہ بھی یہاں کی اسٹیبلشمنٹ کو منظور نہی-اب حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ ریاست پاکستان کی حالت اُس مانگنے والے فقیر کی سی ہوگئی ہے جو روز اپنے زخم کو کھرچ کر تازہ کرتا ہے کہ لہوبہتا دیکھ کر بھیک زیادہ ملے لیکن اب بھیک دینے والے بھی شائد سمجھ گئے ہیں –